ڈھاکہ// بنگلہ دیش میں سیلاب سے مرنے والوں کی تعداد بڑھ کر 42 ہو گئی ہے ۔حکام نے ہفتہ کو یہ جانکاری دی۔ڈیزاسٹر مینجمنٹ اور ریلیف کی وزارت کے تحت ملک کے نیشنل ڈیزاسٹر رسپانس کوآرڈینیشن سینٹر کی تازہ ترین ڈیزاسٹر صورتحال کی رپورٹ کے مطابق ملک کے کل 64 اضلاع میں سے 11 میں تقریباً 50 لاکھ افراد سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سیلاب سے متاثرہ سات اضلاع میں 42 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ ہندوستانی سرحدوں پر موسلادھار بارشوں اور پہاڑیوں سے آنے والے پانی کے باعث آنے والے سیلاب میں سڑکیں بہہ گئی ہیں۔ حکام اب بھی بہت سے جنوب مشرقی اور شمالی اضلاع میں سامان پہنچانے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ مزید برآں، سیلاب نے شمالی اور جنوب مشرقی علاقوں کے بڑے حصوں میں گھروں اور فصلوں کو کافی نقصان پہنچایا ہے ۔بنگلہ دیش میں حالیہ مون سون بارشوں کے باعث آنے والے سیلاب سے تقریباً 3 لاکھ افراد ایمرجنسی پناہ گاہوں میں منتقل ہو گئے ہیں۔ ہفتے کو سیلاب کے باعث نشیبی علاقے زیر آب آجانے کی وجہ سے 3 لاکھ افراد ہنگامی پناہ گاہوں میں منتقل ہوئے ہیں۔شدید مون سون بارشوں کے نتیجے میں سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے علاقے فینی میں قائم ریلیف شیلٹر میں مقیم 60 سالہ لفتون نہار نے ’اے ایف پی‘ کو بتایا کہ سیلاب سے ان کا پورا گھر تباہ ہوچکا ہے۔انہوں نے بتایا کہ پانی ان کے گھر کی چھت کے اوپر سے گزر رہا تھا اور ان کے بھائی نے انہیں کشتی کے ذریعے یہاں تک پہنچایا ہے، اگر وہ ہمیں یہاں نہ لاتے تو ہم مر چکے ہوتے۔سیلاب سے دارالحکومت ڈھاکا اور مرکزی بندرگاہی شہر چٹاگانگ کے درمیان شاہراہوں اور ریلوے لائنوں کو نقصان پہنچا ہے جس کی وجہ سے سیلاب زدہ اضلاع تک رسائی مشکل ہوگئی ہے اور کاروباری سرگرمیاں متاثر ہوئی ہیں۔خیال رہے کہ یہ سیلاب طلبہ کی قیادت میں ایک انقلاب کے ذریعے حکومت کا تختہ الٹنے کے چند ہفتوں آیا ہے۔سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے علاقوں میں کاکس بازار بھی شامل ہے جہاں ہمسایہ ملک میانمار سے آنے والے تقریباً 10 لاکھ روہنگیا پناہ گزین رہتے ہیں۔تریپورہ کی آفات سے نمٹنے والی ریاستی ایجنسی کے عہدیدار سرت کمد داس نے ’اے ایف پی‘ کو بتایا کہ پیر سے اب تک بھارتی سرحد سے منسلک علاقوں میں اب تک 24 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ ’سیلاب سے کْل 45 لاکھ افراد متاثر ہوئے ہیں جن میں سے 2 لاکھ 85 ہزار افراد ایمرجنسی پناہ گاہوں میں رہ رہے ہیں۔‘دوسری طرف نوبیل امن انعام یافتہ محمد یونس کی قیادت میں عبوری حکومت اپنے قدم جما رہی ہے، وہیں عام بنگلہ دیشی شہری امدادی کاموں کے لیے فنڈز جمع کر رہے ہیں۔ان امدادی کاموں کے لیے فنڈز کا اہتمام انہی طلبہ کی جانب سے کیا جا رہا ہے جنہوں نے ان مظاہروں کی قیادت کی تھی جو شیخ حسینہ واجد کی اقتدار سے بے دخلی کا باعث بنے تھے۔تاہم موسمیاتی پیش گوئیوں کے مطابق آنے والے دنوں میں بارشوں میں کمی کا امکان ہے۔