ہر چند کہ ظالم کا کوئی مذہب نہیں ہوتا مگر تاریخ ِ انسانیت میں جس قدر ظلم مذہب کے نام پر ہوا ہے شاید ہی کسی اور نام پر اتنا ظلم ہوا ہو۔برما میں روہنگیا مسلمانوں پر مظالم کے جو پہاڑ ڈھائے جا رہے ہیں، اس کے پیچھے بھی یہی مذہبی عصبیت اورشدت پسندی کار فرما ہے۔مذہبی عصبیت کا جو کریہہ الصورت سلسلہ برما میں ظاہر ہوا اس کو دیکھنے کی تاب لانا کسی بھی صاحب ِدل انسان کے لئے محال ہے۔ظلم کے ان متحرک و غیر متحرک مناظر نے شوشل میڈیا کو آج کل ماتم کدہ بنا یا ہوا ہے۔ کسی بھی شوشل سائٹ کو کھولتے ہی ایک ناظر محسوس کرتا ہے کہ وہ راکھشسوں کی ایسی کالی دنیا میںجا پہنچا ہے جہاں ہزاروں آدم خور راکھشس اولادِ آدم پر ٹوٹ پڑے ہیں اور ان کی ایذاء رسانیوں کے ایسے ہیبت ناک حربے استعمال کر رہے ہیں جن کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ۔المختصر میانمار میں جبر و تشدد کی ایک ناقابل یقین داستان انسان نما درندوں کے ہاتھوں رقم ہو رہی ہے۔ برما میں روہنگیائی مسلمان سالہا سال سے گوناگوں مظالم جھیل رہے ہیں ۔روہنگیا مسلمان مجبور و مقہورترین اقوام میں سے ایک قوم ہے کہ جو مدتِ مدید سے موت سے بھی بد تر زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ صدیوں سے برما کی ایک ریاست رخائن میں بود و باش کے باوجود انہیں ابھی تک شہری حقوق تو دوربنیادی انسانی حقوق سے بھی محروم رکھا گیا ہے۔ یہ کم نصیب حکومتی عتاب کا ہمیشہ سے ہی ایک نرم ہدف رہے ہیں ،وقتاً فوقتاً اکثر یتی بودھ انہیں نسلی اور مذہبی عصبیت کی بنیاد پر ظلم و جور کا شکار بنا تا چلاآرہے ہیں۔چنانچہ ۱۹۶۲ ء میں ان کے نام فارن کارڈ اجرا ء کر کے انہیں یہ احساس دلایا گیا کہ وہ صدیوں سے برمی سرزمین پر رہتے ہوئے بھی غریب الوطن ہیں۔ ۱۹۸۲ء میں غیر ملکی قرا ر دے کر روہنگیائی مسلمانوں کوتمام تر شہری حقوق سے مکمل طور پر بے دخل کیا گیا۔ان کلمہ خوانوں کو تعلیم ، تجارت اور صحت ِعامہ جیسی بنیادی ضروریات سے بھی محروم رکھا گیا ہے، یہ لوگ آزادانہ طور گھوم پھر بھی نہیں سکتے۔ غرض بودھ اکثریت انہیں حیوانوں سے بد تر سمجھتی ہے۔ حا لیہ چند برسوں میںان مظلوموں کے خلاف سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر جاری عتاب میں انتہائی شدت دیکھنے کو ملی ہے۔ اس حوالے سے سوشل میڈیا پر جودرد ناک اور دلدوز مناظر دکھائے جا رہے ہیں ان کو لفظوں میں بیان کرناممکن نہیں۔بستیوں کی بستیاں آگ میں بھسم کی جا رہی ہیں،شیرخوار بچوںکی سر بریدہ لاشیں کہیں پانی میں تیر رہی ہیں، کہیں مارے گئے بچوں کے نرم ونازک ابدان کچھ اس انداز میں دیوار پر ٹنگا دئے گئے ہیں جیسے پھٹے پرانے اور گیلے کپڑوں کے پارچے دھوپ میں سکھانے کے لئے رکھے گئے ہوں۔خواتین کی عصمت و عفت کو نہ صرف تار تار کیا جا رہا ہے بلکہ انہیں موت کے گھاٹ اُتار کر لاشوں کے ساتھ بھی بے حرمتی کی جا رہی ہے۔ مقتولین کے اعضاء چاروں اور بکھرے پڑے ہیں۔ایک ویڈیو میں صاف طور پر دکھایا گیا ہے کہ بہت سی انسانی لاشوں پر سینکڑوں گدھ ایک ساتھ نوچ رہے ہیں جب کہ ساتھ ہی ساتھ بودھ بھکشوؤں کی ایک بڑی تعداد ان لاشوں کے اردگرد کھڑے یہ دلدوز مناظر گویا انجوائے کررہے ہیں۔ دل تھام کر سنئے یہ سب ایسی جگہ ہو رہا ہے جہاں دنیا کو اَہنسا یعنی عدم تشدد کی تعلیم دینے والے گوتم بدھ کے بہت سارے بت نصب ہیں۔ بودھوں کی مار دھاڑ سے جان بچا کر بھاگنے والوں کی دہشت زدہ آنکھوں سے ایسی خوف زدگی اور بے بسی جھلکتی ہے کہ جسے دیکھنے کے لئے آ ہنی کلیجہ چاہیے۔ہزاروں کی تعداد میں ہجرت کرنے والوں میں سے ہر فرد کے پاس ایک داستانِ الم ہے جسے وہ بیان کرنے سے قاصر ہے ۔ لندن سے شایع ہونے والے اخبار دی انڈیپنڈنٹThe) Independent (نے ان ہی مظلوموں میں سے ایک مظلوم کی درد بھری رُوداد کچھ یوں نقل کی ہے: ’’عبد الرحمان نامی اس روہنگیائی مسلمان کا کہنا ہے کہ چٹ پئینChut) Pyin (گاؤں میںبہت سارے روہنگیائی مسلمانوں کو بانس سے بنی کٹیا میں بند کر دیا گیا اور پھر اسے آگ لگائی گئی۔میرے بھائی کو دوسرے افراد کے ساتھ اجتماعی طور زندہ جلایا گیا۔ میں نے دیگر اہل ِ خانہ کو کھیتوں میں مقتول پایا، ان کے جسموں پر گولیوں اور تیز دھار والے ہتھیاروں سے لگے گہرے گھاؤ صاف دکھائی دے رہے تھے۔میرے دو بھتیجوں کے سر کاٹے گئے تھے، ان میں سے ایک کی عمر محض چھے سال کی تھی اور دوسرے کی نو سال۔ میری سالی کو گولیوں سے چھلنے کر دیا گیا تھا۔‘‘
دنیا باخبر ہے کہ برما میں ایک مسلمانوں کی منظم اندازمیں نسل کشی جاری ہے۔ نسل کشی کے دوران جو سفاک حربے استعمال ہو رہے ہیں ان سے مترشح ہوتاہے کہ یہ کام مجرمانہ نفسیات یا مسخ شدہ فطر ت رکھنے والے قاتلوں کے ہاتھوں انجام دیا جا رہا ہے جنہیں سفاکیت، سنگ دلی اور درندگی کی باضابطہ تربیت دی گئی ہے کیونکہ عام حا لات میں محض نسلی دشمنی اور مذہبی عصبیت کسی انسان کو اس قدر سنگ دل نہیں بنا سکتی ہے۔نسل کشی توظلم ِ عظیم ہے ہی مگر جو ظالمانہ حربے معصوم لوگوں کو صفحہ ٔ ہستی سے مٹانے کے لئے استعمال کئے جارہے ہیں ،وہ نہایت ہی بھیانک ہیںجنہیں دیکھنے کے لئے پتھر کا دل اور بے نم آنکھ چاہئے ۔یہ سوچ کر منہ کلیجے کو آتا ہے کہ ان مظلوموں نے اپنے پیاروں پر ہو رہے اس قدر ظلم و زیادتی کو کیسے دیکھی ہو گی اور یہ کربناک اور دلدوزمظالم کیسے درد کے سنپولے بن کر ان کے دل کو ڈس رہے ہوں گے؟؟؟
بہر کیف یہ ظلم و بربریت برمی بودھ دہشت گردوں کے اس دعوے پر خندہ زن ہے کہ وہ گوتم بدھ کے ماننے والے ہیں جن کی تعلیمات امن و آشتی اور رحم و کرم پر مبنی ہیں۔ سدھارتھ یا گوتم بدھ کے بارے میں بتایا جا تا ہے کہ وہ ایک شاہی خاندان کے چشم و چراغ تھے ۔بڑے ہی ناز و نعم سے پالے گئے اس حسا س طبیعت شہزادے کو جب ایک دن عام انسانوں کی بے بسی اور لاچاری ، تکلیف اور غم کی تصویریںنظروں سے گزریںتو وہ اس قدر رنجیدہ خاطر دلبرداشتہ ہوگئے کہ راج محل کی عیش و عشرت کو لات مار کر بن باس کی راہ لی تاکہ دکھ اور تکلیف کی دنیا انسانی دنیا کو نجات ملے ۔ کافی ریاضت اور گیان دھیان کے بعد جن صحت مند اقدار و اصول کی بنیاد پر اس نے بدھ مت کی بنیاد رکھی اس کے مطابق انسان تو انسان کسی بھی ذی روح مخلوق کی ایذ اء رسانی یا جمادات ونباتات کو آزار وغم پہنچانا قطعاً ممنوع ہے ۔گویا عدم ِ تشدد اس مذہب کابنیادی اصول ہے ۔گوتم بدھ نے اپنے پیرو کاروں کو’’ باطن کی پاکیز گی ‘‘اور خلق اللہ کی محبت‘‘ کی تلقین کی تھی ۔افسوس عکس العمل اس کے آج میانمار میں ناجنگ والے اسی مذہب کے نام پر خبث ِ باطن اور دوسرو ں کے تئیں اپنے نفرت و کینہ کا ایسا بدترین مظاہرہ کیا جارہا ہے کہ میڈیا کی آنکھ اسے من و عن عکس بند کرنے اور قلم کی روشنائی قلم بند کرنے سے عاجز ہیں ۔بدھ مت حسن ِاخلاق اور عمل ِاَحسن پر عمل درآمد کی تاکید کرتا ہے ، تمام انسانوں کے ساتھ شفقت ،حسن سلوک ، تعظیم و ہمدردی اوررواداری کادرس دیتا ہے تاکہ دنیا خوشیوں کا گہوارہ بنی رہے مگر برمی بود ھ دہشت گردوں اس کے اُلٹ میں قتل وغارت ، بد سلوکی ، تعصب ،قطع رحمی،عدم ِ روا داری اور انسانیت کی بے حرمتی کے تمام سابقہ ریکاڑ مات کر رہے ہیں اور نہتے روہنگیائی مسلم آبادی کو حرف ِ غلط کی طرح مٹانے کا یہ کام انجام دینے میں بدھ مت کے مبلغ یا بودھ بھکشو یعنی راہب پیش پیش نظر آ رہے ہیں۔واضح رہے کہ میانمار کا معروف الٹی کھوپڑی والا آدم خورمذ ہبی رہنما اشین وراتھو مسلمانوں نسل کشی اور ملک بدری میںبنیادی کردار ادا کر رہاہے ۔یہ اپنی نفرت آمیز تبلیغ اور اشتعال انگیز راکھشسی سوچ کے عین مطابق اقلیتی روہنگیا مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا ۔ویراتھو نے ایک موقع پر برمی مسلمانوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا تھا ’’آپ(برما کے بدھسٹ) احسان اور محبت سے بھرپور ہوسکتے ہیں، لیکن آپ پاگل کتے (برمی مسلمان)کے پہلو میں نہیں سو سکتے۔۔۔۔(اس کام میں ) اگر ہم نے کسی بھی قسم کی کمزوری دکھائی تو ہماری سر زمین پوری کی پوری مسلم ہو جائے گی ۔‘‘ نفرتیں پھیلانے اور قتل عام کو جاری رکھنے کے مشن میں اس آدم خور بودھ راہب نے اس قدر بدنامی پائی کہ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق ’’ٹائم میگزین ‘‘نے جولائی ۲۰۱۳ء میں اپنے سرورق پرا س کی تصویر شایع کی اور اس پر یہ سرخی بھی جمادی:’’بدھسٹ دہشت اورو حشت کا چہرہ‘‘۔ یہی وہ شخص ہے جس نے مذہبی عصبیت کی راکھ میں چھپی ہوئی چنگاریوں کو شعلہ فشاں کیا اور ان کی شعلوں سے ہزار بھرے پُر ے مسلم گھرانوں کو گھر والوں سمیت جلا کر راکھ کردیا ۔برما کی دبی کچلی مسلم اقلیت کے حق ِحیات کااحترام تو دور ، اس نے برما میں اقوام متحدہ کی خصوصی خاتون نمائندہ یاگی لی کو طوائف اور کتیا کہہ کر اس کی تذلیل بھی کی۔مسلمانوں کے متعلق اس نے ایک مذہبی تقریب کے دوران یہ تک کہا کہ ’’میں انہیں(مسلمانوں ) کو تخریب کار کہتا ہوں کیونکہ وہ واقعاً تخریب کار ہیں اور مجھے اس بات پر فخر ہے کہ میں ایک بنیاد پرست بدھسٹ ہوں۔‘‘ بہرصورت برما کے بدھسٹ مذہبی رہنمابدھ مت کی تعلیمات کولتاڑتے ہوئے مذہبی منافرت پھیلانے اور مسلم اقلیت کی نسل کشی میں کافی سرگرم ہیں ۔ 696 کے نام سے موسوم ایک مذہبی انتہا پسند تنظیم قتل و غارت گری کا بازار گرم رکھے ہوئی ہے۔یہ تنظیم مذہبی منافرت، نسلی تعصب، عدم ِ روا داری، انتہا پسندی،کی ایک ہیبت ناک علامت بن گئی ہے۔ اس قبیح مشن میں برمی فوج اور آن سانگ سوچی فعال انداز میں قاتلوں کی پشت پر ہیںاور ظاہر سی بات ہے جو مذہبی چہرے عدمِ تشدد کی تعلیمات کو عام کرنے کا زبانی کلامی دعویٰ رکھتے ہوں اور جو سیاسی ہستی ملک میں جمہوریت اور امن کا پھریرا لہرانے کا دم بھرتی ہو، وہیں جب تشدد کو فروغ دیں اور تشددپسنددعناصر کو بھوکے بھیڑیوں کی طرح نہتوں پر کھلا چھوڑدیں تو اراکان میں تکریم ِانسانیت اورتحفظ اقلیت کی ضمانت کس سے حاصل کی جاسکتی ہے۔ ؎
بنے ہیں اہلِ ہوس، مدعی بھی منصف بھی
کسے وکیل کریں، کس سے منصفی چاہیں
میانمار میں بدھ مت کے راہب ا خلاق ا ورانسانیت سے کس قدر تہی دامن ہوکرسفلیت کے سمندرمیں ڈوب چکے ہیں ، اس کے ثبوت میں متعدد سنسنی خیزواقعات کا حوالہ دیا جا سکتا ہے لیکن طولت سے بچتے ہو ئے صرف ایک واقعہ کا ذکر چشم کشا ہوگا۔بی بی سی اردو سروس کے مطابق ’’سنہ 2013 میں رنگون کے شمال میں واقع اوکن میں ایک مسلمان لڑکی کی سائیکل (حادثاتی طور) ایک بدھ راہب سے ٹکرا گئی ۔ اس کے بعد سخت گیر بدھوں نے مساجد پر حملے کر دئے، تقریبا 70؍ گھروں کو نذر آتش کر دیا گیا۔ اس میں ایک شخص ہلاک اور نو دیگر زخمی ہوگئے۔‘‘اس واقعہ سے یہ بات الم نشرح ہو جا تی ہے کہ بدھ راہب معمولی سی بات پر مشتعل ہو کر مسلم اقلیت کے خلاف کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ پتہ نہیں ان راہبوں کو بدھ مت کے بانی گوتم بدھ سے منسوب ایسے سینکڑوں قصے از بر بھی ہیں جن میں دوسروں کے تئیں کرم فرمائی ، مہربانی اور قوتِ برداشت کے قصیدے موجودہیں ۔
(بقیہ جمعہ کے شمارے میں ملاحظہ فرمائیں)
email: [email protected]
cell: 9596465551