چکاں دا باغ ٹریڈ سنٹر مسلسل دو ماہ سے بند پڑاہے اور نہ ہی اس دوران کوئی تجارتی سرگرمی ہوئی ہے اور نہ ہی راہ ملن بس سروس حد متارکہ کے آر پار ہورہی ہے ۔10 جولائی کو ٹریڈ سنٹر کی عمارت کنٹرول لائن پر ہونے والی فائرنگ اور گولہ باری کی زد میں آگئی تھی اور اسے شدید نقصان پہنچا تھا جس کے بعد جہاں پونچھ راولا کوٹ بس سروس بند کر دی گئی تھی وہیںآر پار تجارت بھی ٹھپ ہو کر رہ گئی ۔تجارت بند رہنے کی وجہ سے اب تک صرف پونچھ کے تاجروں کو 50کروڑ روپے کا نقصان ہوچکا ہے ۔ اگر چہ گزشتہ ہفتہ 18ماہ کے بعدبھارت اور پاکستان کی سرحدی افواج کے درمیان ہوئی فلیگ میٹنگ میں آمد و رفت اور تجارت بحال کرنے پر اتفاق ہوا اور منقسم ریاست کے دونوں حصوں کی سول انتظامیہ کے درمیان پیر کے روز میٹنگ بھی طے پائی لیکن ایک بار پھر دونوں طرف سے ہونے والی شدید گولہ باری کی وجہ سے یہ میٹنگ منعقد نہ ہو پائی، جس کے باعث بس سروس کے ساتھ تجارت پر بھی تعطل برقرار ہے ۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ چکاں دا با غ سے ہر ہفتہ اوسطاًساڑھے چھ کروڑ روپے مالیت کے تجارتی مال کا لین دین ہوتا تھااور 9برس قبل شروع ہوئے اس کاروبار میں اب تک 1500کروڑ روپے کا لین دین ہو چکا ہے ۔کشمیر کے اوڑی سیکٹرمیں سلام باد ٹریڈ سنٹر سے ایک ٹرک سے منشیات برآمد ہونے کے بعد کاروبار تعطل کا شکار ہو گیا تھا لیکن اُسے پچھلے ہفتہ بحال کر لیا گیا لیکن پونچھ راولاکوٹ تجارت اور بس سروس کو بحال نہیں کیاجارہا ،جس پر خطے کے لوگوں میں سخت غم و غصہ پایاجارہاہے ۔سرحدی کشیدگی کو کو بنیادبناکر اس عمل کو زیادہ دیر تک تعطل کاشکار نہیں بنایاجاناچاہئے اور دونوں ممالک ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت کرکے اس سلسلے کو بحال کریں کیونکہ اس راہداری پر پائی جارہی ویرانی سے آر پار لوگوںکو نقصان اٹھاناپڑرہاہے ۔ پونچھ میں درماندہ مسافروں کواحتجاجی دھرنے کے بعد اوڑی مظفر آباد کے راستے پاکستانی زیر انتظام کشمیر اپنے گھروں کو واپس تو بھیج دیاگیالیکن دوران سفر ان کو کٹھن مشکلات کاسامناکرناپڑا اور کھاناکھانے تک کا موقعہ بھی نہیں ملا ۔یہ مسافر طویل سفر کرکے چوبیس گھنٹوں کے بعد ایل اوی سی عبور کرنے میں کامیاب ہوئے۔ فی الوقت متعدد لوگ اپنے رشتہ داروںسے ملنے کیلئے آر پار کا سفر کرنے کےلئے تیار بیٹھے ہیں،تاہم ان کیلئے انتظار کی گھڑیاں طویل تر ہوتی جارہی ہیں ۔عوامی حلقوں میں یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ اگر چین کے ساتھ ڈوکلام تعطل پر بات چیت کرکے تنازعہ ختم کیاجاسکتاہے توپھر پاک بھارت تعلقات کو معمول پر لانے کیلئےکون سی روکاوٹیں درپیش ہیں اور انہیں دور کرنے کےلئے کس گھڑی کا انتظار کیاجارہاہے ۔دونوں ممالک کی سیاسی قیادت کو یہ سمجھناچاہئے کہ ایک دوسرے کو ڈرا دھمکا کر خطے میں امن قائم نہیں کیاجاسکتا بلکہ اس کیلئے مذاکرات ناگزیر ہیں، جس کی تائید اقوام عالم کی طرف سے بھی کی جارہی ہے۔اس طرح کے کشیدہ حالات سرحدی آبادی کیلئے سوہان روح بنے ہوئے ہیں اور انہیں آج بھی فائرنگ اور گولہ باری کی وجہ سے مصائب و آلام برداشت کرنے پڑرہے ہیں ۔سرحدی خطے اور ریاست کے عوام کی بھلائی اور فلاح و بہبو د اسی میں ہے کہ اس تعطل کو ختم کیاجائے اور بس سروس اور تجارت کے سلسلے کو فوری طور پر بحال کیاجائے اور اگر دونوں ممالک ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کیلئے سنجیدہ نہیں تو آر پار عوام کو اس کشیدگی کی بھینٹ نہ چڑھایاجائے ۔