ویب ڈیسک
امریکی ماہرین کی جانب سے کی جانے والی ایک طویل تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ بلڈ ٹیسٹ سے قبل از وقت فالج کے خطرات کی نشاندہی ہو سکتی ہے۔عام طور پر جسم کے بعض حصوں کے مفلوج یا ناکارہ ہونے کو فالج کی علامات سمجھا جاتا ہے اور فالج کے خطرات کی نشاندہی کرنا مشکل ہوتا ہے، اس کے لیے ایم آر آئی، سی ٹی اسکین اور بہت سارے بلڈ ٹیسٹس سمیت دوسری چیزوں کو بھی دیکھا جاتا ہے۔تاہم اب ماہرین نے دریافت کیا ہے کہ اگر ایک خاص طرح کا بلڈ ٹیسٹ کیا جائے تو اس سے قبل از وقت فالج کے خطرات کی نشاندہی کی جا سکتی ہے۔
طبی جریدے اسٹروک میں شائع تحقیق کے مطابق امریکی ماہرین نے کئی دہائیوں سے مریض افراد کے ڈیٹا کا جائزہ لے کر ان کے فالج ہونے کا سبب تلاش کیا۔
ماہرین نے فالج کا شکار ہونے والے افراد کی جانب سے کرائے جانے والے بلڈ ٹیسٹس سمیت دوسرے ٹیسٹس کا بھی جائزہ لیا اور پھر نتیجہ اخذ کیا۔ماہرین نے مرد اور خواتین کے ڈیٹا کا جائزہ لیا اور زیادہ تر رضاکاروں کی عمریں 45 برس تک تھیں اور ماہرین نے ان میں فالج کی عام قسم اکیمک اسٹروک (ischemic stroke) سمیت انجری اسٹروک کا جائزہ لیا۔
ماہرین نے پایا کہ انفلیمیشن (inflammation) یعنی تیزابیت یا سوزش کے ایک گروپ کے متحرک ہونے کی وجہ سے زیادہ تر افراد فالج کا شکار بن سکتے ہیں۔
بلڈ ٹیسٹ کے ذریعے انفلیمیشن (inflammation) کا الگ ٹیسٹ بھی ہوتا ہے جب کہ ماہرین انفلیمیشن کو مزید جاننے کے لیے مختلف پروٹینز کے ٹیسٹ بھی کرواتے ہیں اور پروٹینز کا نارمل رینج سے زیادہ
ہونا کسی بیماری کی نشاندہی کرتا ہے۔ماہرین کے مطابق مونوسائٹ سمیت دیگر پروٹینز کی نارمل سے زائد مقدار فالج کے خطرے کی علامات کو ظاہر کرتا ہے اور اگر متعدد انفلمیٹری پروٹینز نارمل رینج سے زائد ہوں تو اس سے عام افراد میں فالج کے شکار ہونے کے امکانات چار فیصد سے زائد ہوجاتے ہیں۔
ماہرین نے مذکورہ معاملے پر مزید تحقیق کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ انفلیمیٹری پروٹینز یا گروپس کے بلڈ ٹیسٹس پر مزید ریسرچ کی جائے۔
درین اثناامریکی ماہرین نے کورونا سے تحفظ کی ٹیکنالوجی کی طرز پر دماغی کینسر کے علاج کی نئی ویکسین تیار کرلی، جس کے ابتدائی آزمائش کے نتائج حوصلہ کن آئے ہیں۔
طبی جریدے سیل میں شائع تحقیق کے مطابق امریکا کی یونیورسٹی آف فلوریڈا کے ماہرین نے ایم آر این اے ٹیکنالوجی کی ویکسین تیار کرکے پہلے اس کی آزمائش جانوروں پر کی، اس کے بعد اسے انسانوں پر بھی آزمایا گیا۔ماہرین نے دماغی کینسر یعنی برین ٹیومر اور گلیوبلاسٹوما (Glioblastoma) کے علاج کی ویکسین تیار کی، جسے ابتدائی طور پر دماغی کینسر اور برین ٹیومر میں مبتلا 10 کتوں پر آزمایا گیا۔ماہرین نے کتوں کے ایک گروپ کو نئی ویکسین دی جب کہ ایک گروپ کے کتوں کا روایتی انداز سے علاج کیا۔
تحقیق کے دوران روایتی علاج کروانے والے کتے پروگرام کے 60 دن کے اندر ہی بیماری کی وجہ سے ہلاک ہوئے جب کہ جنہیں ایم آر این اے ٹیکنالوجی سے تیار کردہ ویکسین دی گئی وہ 139 دن تک زندہ رہے، یعنی ان میں بیماری بڑھنے کی رفتار سست ہوگئی۔کتوں پر کامیاب آزمائش کے بعد ماہرین نے اسے انسانوں پر بھی آزمایا اور دماغی کینسر میں مبتلا چار انسانوں کو پروگرام کے لیے منتخب کیا گیا۔
ماہرین نے برین ٹیومر میں مبتلا مریضوں کو نئی ویکسین دینے کے بعد ان کے دماغ میں ہونے والی تبدیلیوں کا جائزہ لیا۔ماہرین کے مطابق ویکسین دیے جانے کے دو دن بعد مریض انسانوں کے دماغ میں تبدیلیاں ہونا شروع ہوئیں اور برین ٹیومر پگھلنا یا نرم ہونا شروع ہوگیا جو کہ کیموتھراپی یا ریڈی ایشن کے کئی ہفتوں بعد نرم ہوتا ہے۔
ماہرین نے نئی ویکسین کے لیے زیادہ سے زیادہ مریضوں پر آزمائش کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ابتدائی نتائج سے معلوم ہوا کہ ویکسین لگانے کے بعد انسان میں بیماری بڑھنے کی شرح سست ہوجاتی ہے۔خیال رہے کہ ایم آر این اے ٹیکنالوجی پر بنائی گئی ویکسین انسانی جسم اور خصوصی طور پر بیمار سیلز کو پروٹین یعنی طاقت فراہم کرکے انہیں جسم کے اندر پیدا ہونے والی بیماریوں کے خلاف لڑنے کے لیے تیار کرتے ہیں۔پہلی بار کورونا کی ویکسین میں اس ٹیکنالوجی کو استعمال کیا گیا تھا، تاہم مذکورہ ٹیکنالوجی پہلے سے ہی موجود تھی لیکن اس پر ویکسین اب بنانا شروع کیے گئے ہیں اور اس ٹیکنالوجی کو سب سے موثر قرار دیا جا رہاہے۔