رحیم رہبر
جب تک فیروز کا اُبّو زندہ تھا وہ خود کو شہزادہ مانتا تھا۔ بازار کی سب چیزیں اُس کو اپنی لگتی تھیں۔ سماج، سو سائٹی، اقدار، رشتہ، دوستی وغیرہ غرض اِن سبھوں پر اُس کی گرفت تھی۔ لیکن اُبّو کی اچانک موت نے اُس کی کمر توڑ دی۔ خوشیاں رخصت ہوئیں اور مایوسیوں نے اُس کی دہلیز پر اپنا ڈھیرہ جمایا۔ اُداسیوں اور خموشیوں نے اُس کے آنگن میں خیمہ گاڑھ دیا۔
فیروز اپنے ہی شہر میں انجان ہوگیا! اگرچہ اُس کے پاس گاڑی، بنگلہ، مال سب کچھ تھا پر اپنے اُبّو کی کمی وہ شدت سے محسوس کرتا تھا۔ وہ تنہایوں میں اپنے ٹوٹے ہوئے وجود کو جوڑنے کی کوشش کرتا تھا۔
اُس رات فیروز کچھ زیادہ ہی اُداس تھا۔ اُس کی بے خواب آنکھیں سُرخ ہورہی تھیں۔ وہ بستر پر صرف کروٹیں بدلتا تھا! اور اپنے ٹوٹے ہوئے وجود کو جوڑنے کی ناکام کوشش کرتا رہا پر اُس کا سکون اُس سے دور بھاگتا جارہا تھا۔۔۔ تب اچانک اُس کی پریشان نگاہیں دیوار پر لٹکے ہوئے اخروٹ کی لکڑی سے بنے اُس بڑے فریم پر پڑی جس میں اُس کے اُبّو کا فوٹو ہوا کرتا تھا لیکن آج یہ فریم فوٹو سے خالی تھا! یا اللہ۔۔۔ یہ ۔۔۔یہ کیا ہوا؟ وہ چونک پڑا۔ اسی اثناء میں آواز آئی۔
’’میں۔۔۔۔میں تمہارے پاس ہوں۔۔۔ بالکل تمہارے قریب۔۔۔ تمہاری بے چینی مُجھ سے دیکھی نہیں جارہی تھی۔۔۔ اس لئے میں تمہارے پاس آیا ہوں۔‘‘
اُبّو کی آواز سُنکر فیروز ششدر ہوا۔
’’اُبّو۔۔۔!‘‘ اُس کی زبان سے بے ساختہ نکل گیا۔
’’ہاں۔۔۔ہاں ہاں۔۔۔ بول۔۔۔بول میرے بیٹے۔۔۔ میرے لخطِ جگر۔۔۔ میں تمہارے پاس ہُوں۔۔۔ تمہارے قریب۔۔۔ بالکل قریب ۔۔۔ میں تمہارےٹوٹے ہوئے وجود کو جوڑنے آیا ہوں۔۔۔ ہر باپ ایسا ہی کرتا ہے۔۔۔ میں تمہارا بابا ہوں۔۔۔۔ بچپن میں میں تجھے کاغذ کی کشتی بناکر دیتا تھا۔ انگلی تھام کے میں نے تجھے چلنا سکھایا۔ میں نے خدا سے اپنے لئے کچھ بھی نہیں مانگا۔ اگر مانگا بس تمہارے لئے مانگا۔ میں اپنے لئے کبھی بھی پریشان نہیں ہوا ہوں۔۔۔ میں تمہارے لئے پریشان ہوتا تھا۔ مُجھ سے تمہاری تکلیف دیکھی نہیں جاتی ہے۔ میں جانتا ہوں تُم کئی مہینوں سے سوئے نہیں ہو۔ تمہارا کرب دیکھ کر میں نے تمام سرحدیں پار کیں اور تمہارے پاس چلا آیا۔‘‘
فیروز کی آنکھیں نم ہوئیں۔ وہ بڑے ہی انہماک سے چلّایا۔
’’بابا۔۔۔! تمہارے جانے کے بعد میں اکیلا ہوگیا ہوں۔ مجھ پر تنہائی کا ہمالیہ آن پڑا ہے!‘‘
’’تم ۔۔۔ تم اکیلے نہیں ہو۔۔۔ تمہارا بابا تمہارے ساتھ رہتا ہے۔ ہر دُکھ اور سُکھ میں تمہارا بابا تمہارے ساتھ رہتا ہے۔‘‘
فیروز نے راحت کی سانس لی۔ اُس نے سکون سے کروٹ بدل لی۔ وہ بہت خوش تھا۔ اسی دوران مسجدوں کے مینار گونج اُٹھے۔ اللہ اکبر، صبح کی اذان سُن کر فیروز نے آنکھیں کھول دیں۔
فیروز کی پہلی نظر اُس فریم پر پڑی جس میں اُس کے بابا کی تصویر جگمگا رہی تھی!
آزاد کالونی پیٹھ کا انہامہ بڈگام ،موبائل نمبر؛9906534724