جاڑے کے یخ بستہ ایام میں نماز فجر کے بعد مسجد کے گرما گرم صفہ یا گرما گرم حمام کی گرما گرم سِلوں پر بیٹھ کر گرما گرم بحث چھیڑنے میں بڑا مزہ آتا ہے ۔نیم گرم پانی سے ہاتھ منہ دھونے میں ایک سکون سا ملتا ہے مگر طلوع آفتاب کے بعد نماز فجر پڑھنے والوں کی ایک الگ ہی شان اور وضع ہوتی ہے ۔دریا کے کناروں پر استادہ لکڑی کے متحرک غسل خانوں میں لوگوں کو جلدی جلدی آکر وضو کرنے اور اُسی جلدی سے کناروں پر مخصوص جائے نماز پر نماز ادا کرنے کو دیکھ کر ایک پٹھان نے خوش ہوکر اپنے کشمیری دوست سے کہا تھا کہ یہ کشمیری کتنے نیک اور پارسا ہیں، سب نماز چاشت کا اہتمام کرتے ہیں ۔اُس کا دوست صرف مسکراکر رہ گیا تھا ۔
بہر حال میں عرض کررہا تھا کہ ایسی گرما گرم بزم آرائیاں کبھی کبھی رزم گاہوں میں بھی تبدیل ہوجاتی ہیں۔ویسی صورت میں دوچار کانگڑیوں کے پرخچے بھی اُڑ جاتے ہیں۔دھینگا مشتی بھی ہوتی تھی مگر کچھ عرصہ سے اُس میں کمی آئی ہے کیونکہ کانگڑیوں کے دام بڑھ گئے ہیں اور لوگ بھی کچھ سمجھ دار ہوگئے ہیں ۔شور شرابہ بھی اچھا خاصا رہتا تھا لگتا تھا کہ ہم سبزی منڈی میں سبزیوں کے تھوک میں بھائو دریافت کررہے ہیں۔ایک دن ہم حسب ِمعمول گرمی لینے کے لئے بیٹھے ہی تھے کہ اتفاقاًہماری نظر لٹکے ہوے نوٹس بورڈ پر گئی جس پر مسجد سے متعلق سال گذشتہ کا خرچہ و آمدن کا گوشوارہ چسپاں تھا ۔ہم نے کھڑے کھڑے ہی اُس کا بغور جائزہ لیا مگر میرے پڑوسی ماسٹر جی اُس کا بغور جائزہ لے چکے تھے کیونکہ میری طرف معنی خیز نظروں سے دیکھنے کی وجہ سے صاف جھلکتا تھا کہ وہ کچھ کہنا چاہتے ہیں ۔اُن سے زیادہ دیر تک برداشت نہ ہوسکا ،انہوں نے خود ہی خاموشی توڑی اور ایک طویل بحث اس بات پر چھیڑدی کہ مسجد کا انشورنس کرانا مناسب نہیں ۔(گوشوارے میں اُس مد کو بھی دکھایا گیا تھا )میں نے ماسٹر جی کو کافی سمجھایا مگر وہ کسی صورت میں قائل ہی نہیں ہوئے۔چونکہ چھٹی کا دن تھا، ماسٹر جی اصل میں ایک سرکاری افسر ہیں ،ماسٹر جی اُن کی کنیت ہے ،وہ دن کے کوئی ساڑھے دس بجے پھر غریب خانے پر انشورنس والی بحث لے کر تشریف لائے۔بہت کہنے سننے کے بعد آخر کار وہ زچ ہوکر بولے :
’’آپ انشورنس کی طرف داری کیوں کررہے ہیں؟کہیں خالی وقت میں آپ انشورنس ایجنٹ کا کام تو نہیں کررہے ہیں؟‘‘
میں نے تحمل سے مسکراتے ہوئے جواب دیا :
’’نہیں صاحب ! ایسی کوئی بات نہیں ہے ،البتہ اگر مسجد چوری ہوگئی تو پھر کیا ہوگا ۔جب تک دوسری مسجد بنالی جائے گی تب تک تو نمازیوں کو دِقت کا سامنا کرنا پڑے گا ۔کیونکہ پیسے ہمیشہ پاس نہیں ہوتے ،مسجد بنانے کے لئے ایک خطیر رقم چاہئے۔البتہ کسی حادثہ کی صورت میں انشورنس کرانے سے یہ ہوگا کہ پیسے جلدی اور یک مشت ملیں گے اور لوگوں کے آگے ہاتھ نہیں پھیلانا پڑے گا ۔‘‘
ماسٹر جی نے ایک زور دار اور بھرپور قہقہہ لگایا اور خوب ہنسنے کے بعد گویا ہوئے:
’’بھئی خوب ،بہت خوب !گویا مسجدیں بھی چوری ہوسکتی ہیں۔واہ واہ کمال ہے !‘‘
میں نے بھی تُرکی بہ تُرکی جواب دیا :
’’کیوں نہیں ہوسکتی ہیں؟ضرور ہوسکتی ہیں ۔دیکھئے جناب ،میں سنجیدہ ہوں ۔ آپ بھی سنجیدہ ہوجایئے پلیز! اور میری بات کو غور سے سنئے۔‘‘
حالانکہ میں انشورنس پر لعنت بھیجتا ہوں مگر ماسٹر جی کو کچھ اور سمجھانا مقصود تھا ۔
’’کیا مسجدوں سے جوتے ،چپل جیکٹ ،پھرن اور چادریں چوری نہیں ہوجاتی ہیں ؟فی الحال اُس بات کو رہنے دیجئے ،آپ بھی ایک دفتر میں کام کرتے ہیں اور میں بھی ایک سرکاری ملازم ہوں ۔کیا آپ کے دفتر سے نلکوں کی ٹونٹیاں غائب نہیں ہوجاتی ہیں؟ڈور میٹ ،پردے ،سٹیشنری کے آئٹم ،بلب ،تالے ،وال کلاک ،ٹاٹ اور سردیوں کے دوران ہیٹر کون چرا کر لے جاتا ہے ؟جب آپ انکوائری بٹھاتے ہیںتو آپ کو یہ جواب ملتا ہے کہ یہ محافظ دستوں ،سیکورٹی گارڈ یا بہاری بنگالی مزدوروں کی کارستانی ہے ۔آپ فائل بند کرکے بیٹھ جاتے ہیں مگر چوری جاری رہتی ہے اور دوسری فائل بننے کے دوران تار،ہولڈر ،پُلگ اور دیگر اشیاء جیسے جگ ،گلاس غائب ہوجاتی ہیںاور اگر سی آر پی ایف ،لوکل پولیس ،سیکورٹی گارڈ ،مزدور وغیرہ ان اشیاء کو چراتی ہیں تو وہ مسجد کو بھی چراکر لے سکتے ہیں ،پھر اگر وہ مسجد کو لے گئے تو آپ کو چندہ جوڑنے میں کافی وقت لگ سکتا ہے ۔آپ کیبل پر ہر مہینہ اڑھائی سو روپیہ خرچ کریں گے ،پندرہ سولہ ہزار کا ٹی وی سیٹ بھی خریدیں گے ،بچوں کے لئے مہنگا ویڈیو گیم بھی لائیں گے ،تمام فیملی کے لئے اچھے اور مہنگے موبائیل فون خریدیں گے ،انورٹر اور بجلی کے بنا بیٹری پر چلنے والا میوزک سسٹم بھی لے آئیں گے مگر پانچ مہینے تک مسجد میں حمام اور صوفہ گرم رکھنے کے لئے آپ تین سو روپیہ چندہ (کھنڈرَن )دینے میں ہزار بہانے تراش لیں گے ۔ ان حالات میںآپ خود ہی انصاف کریئے کہ نئی مسجد بنانے کے لئے جو چندہ یا اعانت آپ سے طلب کی جائے گیا اُس کا کیا حشر ہوگا ؟ آپ سے مراد قطعاً آپ کی ذات نہیں ،پھر بتایئے یہ چندہ کون دے گا اور کتنے عرصہ میں مسجد بن کر تیار ہوجائے گی؟
چلئے مان لیتے ہیں کہ چوری نام نہاد محافظ دستے اور سیکورٹی گارڈ وغیرہ کرتے ہیں تو پھر عوامی پاخانوں سے ٹونٹیاں اور ٹائیل ،فٹ پاتھوں سے گیلے ٹائل لگانے کے دوسرے روز ہی کون غائب کرتا ہے ؟یاد رکھئے کسی پر الزام دھرنا بڑا آسان ہے ۔محافظ دستے اور سیکورٹی گارڈ آپ کی مسجد نہیں لے جائیں گے ۔وہ آپ کے ڈور میٹ اور پردے نہیں اُڑائیں گے ،وہ تار اور ٹائل چوری نہیں کریں گے ،ایسا آپ خود کریں گے بلکہ کرتے ہیں۔میں یہ نہیں کہتا کہ اس حمام میں سبھی ننگے ہیں،سبھی چور اور خائن ہیں ، نہیں ۔البتہ کچھ لوگ خیانت ضرور کرتے ہیں ۔اس سرقے میں نہ غیروں کا ہاتھ ہے اور نہ محافظ دستوں کا ۔میری بٹھائی ہوئی ایک انکوائری میں یہی جواب آیا تھا کہ یہ کام ڈیوٹی پر تعینات سی آر پی ایف کے جوانوں کا ہے ۔ کچھ عرصے کے بعد نئے بنے ہوئے باتھ روم جو ابھی زیر استعمال نہیں تھا ، سے کموڈ چوری ہوگیا تو میں نے اُسی جواب دینے والے صاحب کو بلاکر کہا :کموڈ شائد سی آر پی ایف کے آئی جی صاحب نے منگوایا ہوگا ۔۔۔۔۔۔!
ماسٹر جی سے کوئی بات نہ بن پڑی ۔وہ ہار مان کر بولے :
’’شاید آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں ۔مسجد کا انشورنس کرانا ہی ٹھیک ہے ،کیا پتہ یار لوگ کسی دن اُسے اٹھاکر ہی لے جائیں اور کباڑ بازار میں جاکر منوں کے حساب سے بیچ ڈالیں ،جس طر ح انہوں نے مال مسروقہ سے قانون ِ طب ،تاریخ اور انجینئرنگ کی بڑی بڑی اور نایاب کتابیں اڑھائی روپیہ کلو کے حساب سے ،چھتوں کا ٹین ،مکانوں کے کواڑ اور بسترہ وغیرہ نگوں کے حساب سے اونے پونے بیچ دئے تھے۔
……………………
رابطہ:- پوسٹ باکس :691جی پی او رینگر-190001،کشمیر
موبائل نمبر:-9419475995