اشفاق سعید
سرینگر // جموں وکشمیر میں چار سال قبل حکام نے زلزلہ سے محفوظ عمارات کی تعمیر کیلئے ’ بلڈنگ قوانین‘‘ کو منظوری دی تھی لیکن نہ ہی اس پر آج تک عمل کیا گیا اور نہ کہیں ایسی عمارات تعمیر کی جاتی ہیں جو زلزلہ سے محفوظ ہوں ۔زلزلہ زون 4اور 5میں آنے والی جموں وکشمیر یوٹی میں بے ڈھنگی تعمیرات کبھی بھی انسانی جانوں کیلئے خطرناک ثابت ہو سکتی ہیں اور اُس کی روکتھام کیلئے نقصانات کو کم کرنے کیلئے’’ بلڈنگ بائی لاز ‘‘ bulding bye laws} ( میں ترمیم لانے کی یقین دہانی کرنے کے باوجود بھی اس پر کوئی عمل درآمد نہیں ہو رہا ہے۔ معلوم رہے کہ جموں وکشمیر زلزلے کیلئے انتہائی خطرے والا زون ہے، اور ماہرین نے اسے زون چار اور پانچ پہلے ہی قراد دیا ہے اور یہاں اکثر بیشتر زلزلے آنے کا خطرہ بھی رہتا ہے۔
رواں سال جولائی تک وادی میں16بارزلزلے کے جھٹکے محسوس کئے گئے ہیں۔ٹھیک 17سال قبل آج ہی کے دن 8اکتوبراکتوبر 2005کے تباہ کن زلزلے میں بڑے پیمانے پر املاک کو نقصان پہنچنے کے بعد یہ خدشات ظاہر کئے جا رہے تھے کہ زلزلے میں تباہ ہوئی سرکاری وغیر سرکاری عمارات زلزلہ پروف ضابطوں کے مطابق تعمیر نہیںکی جا سکی تھیں اور یہی وجہ رہی کہ زلزلے میں بڑے پیمانے پر عمارات کو نقصان ہوا ۔اس قدرتی آفات میں 1500لوگ ہلاک اور 4لاکھ 50000عمارتیں منہدم ہوئی تھیں۔تباہ کن زلزلے کے بعد لوگوں سے کہا گیا تھا کہ وہ زلزلہ سے محفوظ رہنے کیلئے ضابطوں کے مطابق نئی تعمیرات کھڑا کریں لیکن حالات ایسے ہیں کہ جو بھی نئی تعمیرات کھڑا ہوئیں وہ بے ڈھنگے طریقے سے شروع ہوئی ۔
آج بھی وادی میں بے ڈھنگی طریقے سے عمارات کھڑا کی جا رہی ہیں اور اُس صورتحال کو روکنے کیلئے کوئی کارروائی نہیں ہورہی ہے۔ ماہرین نے پہلے ہی یہ صاف کر دیا ہے سرینگر ، گاندر بل ، بارہمولہ ، کپوارہ ، بانڈی پورہ ، بڈگام ، اننت ناگ ، پلوامہ ، ڈوڈہ ، رام بن اور کشتواڑ اضلاع زلزلے کیلئے’ انتہائی خطرے‘ والے زون میں ہیں جبکہ جموں ، ادھمپور ، راجوری ، پونچھ ، ریاسی ، شوپیان ، کولگام اور لیہہ و کرگل ’خطرے‘ والے زون میں آتے ہیںاور یہاں ایسی تعمیرات کی ضرورت ہے جو زلزلے سے محفوظ رہ سکیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ پوری دنیا میں ابھی تک کوئی بھی ملک زلزلوں کی پیشگی اطلاع کا کوئی نظام دریافت نہیں کرسکا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ زلزلے کا علم تب ہوتا ہے جب تباہی ہوچکی ہوتی ہے اور اس تباہی سے بچنے کیلئے عمارات کو ڈھنک سے تعمیر کرانا انتہائی لازمی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جموں وکشمیر میں 2005کے تباہ کن زلزلہ کی شدت کو مدنظر رکھتے ہوئے تعمیر اتی قانون پر عملدرآمد ضروری ہے نہیں تو زلزلے جیسی قدرتی آفت میں انسانی جانوں کے ضیاع کے خدشات بڑھ سکتے ہیں،جبکہ اسلامک یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور معروگ ماہر ارضیات شکیل رومشو نے پہلے ہی خبردار کیا ہے کہ اگر وادی میں 6شدت والا زلزلہ آتا ہے تو اس کے نقصانات کافی ہوسکتے ہیں۔محکمہ ڈائریکٹرڈذاسٹر منیجمنٹ میں موجود ذرائع نے بتایا کہ نئی عمارات زلزلے پروف ضوابط کے مطابق تعمیر کرنے کے حوالے سے3سال قبل ’’بلڈنگ بائیلاز میں ترمیم کی گئی جس کے مطابق سرکاری وغیر سرکاری عمارات کی تعمیر کو اسی قانون کے تحت تعمیر کرنے کا فیصلہ ہوا ۔لیکن اس پر کوئی بھی عمل درآمد نہیں ہو سکا جبکہ یہ بھی کہا گیا تھا کہ اب نئی تعمیرات کیلئے مکمل اجازت نامہ حاصل کرنی لازمی ہو گا اور زلزلے سے محفوظ عمارات کی تعمیر کو ہی منظوری دی جائے گی لیکن یہاںزلزلہ پروف عمارات کہیں تعمیر ہوئیں اور نہ اس پر کوئی عمل درآمد کیا گیا ۔بلکہ اسکے بالکل برعکس کیا گیا۔ شہر سرینگر اور دیگر چھوٹے بڑے قصبوں میں بڑے بڑے شاپنگ مال، بڑی عمارتیں حتیٰ کہ شہروں اور قصبوں میں رہایشی بستیوں کو بھی کمرشل بنایا گیا ہے جہاں بڑی عمارتیں تعمیر ہوتی جارہی ہیں۔