معراج زرگر
پرانے مٹی گارے سے بنے ہوئے دو کمروں ، ایک رسوئی اور ایک پرانے ہی طرز کے غسل خانے پر مشتمل گھر کا باہری چوبی دروازہ اکثر کھلا ہی رہتا تھا۔ دروازے پر لگی پرانے طرز والی کنڈی باہر سے لٹکتی رہتی تھی۔ یہ گھر محلے میں واحد گھر تھا جو ابھی پرانی وضع قطع اور تعمیر پر موجود تھا۔ باقی آس پاس سارے گھر نئے نقشوں اور نئے طرزوں پر بن چکے تھے۔ آسودہ حال ہمسائیوں نے کئی بار ماسٹر جی سے مکان اور دس مرلے کے صحن کو خریدنے کی کوشش کی، لیکن معقول رقم کے باوجود ماسٹر جی نے ہمیشہ ایک مسکراہٹ کے ساتھ انکار کیا۔۔ پڑوسیوں کو نہیں معلوم تھا کہ دن میں یہ گھرمخلوقِ خدا کی پناہ گاہ اور راتوں میں کئی مدفون اسرار کا مخزن تھا۔ اگر کوئی صاحب دل اس گھر میں جھانکنے کی استطاعت رکھتا ہوتا تو اسے لگتا کہ یہ معمولی سا گھر زمین پر کھڑا نہیں ہے بلکہ کسی اور جہاں میں معلق ہے۔
ماسٹر جی کو ریٹائر ہوئے دس سال ہوچکے تھے۔ بڑا بیٹا امریکہ جابسا اور چھوٹا بیٹا قطر کی ایک تیل کمپنی کی اونچی کرسی پر براجمان ہوگیا۔ ماسٹر جی کی زوجہ سات سال پہلے ماسٹر جی کو داغ مفارقت دے گئی تھی۔ گھر میں برسوں پرانے ایک شاگرد کا گونگا اٹھارہ سال کا بیٹا یوسف ماسٹر جی کو دل دے بیٹھا تھا۔ ماسٹر جی اور یوسف ایک دوسرے کے عاشق تھے۔ ماسٹر جی کی پسند یوسف کی پسند اور یوسف کی پسند ماسٹر جی کی پسند۔ کبھی کسی بات پر نا اتفاقی ہوئی ہی نہیں۔
یوسف بول نہیں سکتا تھا مگر شاید وہ کائنات کے راز جان گیا تھا اور تخلیق کار خداوند نے اس کی زبان پر مہر ثبت کی تھی۔ یوسف کی بولی یا تو ماسٹر جی سمجھتے تھے یا چرند و پرند۔ اسی لئے اس کے ایک ایک اشارے پر ماسٹر جی اس کا ماتھا چومتے تھے، اسے گلے لگاتے تھے۔ اور اپنے ہاتھوں میں اس کے ہاتھ لے کے انہیں سہلاتے تھے۔ یوسف کے دل میں ماسٹر جی کے علاوہ کوئی نہیں بستا تھا۔ وہی مائی باپ اور وہی خداوند۔
ماسٹر جی کی اچھی خاصی پینشن کی رقم، ایک اچھے سیب کے باغ سے آئی ہوئی آمدنی اور ہر مہینے بیٹوں کی جانب سے آئی ہوئی اچھی خاصی موٹی رقم ہر مہینے کے پہلے ہفتے میں ہی گاوں کی بیواوں اور محتاج گھرانوں میں چوری چوری اور چپکے یوسف کے ہاتھوں تقسیم ہوتی تھی، یا خود ہی محتاج ماسٹر کا دروازہ کھٹکھٹاتے تھے اور یوسف ایک آسمانی مسکراہٹ کے ساتھ ایک تو دروازہ کھولتے تھے، دوسرا ماسٹر جی کے پاس لے جاکر حاجت روائی کرواتے تھے۔ جب بھی کسی محتاج کی حاجت روائی ہوتی تھی تو یوسف آنگن میں آکر ناچنے لگتے تھے اور اپنا چہرہ اور پھیلے ہوئے ہاتھ آسمان کی طرف بار بار اٹھاکر کسی درویش کی طرح محو رقص ہوجاتے تھے۔ ماسٹر جی کھڑکی میں جھانک کر اپنے مصلے پر ہاتھ اٹھاتے تھے اور یوسف کے لئے دعا کرتے تھے۔ دل کے دو درویشوں کی گذر بسر پہ ملائکہ بھی ہنستے تھے۔
وقت کا پہیہ بدلا اور ماسٹر جی بیمار پڑ گئے۔ کمر میں درد، سانسوں میں لرزش اور آنکھوں میں کسی آنے والے سفر کی پرچھائیاں صاف دکھائی دینے لگیں۔ یوسف نے خدمت کو عبادت بنا لیا۔ رات کے سناٹے میں کبھی ماسٹر جی کھانستے تو یوسف بھاگ کر پانی لے آتا۔ کبھی ماسٹر جی کروٹ بدلنے کو کہتے تو یوسف اشاروں سے ان کا بستر درست کرتا۔ ماسٹر جی جب کبھی غنودگی میں ڈوبتے تو یوسف ان کے پاؤں دبا کر اپنی آنکھوں میں نمی چھپاتا۔
ماسٹر جی کی بیماری کے دنوں میں یوسف کے اندر ایک دیوانگی نے جنم لیا۔ وہ صحن میں رقص کرتا مگر یہ رقص اب مسرت کا نہیں تھا بلکہ اضطراب کا تھا۔ آسمان کی طرف اُٹھے ہاتھ کبھی دعا لگتے اور کبھی فریاد۔ محلے والے حیران رہ گئے کہ یوسف کے چہرے پر ایک ایسی چمک ہے جو انسانی دکھ اور ماورائی سرور کے درمیان کی کسی نازک کیفیت کا پتہ دیتی تھی۔
ایک جمعرات رات گہری ہو چکی تھی۔ کمرے میں مدھم سا تیل کا چراغ جل رہا تھا جس کی لرزتی لو دیواروں پر سائے بنا رہی تھی۔ باہر بارش کی بوندیں پرانے چھجے سے ٹپک رہی تھیں۔ ماسٹر جی چارپائی پر نیم دراز تھے۔ ایک ہاتھ میں تسبیح لے کر وہ کچھ ورد کر رہے تھے، ان گنت وسوسوں کے ساتھ۔ یوسف ان کے قدموں پر بیٹھا تھا اور خاموشی سے ان کے پاؤں دبا رہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں نمی تھی مگر چہرے پر ایک عجب نور۔ ماسٹر جی کی آنکھیں بند تھیں مگر قلب جاگ رہا تھا۔ اس نے یوسف کو مخاطب ہوکر کہا،
میرے بچے یوسف…!” بولنے کے لئے زبان نہیں چاہیے۔۔۔۔۔ بولنے کے لئے دل چاہیے۔۔۔۔۔۔ اور تمہارا دل مجھ سے بھی بڑا ہے۔۔۔۔۔”
یوسف مسکرایا اور اپنی انگلی آسمان کی طرف اٹھا کر پھر ماسٹر جی کے سینے پہ دل کے مقام پہ رکھی ۔ ماسٹر جی نے آنکھیں بدستور بند رکھ کر ہلکا سا مسکراکر کہا،
“ہاں۔۔۔۔ میں سمجھ گیا۔ تو کہہ رہا ہے کہ جو اوپر ہے، وہی دل کے اندر ہے۔ واہ یوسفا۔۔۔۔۔! تمہاری زبان بند ہے مگر بولتے سب سے زیادہ ہو۔” ماسٹر جی نے آنکھیں کھولیں۔
یوسف مسکراتے ہوئے اپنے دونوں ہاتھ پھیلا دیتا ہے جیسے پورے کمرے کو گلے لگا رہا ہو۔
ماسٹر جی نے ہلکا سا کھانس کر کہا،
“ہاں بیٹا…۔۔۔ زندگی بھی یہی ہے۔ سب کو گلے لگا لینا۔۔۔۔۔۔۔ ورنہ دل بھی دروازہ بن جاتا ہے…۔۔۔ بند دروازہ۔۔۔۔۔”
یوسف نے آگے بڑھ کر ماسٹر جی کا ماتھا چوما اور پھر انگلیوں سے کتاب کا اشارہ بنایا اور اپنے دل کی طرف اشارہ کیا۔
“جی۔۔۔ کتاب۔۔۔۔!دل کی کتاب۔۔۔!” ماسٹر جی نے مسکراہٹ جاری رکھی۔
“بالکل میرے لعل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔! اصل کتاب کاغذ کی نہیں دل کی ہے۔۔۔۔۔۔ اور تم نے اس کتاب کو پڑھ لیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم لوگ برسوں قلم گھساتے رہے اور بڑی بڑی واعظانہ اور خطیبانہ باتیں کرتے رہے مگر وہ ایک حرف بھی نہ جان سکے جو تم نے بنا زبان کے اور بنا تقریروں کے اپنے دل میں اُتار لیا۔ تمہارا دل روشن ہے یوسفا۔۔۔۔۔۔”
یوسف آنکھیں بند کر کے دونوں ہاتھ دعا کے انداز میں اٹھاتا ہے اور پھر ماسٹر جی کے سینے پر رکھ دیتا ہے۔
ماسٹر جی نے نم آنکھوں سے یوسف کے سر کو اپنے سینے سے لگائے رکھا۔
“یوسف۔۔۔۔۔ میں تمہیں وصیت کرتا ہوں… جب میں نہ رہوں۔۔۔۔۔۔ تو یہ دروازہ بند نہ کرنا۔۔۔۔۔ اس گھر کا دروازہ نہیں۔۔۔۔۔؟ اپنے دل کا دروازہ۔۔۔۔۔ یہی دروازہ خدا تک کھلتا ہے۔۔۔۔۔”
یوسف اپنی مٹھی بند کرتا ہے۔ پھر آہستہ سے کھولتا ہے جیسے کوئی دروازہ کھل رہا ہو۔
ماسٹر جی کرب اور مسکراہٹ کے سنگم میں یوسف کے چہرے پہ ہاتھ رکھ کر کہتا ہے،
“واہ یوسفا۔۔۔۔۔۔۔! تمہارے اشارے بھی صوفیانہ ہیں۔۔۔۔۔۔ مجھ جیسے نادان انسان کو وجد میں لاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ میں ماسٹر ہمیشہ لفظوں میں قید رہا اور تم اشاروں میں آزاد ہو گئے۔۔۔۔۔”
یوسف ماسٹر جی کے ہاتھوں کو اپنے گالوں سے لگا کر خاموشی سے رو دیتا ہے۔
ماسٹر جی نے یوسف کو تسلی دیتے ہوئے کہا،
رو مت میرے بیٹے… اشک بھی دراصل دعا ہوتے ہیں۔ اور سنو۔۔۔۔۔ اگر کبھی دنیا تمہیں نہ سمجھے تو یاد رکھنا… خدا تمہیں خوب سمجھتا ہے۔۔۔۔۔۔”
یوسف اپنی آنکھوں کی نمی کو انگلیوں سے چومتا ہے اور آسمان کی طرف اٹھا دیتا ہے۔
ماسٹر جی نے پھر دھیرے سے کہا،
“یوسف… زندگی دراصل ایک سوال ہے اور موت اس کا جواب۔۔۔۔۔۔۔ مگر یہ جواب کتابوں میں نہیں ملتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ دل کے اندر اُگتا ہے۔۔۔۔۔۔ زندگی ایک امانت ہے۔۔۔۔۔ ہم آتے ہیں۔۔۔۔۔ دروازہ کھولتے ہیں اور پھر رخصت ہو جاتے ہیں۔
لیکن اصل راز یہ ہے کہ… دروازہ صرف اپنے لئے نہیں کھلتا… خدا کی مخلوق کے لئے کھلتا ہے۔۔۔۔۔۔”
یہ کہہ کر ماسٹر جی کی سانس اور لہجہ دھیما پڑنے لگا۔ یوسف اپنے کان ماسٹر جی کے لبوں کے قریب لے آتا ہے۔ ماسٹر جی کی سانس ٹوٹنے لگتی ہے اور وہ آخری سرگوشی کرتے ہیں،
“میرے لخت جگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔دل کا دروازہ کبھی بند نہ کرنا…… اور دل خدا کا گھر ہے۔۔۔۔۔۔۔ خدا کے مسافر ہمیشہ آتے رہتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔میں جا رہا ہوں۔۔۔۔ مگر یہ گھر… یہ دروازہ… اب تمہارا امتحان ہے۔۔۔۔۔اور اسی دروازے اور امتحان سے گذر کر سب اللہ کے دوست سرخرو ہوتے ہیں۔۔۔۔تمہیں بھی سرخرو ہونا ہے۔۔۔میرے بچے۔۔۔۔۔۔”
یہ کہہ کر ماسٹر جی کی آنکھیں بند ہوگئیں۔۔۔۔۔تسبیح ہاتھ سے چھوٹ گئی۔۔۔ چراغ کی لو اس لمحے تیز ہو کر پھر بجھ گئی۔ کمرہ اندھیرے میں ڈوب گیا اور یوسف نے برزخ میں دروازہ کھلنے کی ایک صدا اپنے دل کے اندر سنی، مگر زبان پر مہر ثبت تھی۔ اور یوسف کا دل… ایک نئے جہان کا دروازہ بن گیا۔ اس نے چیخنے کی کوشش کی مگر آواز حلق میں ہی دفن ہوگئی۔ وہ پاگلوں کی طرح صحن میں دوڑا، آسمان کی طرف ہاتھ اٹھائے۔۔۔۔۔ وحشت کے عالم میں رقص کرنے لگا اور پھر بے ہوش ہو کر گر پڑا۔
یوسف پر ایک عجیب کیفیت طاری ہوئی۔ ایسی کیفیت جس میں ہنسی بھی تھی اور گریہ بھی۔ وہ کئی دن صحن میں رقص کرتا رہا۔ کبھی ہنستا، کبھی اپنی چھاتی پیٹتا، کبھی آسمان کو چومنے کی کوشش کرتا۔ پھر اچانک ایک رات جب چاند کی روشنی صحن میں پھیل رہی تھی، یوسف بھی غائب ہوگیا۔ دروازہ اندر سے بند ہوگیا۔ محتاج دروازہ کھٹکھٹاتے رہے مگر کوئی جواب نہ ملا۔ دروازہ بند ہوگیا تھا اورمکان سناٹے میں دفن ہو گیا۔
یوسف بیابانوں اور جنگلوں کی وسعتوں میں نکل پڑا۔ دن جلتے سورج کے نیچے، راتیں ٹھنڈے ستاروں کے سائے میں۔ وہ بھوکا بھی رہتا مگر اسے اوس کی بوند سیراب کرتی۔ جنگلی میووں کو کھا کر زندہ رہتا اور کبھی محض خاموشی سے شکم بھر لیتا۔ کئی مہینے گذرے۔ ایک رات وہ ایک ویران پتھروں کے بنے ہوئے کوٹھے میں داخل ہوا جہاں وحشتیں اور اندھیرےسانس لیتے تھے۔ اس نے زمین پر اپنے ہاتھ رکھےتو زمین کی دھڑکن سنائی دی۔ ایک غیبی آواز سنائی دی،
“انسانوں کے دروازے بند ہیں کیونکہ ان کے دل بند ہیں۔۔۔۔۔ دل کھولو تو سب دروازے کھل جائیں گے۔”
یوسف کو بے اختیار اپنے ماسٹرجی یاد آئے۔ وہ سجدے میں گر گئے اور زارو قطار رونے لگے۔ چاند کہیں سے نمودار ہوا اور اس کی خنکی نے یوسف کے لئے روشنی اور اطمینان کی دری بچھائی اور وہ سوگیا۔
ایک دن ایک خشک درخت کے سائے میں بیٹھا تھا کہ ایک مسافر درویش اچانک اس کے سامنے کھڑا ہوگیا۔ اس درویش کی آنکھوں میں آگ جل رہی تھی، چہرے پر سکون تھا اور ہونٹوں پر خاموشی تھی۔ اس نے یوسف کی طرف دیکھا اور کہا،
” اے خاموش رہنے والے نادان۔۔۔۔۔۔۔ تمہیں وہ امانت ملی ہے جو صدیوں سے محفوظ ہے۔۔۔۔۔۔ لیکن یاد رکھو۔۔۔۔۔۔ دروازہ کبھی بند نہ کرنا۔۔۔۔۔۔” اتنا کہہ کر وہ درویش ڈھلان اتر کر غائب ہوگیا۔
یوسف نے اس کے قدموں کے نشان چومے اور چل پڑا۔
کئی مہینوں تک وہ جنگل کی راہداریوں میں اپنے دل کے کواڑوں کو کبھی مقفل ہوتے دیکھتا تو کبھی کُھلا ہوتے دیکھتا۔ کبھی ندیوں کے بیچ بہتے پانی کے ساز سنتا، کبھی جھلمل روشنیوں کو چھوتا اور کبھی اندھیروں کو گلے لگاتا۔ وہ کائنات کا وہ حصہ دیکھتا رہا جسے عام آنکھ نہیں دیکھ سکتی۔ وقت، یوسف کے لئے رُک گیا تھا۔ اس کی زبان تالو سے چمٹائی گئی تھی مگر اس کے اندر کے روزنوں سے الہام اُتر رہے تھے۔
سردیاں بڑھتی تو یوسف جنگل سے اتر کر قریب والے چھوٹے سے گاوں کی پرانی مسجد میں آکر بیٹھ جاتا۔ جہاں ساتھ والے مکان میں رہ رہا ایک رحم دل انسان اسے کھانا اور چائے پہنچا دیتا۔ کبھی کبھی یوسف اس رحمدل انسان کے گھر جاکر بھی کئی کئی دن تک بیٹھا رہتا۔ ایک دن وہ مسجد میں عصر کے بعد بیٹھا تھا کہ اچانک جنگل والا درویش پھر سے تیز تیز قدموں سے مسجد کے اندر داخل ہوا اور یوسف سے مخاطب ہوا،
“گونگے مسافر۔۔۔۔۔۔! تم اپنی زبان سے نہیں بولتے مگر تمہاری خاموشی عرش تک گونجتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ بتاؤ۔۔۔۔۔ کیا معاملہ درپیش ہے۔۔۔۔؟”
یوسف نے اپنی چھاتی پر ہاتھ رکھا، پھر دروازے کا اشارہ بنایا۔
درویش نے ہنسی میں سر ہلایا۔
“ہاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دل کا دروازہ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ دروازہ صرف ایک بار کھلتا ہے۔۔۔۔۔۔۔ پھر کبھی بند نہیں ہوتا۔۔۔۔۔۔۔ لیکن یاد رکھو۔۔۔۔۔۔اگر یہ دروازہ صرف تمہارے لئے کھلے تو یہ قید ہے۔۔۔۔۔۔۔ اگر سب کے لئے کھلے۔۔۔۔۔ تب یہ آزادی ہے۔۔۔۔”
یوسف کے آنسو بہنے لگے۔ اس نے مسجد میں اوپر کی طرف ہاتھ پھیلائے۔
درویش نے پھر سے کہا،
“بے زبان بچے۔۔۔۔۔۔۔ تمہیں ایک امانت دی گئی ہے۔۔۔۔۔۔۔ ماسٹر جی کا دروازہ صرف مکان کا نہیں، دلوں کی سختیوں کو دور کرنے والا دروازہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاؤ۔۔۔۔۔۔ اور اسے دوبارہ کھولو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”
یوسف رونے لگا۔
“کیوں روتے ہو، اے خاموش زباں والے۔۔۔۔؟”
“غم یہ نہیں کہ تمہارے استاد گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ غم یہ ہے کہ تم نے خود کو کھو دیا ہے۔۔۔۔۔۔۔یاد رکھو۔۔۔۔۔۔۔! جو محبوب تمہیں چھوڑ جائے، وہ تمہارے اندر اتر جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔وہ بند دروازے کی طرح دکھائی دیتا ہے مگر حقیقت میں وہ دل کے اندر کا در کھولتا ہے۔۔۔”
یوسف نے درویش کا دامن پکڑا اور اس سے لپٹ گیا۔ درویش نےاس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا،
“اے فرزندِ خاموشی۔۔۔۔۔۔۔۔۔! خدا کی زبان خاموشی ہے اور باقی سب شور ہے۔ اور سب سے بڑی عبادت اللہ کے بندوں کی خدمت ہے۔
اب تمہارا امتحان ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔جائو۔۔۔۔۔۔۔اور لوگو ں کے لئے دروازہ کھولو… تمہیں ماسٹر جی کا راز ملے گا۔۔۔””
اگلی صبح فجر کے وقت محلے والوں نے دیکھا کہ ماسٹر جی کے پرانے مکان کا بند دروازہ کھل گیا ہے۔ اندر صحن میں یوسف بیٹھا تھا۔۔۔۔۔۔ مگر وہ اب وہی یوسف نہ تھا۔ اس کی آنکھوں میں جنگلوں کے راز تھے، دل میں صحراؤں کی وسعت تھی، ماتھے پر ستاروں کی روشنی تھی، لبوں پر گنگناتی ندیوں کا طلسم تھا اور دروازے کھولنے کا یدِ بیضا تھا۔ وہ اب بھی گونگا تھا مگر اس کی خاموشی میں ہزاروں زبانیں تھیں۔ اس کی مسکراہٹ میں اسرار تھے، ہاتھوں میں دعا کی لرزش اور آنکھوں میں وہی روشنی جو کبھی ماسٹر جی کی آنکھوں میں چمکتی تھی۔
ماسٹر جی کے گھر کے دروازے کا کھلنا تھا کہ غیب کے دروازے بھی کھل گئے۔ یوسف کا دل اور اس کے ہاتھ بانٹتے رہے اوریوسف کے دل کی کھلی کھڑکی میں ماسٹرجی کی روح مسکراتی رہتی۔
���
ترال، پلوامہ، کشمیر، موبائل نمبر؛9906830807