۔ 81فیصد جواں سال خواتین میں اوسط عمر 25سے 34سال کے درمیان
پرویز احمد
سرینگر //پوری دنیا میں ہر سال 2ملین سے زائد خواتین پستان کے سرطان کی شکار ہورہی ہیں اور ان میں 15فیصد خواتین کی موت ہوجاتی ہے۔ بھارت میںاس حوالے سے ایک سروے میں کہا گیا ہے کہ ملک میں مجموعی طور پر کینسر کی مختلف بیماریوں میں مبتلا مریضوں میں سے پستان کے سرطان سے متاثرہ خواتین کی تعداد 14فیصد ہے، جبکہ وادی میں یہ 16فیصد کے قریب ہے، جو ملکی سطح کی اوسط سے بہت زیادہ ہے۔ ملکی سطح پر سرطان سے متاثرہ خواتین کی اوسط عمر 55سال ہے تاہم وادی میں یہ بیماری جواں سال خواتین میں تیزی سے پھیل رہی ہے اور یہاں خواتین کی اوسط عمر 40سال سے بھی کم ہے۔وادی میں جواں سال خواتین میں پستان کے سرطان کی بڑتی ہوئی شرح، طبی ماہرین تشویشناک بتا رہے ہیں۔ ڈاکٹر شبنم بشیر کا کہنا ہے کہ کشمیر میں پستان کے سرطان سے متاثر ہونے والی خواتین میں81فیصد کی عمر40سال سے کم ہوتی ہے اور اس سے یہ ظاہر ہورہا ہے کہ یہ بیماری نوجوان لڑکیوں کو بری طرح متاثر کررہی ہے۔ ڈاکٹر شبنم کا کہنا ہے کہ در اصل حقیقت یہ ہے کہ ہمارے پاس صحیح اعداد و شمار بھی موجود نہیں ہیں جن پر کوئی تحقیق کی جاسکے۔ انہوں نے کہا کہ متاثرین خواتین کی اصل تعداد کا پتہ لگانے میں یہ بڑی دشواری ہے کیونکہ اعداد و شمار بکھرے پڑے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سٹیٹ کینسر انسٹی ٹیوٹ سکمز میں بھی مکمل اعداد و شمار موجود نہیں ہیں لیکن ایسا باور ہورہا ہے کہ پستان کے سرطان کے پھیلائو کی بڑی وجہ جینیاتی بناوٹ اور جغرافیائی صورتحال ہے۔
ڈاکٹر شبنم کا کہناہے کہ عام کینسر کیلئے ہم جموں و کشمیر کی جغرافیائی صورتحال کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں لیکن جہاں تک پستان کے سرطان کا تعلق ہے تو اس کی بڑی وجہ ایک نسل سے دوسری نسل میں آنے والی جینیاتی تبدیلی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پستان کے سرطان سے متاثرہ خواتین کی زیادہ تعداد دیہی علاقوں میں ہے کیونکہ دیہی علاقوں میں زیادہ تر شادیاں خاندانوں کے اندر ہوتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ابتدائی مراحل میں ڈاکٹروں تک پہنچنے والی خواتین میں مکمل ٹھیک ہونے کے 98فیصد امکانات ہوتے ہیں لیکن کشمیر میں ملک کی دیگر حصوں کی طرح چوتھے اور پانچویں مرحلے میں مریضہ ڈاکٹروں تک پہنچتی ہیں اور ایسی صورتحال میں مریضہ کے بچنے کے امکانات بہت کم رہ جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ چوتھے اور پانچویں مرحلے میں آنے والی خواتین میں مرنے کی شرح 40فیصد ہوتی ہے۔انہوں نے کہا کہ پستان میںجراحی کرنے کے باوجود بھی خواتین کے بچنے کے امکانات 28فیصد ہی رہ جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پرانے زمانے میں متاثرہ خاتون کے جسم سے پستان کو ہٹایا جاتا تھا جس کو ہم ڈاکٹری اصلاح میںMastectomyکہتے ہیں لیکن اب متاثرہ خواتین کو گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ابتدائی مرحلے میں ہم پستان بچائو سرجری(Breast Conservation surgery) سے نہ صرف کینسر سے متاثرہ حصے کو نکال دیتے ہیں بلکہ پوررے پستان کو ہٹانے سے بھی بچتے ہیں۔ وادی میںمتاثرہ خواتین پر کی گئی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ 81فیصد کی عمر 25سے 34سال، 15فیصد کی عمر 35سے 44سال اور5فیصد کی عمر45سال سے زیادہ ہوتی ہے۔ تحقیق کے مطابق متاثرہ خواتین میں87فیصد شادی شدہ، 5فیصد غیر شادی شدہ اور 8فیصد بیوہ ہوتی ہیں ۔متاثرہ خواتین میں 89فیصد پڑھی لکھی جبکہ 13فیصد ان پڑھ ہوتی ہیں۔سروے میں کہا گیا ہے کہ جسم پر کیمیکل( کریم) استعمال کرنے سے جواں سال خواتین اس بیماری کی سب سے زیادہ شکار ہورہی ہیں۔ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ72فیصد خواتین کو پستان کے سرطان کی علامات کے بارے میں کوئی بھی جانکاری نہیں جبکہ 28فیصد کو معمولی نوعیت کی جانکاری ہوتی ہے ۔ تحقیق کے مطابق خواتین میں سے صرف 7فیصد ابتدائی طور پر ڈاکٹروں سے علاج و معالجہ کراتی ہیں ۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ امریکہ میں حالیہ تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ پستان کے سرطان کے علاج اور اس سے ہونے والی اموت کو Mastectomyسے کمی لائی جاسکتی ہے لیکن وادی میں ماہرین کا کہنا ہے کہ جراحی کا یہ عمل بہت پرانا ہوگیا ہے۔