عاشق حسین وانی ،عاشقؔ
کسی بھی سماج میں انسانیت کی تعمیر اس وقت تک نا ممکن ہے جب تک نہ اس سماج میں موجود لوگوں کو جہالت و بدی کے گمراہ کن ماحول سے نکال نہ دیا جائے۔ اس سلسلے میںانسان ا زل سے جد و جہد کرتا آیا ہے اور عالمِ انسانیت کو جہالت سے نکالنے کے لئے جہاں اس راہ میں بہت ساری چیزیں مفید اور کار آمد ثابت ہو ئی ہیں وہاںہی علم ان تمام چیزوں میں سر ِفہرست ہے۔ علم دراصل انسانیت کی رُوح ہے اور اس کے بغیر سماج میں ا نسانیت کا تصور و تعین کسی بھی صورت میں نہیں کیا جا سکتا ہے۔ انسانی واسطوں و قدروں کی تعمیر اور ان کو کرہ ارض پر پھیلانے معاشرے میںلوگوں کے درمیان آپسی میل و ملاپ ، امن وامان، حسن خیر و حق اور عدل و انصاف کو قائم کرنے کے لئے علم کوحقیقت میں بنیاد کی حیثیت حاصل ہے۔
علم کا مقصد انسانی ذہن میں ایک ایسی تبدیلی سے ہے جس کااہم مقصد انسان میں انسانیت کو اُجا گر کرناہے اور انسان اپنا وجود بخوبی سمجھے اور اس علم کو جو اس نے حاصل کیا انسانیت کی خدمت اور فلاح و بہبود میں صرف کرے تاکہ ا س کرہ ارض پر انسانیت کی بقا ء ہر ہمیشہ قائم و دائم رہ سکے ۔ اس طرح علم دراصل ایک انسان کو اس کی شخصیت سنوانے اور نکھارنے میں مدد دیتی ہے اور صحیح و غلط کی تمیز سکھاتا ہے ، انسان کے اخلاق و سوچنے سمجھنے کی طاقت کو ایک صحیح مرکزومعیار فراہم کر کے ان فکری صلاحتوں کو ذہین میںپیدا کرتاہے جن کا مقصد انسانیت کی بھلائی و خوشحالی سے براہ ِ راست تعلق ہے، انسانیت کے تئیں یہی نیک خصوصیات و خواہشات بنی نوع انسان کو اس دنیا میں مستقل نوع بناتی ہے اور ان ہی خصوصیات کی بنا پر انسان دوسرے موجودات سے اعلی درجہ و مقام رکھتا ہے۔ اس طرح علم انسانی شخصیت کا جزؤلائیفنک ہے اور انسان کا علمی و اخلاقی بر تری کا حاصل ہو نا انسان کی کامیابی ہے،انہی نیک اوصاف و خوبیوں کی بدولت انسان کا وقارمعاشرے میںبلندہے۔
ہر انسانی نسل علم میں نئی معلومات کا اضافہ تجربات، مشاہدات و امتحانات کی بدولت کرتی رہتی ہے اور اس کو اپنی آیندہ نسلوں تک مختلف ذرا ئع سے منتقل کرتی ہے۔ آگاہی و واقفیت کی اس مسلسل منتقلی کے نتیجے میں انسان نے ترقی کے کئی اہم مراحل طے کئے او ر سماج میں دوسرے افراد کے ساتھ تعلقات و برتاو ٔ میں، تہذیب و تمدن اور اخلاق و ادب میں علم کی وجہ سے بہتری پیدا ہوئی اور نتیجے کے طور پر انسان نے نہ صرف علم و اخلاق، سائنس و آرٹ، امن و امان ، عدل و انصاف جیسے میدانوں میں پیش رفت کر کے مسلسل ترقی کی بلکہ ذات و کائنات کا عرفان بھی حاصل کیا۔ اس مسلسل تلاش و جد و جہد کی وجہ سے ہر انسانی ِ نسل نے اس کرہ ٔارض پر قائم انسا نی معاشرے کو ایک ایسے نظام کے تحت زندگی گزارنے کی تلقین کی جس کی بنیاد انسانی قدروں پر قائم ہو اور ا پنی تعلیمات سے ایسے لوگوں نے ان علمی و اخلاقی اصولوں کو متعین کیا جو سماج میں ایک انسان کو دوسرے انسانوں کے ساتھ باہمی میل و محبت ، ہمدردی و اخوت ا ور بھائی چارہ کے ساتھ رہنے کا ہنر سکھاتا ہے۔
علم انسان کو ہوس و خود غرضی، لالچ و فریب ، ظلم و جبر، بے ایمانی اور وحشیانہ نفسی خواہشات سے روکتاہے اور اس کے بجائے پرہیز گا ری و سچائی کے ساتھ جینے کا راستہ دکھاتاہے۔ علم انسان کو اخلاقی ذمہ داریوں کا شعور اُبھارتا ہے اور انسان کو ضبطِ نفس ،صبر وتحمل اور خوش اخلاْق بناتاہے، علم سے انسان میںایک ایسی سیرت پرورش پاتی ہے جوہر ہمیشہ انسانیت کی بھلائی کے بارے میں فکر مند رہتی ہے، علم ہی ذات پات، رنگ و نسل اورتمام مذہبی ،معاشی و سماجی تفرقات کومٹانا، ظلم و بربریت کا خاتمہ ، جنگ و جدل سے دوری اور آپسی بھائی چارہ اور میل و ملاپ ،یکسانیت او رحقوق کا تحفظ ،قیامِ امن اور استحکام کے ساتھ رہنے کا درس دیتا ہے اور انسانیت پر آزمانے والے ان تمام ہتھکنڈوں جن سے انسانیت کی بقاءکو خطرہ در پیش ہو، کے خلاف منصوبہ بند طریقے سے برسر پیکار ہونے کا تجربہ اور حل فراہم کرتا ہے۔
علم انسان کے اخلاقی اور شریفانہ خصا ئل کو صحیح و منظم بنیاد دے کر انھیں محکم بنا دیتا ہے اور ہمت و شجاعت کے ساتھ ان تمام کاموں کو جو انسانیت کی فلاح و بہبود سے منسلک ہیں ،پایۂ تکمیل تک پہچانے کا ہنر فراہم کرتا ہے۔علم اور اخلاق دو ایسی قوتیں ہیں جو جس انسان یا جماعت کے پاس موجود ہوں ،اس کے پاس انسانیت کا عظیم سرمایہ ہوتا ہے ان دوقوتوں پر دراصل انسانی و سماجی رشتوں اور سیاسی و معاشی طاقتوں کا عروج و زوال کا دارمدار ہوتا ہے۔ حصول علم کے بعد سماج میں انسانیت کی شناخت جس اہم عمل سے پرکھی جاتی ہے وہ ایک انسان کا دوسرے انسان کے ساتھ آپسی برتاو او ر ان میں پائی جانے والی محبت ہے، یہ نیک برتاو اور آپسی محبت عمل کے ساتھ علم حا صل کرنے سے ممکن ہے ۔سائنس، ادب، اخلا قیات و دیگر علوم میں یقینا ًاسی صورت میں ترقی دیکھنے کو ملے گی جب ان سے حاصل ہونے والے نتائج سے عالم ِ انسانیت کی ترقی و بہتری ممکن ہو سکے اور بربادی کا خدشہ نہ ہو۔ اس طرح انسانیت کی باہمی عمدہ روایات کی صحت اور عدم ِ صحت معاشرے میں علم و اخلاق سے معلوم پڑتا ہے۔ ہم علم کےذریعے انسانیت اور لوگوں کے درمیان آپسی رجحانات، نیک و بدکی تمیز، معاشرتی کوأیف و روابط اور اخلاقی معلومات بھی حاصل کر سکتے ہیں۔علم کا مقصد انسانیت کی خدمت اور ان چلینجوں کا مقابلہ کرنا ہے جوحقیقت میںاس کرۂ ارض پر انسانیت کے لیے خطرات پیدا کر تے ہیں ۔
علم کا مقصدہر گز یہ نہیں ہونا چاہے کہ انسان علمی ترقی پاکر دوسروں کوحقیراور ان کی بے علمی کا فایدہ اٹھا کر انھیںکمزورسمجھے اور ان کے ساتھ ہمدرد ی، محبت و انصاف کے بجائے مختلف مصائب ومشکلات میں مبتلا کرے۔علم انسان کو اعلی کردار کا پیکر بناتا ہے اور اس کردار میں وہ تمام اوصاف لازمی طور نظرآنے چاہیں جوسماج میں ایک علم یافتہ انسان سے وابستہ ہیں۔ ایسا انسان ہر ہمیشہ نیکی،سچائی اور ایمانداری کے راستے پرچلتا ہے اور اس کو عبادت سمجھ کر دوسرں کو بھی اسی راستے پر چلنے کی دعوت دیتا ہے،وہ کبھی بھی مادہ پرستی اور گہری بد اخلاقیوں میں نہیں ڈوب جاتا ہے۔ علم سے مستفید ہونے کے بعدوہ اپنے خیالات و نظریات علم و ادب، سیاست و معشیت ، تہذیب و اخلاق، عدل و انصاف ، سائنس و آرٹ کے حوالے سے ایک ایسے نظام کے تحت لانے کی کوشش کرتا ہے جس میں صرف اور صرف انسانیت کی خدمت ، غربت کا خاتمہ، ملک کی ترقی، انصاف کی فرٖاہمی اور صحت وتعلیم اور امن و امان ہر صورت میںنظرآتا ہے۔علم انسان کوایک ایماندا،سچا، امن پسند اور پراخلاق نیک و صالح اور انسانیت سے محبت کرنے والا انسان بننے کا درس دیتا ہے اور ایسا تب ہی ممکن ہے جب علم پرانسان عمل کرے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ کبھی بھی اس کے اندر لالچ، خودغر ضی، اپنائت پیدا نہ ہو اورایسے جرم کا مرتکب نہ ٹھہرے جس میںوہ لوگوںکا حق مارے اور ظلم و جبرکرے۔
موجودہ دور میںعلم عام ہونے کے باوجود بے چینی اور لا علمی کی جو ہواپھیلی ہوئی ہے۔وہ ظاہر کرتی ہےکہ انسان علم کے اصل مفہوم و مقصد سے بہت دور ہے۔ تعلیم و تربیت کے اعلیٰ مرحلوں سے فیض یاب ہونے کے بعد آج کاانسان عالمِ انسانیت اور عام لوگوں کے مفادات کے حق میں کچھ کرنے سے قاصر ہے کیو نکہ حصول علم کے بعد جو خارجی عمل اس میں دیکھنے کو ملتا ہے، وہ عین اخلاقی او رعلمی ضابطوں کے خلاف ہوتا ہے، جو انسانیت کے تئیں جذبۂ احساس کو مفلوج کر کے انسان کو پھرجہالت کی تاریکیوں میں دھکیل دیتا ہے، ایسا اس وجہ سے ہو رہا ہے کیونکہ تعلیمی دورِ حیات کے ابتدائی مرحلوں سے ہی ایسے نامناسب مقاصد کے خاکے بنانے شروع کردیتے ہیں جو ان راستوں کی نشاندی کرتے ہیں جن پر چل کر بجائے قومی زندگی کے اپنی ذاتی زندگی بنانے اور سنوارنے میں مدد ملتی ہے، جو کچھ علم کے مختلف شعبوں سے حاصل کرتے ہیں محض اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے کرتے ہیں اور یوں علم کو حصول کو ایک ایسا فن تصور کرتے ہیں جس کےذریعے وہ اپنی نفسی ضروریات کے عین مطابق عیش و آرام کی زندگی گذار سکے اور جو کچھ نتیجہ امتحانات،تجروبات اور مشاہدات سے اخذ کیا جاتا ہے، انھیں محفوظ کرتے ہیں تاکہ ترقی کی اونچی سی اونچی منزل تک رسائی ہو سکے، جہاں کوئی دوسرا مدمقابل کھڑا نہ ہو۔
علم کے بعد دانستہ طور انسان ان غلطیوں کا مرتکب ہے جو انسانیت کے خلاف ہیں اور ہر سطح پر اور ہر معاملے پر انسانی اخلاق اور سوچنے سمجھنے کے قوت میں اعلیٰ حد تک گراوٹ دیکھنے کو ملتی ہے ۔ انسانی عقل میںایک بگاڑ پیدا ہواہے جوانسانیت کی رگ رگ میں سرایت کر گیا ہے۔ بنی نوع انسان کی فلاح و بہبود کے لئے موجود اس علم کی بدو لت اب انسان مادہ پرستی کا شکار ہو گیا ہے، اس راہ میں وہ جائز ناجائز سب کچھ بھول گیا ہے اور جتنا زیادہ علم اتنا ہی انسان کا اختیار،رسوخ اور دوسروں پر اس کادباو بڑھ گیا ہے۔ وہ علم جو زندگی کی تجسس،ماہیت اوراخلاقیات پر قائم رہنے کا سبق دیتا تھا ،اب انسان اس علم کو ایک طاقتور ہتھیار سمجھ کرسماج میںتباہی پھیلانے لگا ہے۔ اب سماج میں اخلا ق و ادب کے معیار بدلے ہیں اور انسانی رشتوں کو ناپنے کے لیے الگ الگ پیمانے وجود میںآئے ہیںجنہوں نے زندگی کے طریقے، معاملات اور رہن و سہن کے ڈھنگ بدلے ہیں۔ وہ جن کے ہاتھوں میں مفلس عوام کی باگیں ہیں اور جن کے قوت و اقتدار میں نوعِ انسانی کے مشکلات و مسائل ہیں ،خیالات و افکار ، نظریات و وسائل جن کے قبضے میںہیں ،غم زدہ لوگوں کی زندگی جن کے دامن سے وابستہ ہے، نظامِ حق کی تشکیل اور اخلاقی قدروں کا تعین جن کے اختیار میں ہے ،علم کی اعلیٰ قوت سے فیض یاب ہو نے کے بعداِنسانیت کی راہ سےبھٹکے ہوئے ہیں۔ اگر کوئی شخص ان سے اصلاح کی اُمید رکھتاہے اور ناانصافی کے بدلے میںانصاف، بد اخلاقیوں کے بدلے میںاخلاق اور برائیوں کے بدلے میں بھلائی مانگنے کی امید رکھتا ہو تو یقیناً یہ ناممکن ہے۔
انسان کوجنم سے ہی اخلاقیات کا علم سکھایا جاتا ہے، سچائی اور ایمانداری سے زندگی گزارنے کی تلقین کی جاتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان اصولوں سے باخبر ہونے کے باوجود وہ ان بُرائیوں کا دامن چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ کسی چیز پر حق جتانے کے لئے ایسے ا فرد اخلاقیات اور امن کے ساتھ تب تک کھڑے ہیں ،جب تک آسانی سے کام نکلے اور اگراس میں کسی نے صداقت کی بنیاد پر اعتراض کیا توعلمی معتبر ہونے کے باوجود وہ ایک دم اس حدتک جاہلیت میں گر جاتے ہیں کہ چیزکو طا قت کے زور سے چھین لینے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔اس لحاظ سے دیکھیں تو معلوم پڑتا ہے کہ سماج میں برائیاں خوب نشو و نما پا رہی ہیںاور رشوت، خود غرضی اور نا جائیز منافع خوری کا بازار ہر طرف گرم ہے جس نے انسانی ضمیر کو زنگ آلود اور ناقص بنایا ہے اور جو انسانیت کی زوال کا سبب بن رہا ہے۔
اس وقت عالمِ انسانیت کو جو بڑے مسائل در پیش ہیں، ان میںمو سمی تبدیلی اور فضائی آلودگی کی وجہ سے اناج میں کی پیداوار میں کمی ہونے سے بھوک مری کے حالات پیدا ہوئےہیں، تواتر کے ساتھ جنگوں کے باعث سالانہ ہزارں اور لاکھوں معصوم لوگوں کی جانیں ضایع ہو جاتی ہیں،مہلک بیماریاں اور غربت کی بڑھتی سطح بھی نمایاںہیں۔چنانچہ علم سے ادراک حاصل کر کے ان پیچیدہ مسائل کا حل تلاش کرنا ہے اور باہمی اشتراک کے ساتھ اس پر عمل کرنا ہے تاکہ نہ صرف انسانی زندگی سہل و آسان بنے بلکہ آ ئندہ نسلوں کے لیے بھی دنیا محفو ظ رہے۔یہ بات ہر ایک کو معلوم ہونی چاہے کہ موجودہ نسل اس کائنات کی آ خری موجودات نہیں ہے جس کے خاتمہ ہونے کے بعد دنیا کا وجود باقی نہیں رہے گا۔ لہٰذا علم حاصل کرنے کے بعدہر ایک شخص کا مقصدہونا چاہئے کہ وہ بخوبی علم کی ماہیت کو سمجھے اور پھر اس کے حصول کے بعد اس کوعام لوگوں کی بھلائی و بہتری میں صرف کرے اور اس مقصد کے لئے وہ اپنے اندرایک نظم و نسق پیدا کرے اور اپنے تجربات مشاہدات کو منظم کر کے یہ دیکھنے کی کو شش کرے کہ اس کی تحقیق و تجسس میں وہ کون سے عوامل ہیں جو انسانیت کے کام آسکیںاور اس کرہ ٔارض پر انسانیت کے خلاف اٹھنے والے ہر ایک معاملات جس سے عالم انسانیت کو خطرہ ہو ،کا تدارک و حل نکالنے کی کو شش کرے تا کہ ہرطرف ہمدردی اور محبت کا ماحول پیدا ہو سکے اور سماج میںانسانیت و خوشحالی دیکھنے کوملے۔
(بانڈی پورہ ،کشمیر)
[email protected]