گلشن پرست ہوںمجھے گُل ہی نہیں عزیز
کانٹوں سے بھی نبھاہ کئے جارہاہوں میں
میرے جیسے ہزاروں، لاکھوں ہم وطنوں کا بہت پہلے سے یہی خیال رہا ہے کہ سوچی سمجھی کسی بڑی سازش کے تحت میر ے وطن کشمیر کی معطر اور رشک جناں آب وہوا کو سیاست کے گندے لباس میں محصورکردیا گیا ہے لیکن ہماری سوچ اور ہمارا انداز بیان کبھی دلی کی سڑکوں سے اور کبھی اسلام آباد کی پہاڑیوں سے ٹکراکرہمارے پاس لوٹ آتا تھا۔گزشتہ روز کشمیر کے نامور کالم نگار ایم اشرف کے ایک مضمون ( گریٹر کشمیر ۳۰ اگست) کا مطالعہ کرکے مجھے اپنے اس طرح کے خیال میں تبدیلی لانے میں مدد ملی ہے۔ زیر بحث مضمون کو پڑھنے کے بعد برصغیر کے بٹوارے کے مناظر اور جموں کشمیر کو بانٹنے کی گردان کو وسیع تر ماحول میں سمجھنے کا موقع ملتا ہے ۔ حالانکہ بٹوارے کا عمل اور اس کے نتائج، جو حقیقت بن کر ابھی تک ہمارے سامنے ہیں، جوں کے توں اپنی ہی جگہ گھیرے ہوئے ہیں۔ تاہم حالات کو سمجھنے کا انداز ضرور بدل جاتا ہے اور ذہن میں بھی تبدیلیاں آ جاتی ہیں۔ برصغیر سے برطانوی سامراج کی رخصتی کے بعد مسلمانوں کو علیحدہ وطن کیا ملا، کہ زندگی کا کبھی ہنسی خوشی کے لمس میں اور کبھی دکھ کے لمحات میں گزر ہوتا ہے۔ انسان کو انسان کے ہی جنون کے ساتھ ٹکراتے دیکھ کر بٹوارے کے مثبت پہلو آنکھوں کی ٹھنڈک کا وسیلہ بن جاتے لیکن جب کوئی سر زمین تقسیم ہوجانے پر دنیا کی تاریخ میں درج کسی بھی بھاری قیمت سے بڑھ کر قربانی ادا کرنے کی کہانیوں کے الفاظ آنکھوں پہ چھاتے ہیں تو زندہ رہنے کی کوئی بھی حسرت باقی نہیں رہتی ہے۔کوئی تقسیم ہند کیلئے قائدا عظم محمد علی جناح کو ذمہ دار گردانے اور کوئی بھارت کے اولین وزیراعظم جواہر لال نہرو کو ہٹ دھرم مانے، دونوں صورتوں میں علم ،عقل اور حاصل اطلاعات کے حساب سے کہیں یہ صحیح لگتا ہے اور کہیں اور دونوں کو غلط بھی قرار دیا جاتا ہے۔ اس نوعیت کی کمزوری انسانی فطرت کا لازمی جز مانا جاسکتا ہے لیکن ظالم اور اقتدار پرست عناصر انسان کی اس فطری کمزوری کا زبردست استحصال کر کے فقط اپنا اُلو سیدھا کرتے رہتے ہیں۔ آج کا ہندوستان استحصال کے اسی دلدل میں غرق ہوتا جا رہا ہے اور آگے کا علم صرف پروردگار عالم کو ہی معلوم ہے۔
بر ٹش انڈیا کے بٹوارے کی عام کہانی:۔ انگریز سامراج نے متحدہ ہندوستان کو اٹھارویں صدی کے وسط میں مسلم حکمرانوں سے چھین لیا تھا۔ خاموش برطانوی کوششوں سے ایسٹ انڈیا کمپنی نام کے اقتدار کا آغاز ۱۷۵۷ء میں ہوا تھا ۔ پھر ۱۸۵۷ ء میں ہندوستان چھوڑ دو تحریک شروع ہو ئی تھی۔ انڈین نیشنل کانگریس کے جھنڈے تلے اس تحریک میں ہندو، مسلمان سبھی لوگوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے۔ ابھی آزادی کا سورج طلوع ہونے میں کچھ وقت باقی تھا کہ اقتدار میں حصہ داری کے حوالے سے انڈین کانگریس میں شامل دو اہم فریقین، ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان پھوٹ پڑ گئی۔ بالآخر مسلمانوں نے بحیثیت الگ قوم اپنے لئے علیحدہ وطن کا مطالبہ کیا لیکن مسلمانوں کے ایک اور بلند و بالا لیڈر مولینا ابوالکلام آزاد نے ہندوستان کا بٹوارہ کر نے کی ہر کوشش کی سختی کے ساتھ مخالفت کی تھی۔ محمد علی جناح کی قیادت میں جب الگ وطن کے حق میں پاکستان مسلم لیگ کی تحریک کوکامیابی مل رہی تھی، مہاتما گاندھی تب بھی ہندوستان کا بٹوارہ ہوجانے کے کٹر خلاف تھے اور تقسیم کو روکنے کیلئے اقتدار میں مسلمانوں کو زیادہ سے زیادہ حقوق دینے کی وکلالت کرتے پھرتے تھے لیکن جواہر لال نہرو اور انڈین کانگریس کے دیگر زعما نے محمد علی جناح کی شرائط اور گاندھی جی کی کوششوں کو نظرانداز کرکے بالآخر تقسیم ملک سے متعلق خواب کو حقیقت میں بدلنے کی راہ ہموار بنادی ۔ اس طرح کے حالات پیداہو جانے کے ساتھ ہی برٹش حکومت نے دو قومی نظریات کی بنیاد پر بر صغیر کو دو الگ الگ ممالک میں تقسیم کرنے کے منصوبے کو آخری شکل دی اور ساتھ ہی ساتھ ریڈ کلف ایوارڈ کے تحت سرحدیں مقرر کرنے کا آغاز بھی ہوا اور ۱۷ اگست تک مکمل کیا گیا ، جب کہ اس سے پہلے ہی پاکستان کا وجود ۱۴؍ اگست ۱۹۴۷ء کو معرض وجود میں آیا اور بھارت نے اپنی آزادی کا جھنڈا اگلے دن یعنی ۱۵؍ اگست کو لہرایا۔ پاکستان کو اس ملک کے حصولِ مطالبہ کی بنیاد پر اسلامی جمہوریہ کا نام دیا گیا، جب کہ بھارت میں کم و بیش پاکستان کی کل آبادی کے برابر رہائش پذیر مسلمانوں کی موجودگی کو مدنظر رکھتے ہوئے اس ملک کیلئے سیکولرازم کے نظام کو اپنایا گیا۔
جموں کشمیر کی حیثیت:۔ برٹش انڈیا میں مطالبہ آزادی ابھی اپنے عروج پر تھا اور ابھی تک جب برٹش انڈیا کی تقسیم کی کوئی آواز بھی نہ سنائی دی تھی،کہ جموں کشمیر میںمتعلق العنانیت کے خاتمہ کو لے کر پہلی بار ایک منظم تحریک کا آغاز ہوا تھا۔ شہر سرینگر کے وسط میں منعقدہ ریڈنگ روم میٹنگوں کو کچھ ہی وقت گزرجانے پر آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس کے جھنڈے تلے وسعت دی گئی ۔ اس تحریک پر اگرچہ شیخ محمد عبداللہ کی قیادت و شخصیت کا غلبہ تھا، تاہم سرینگر شہر کے مرکز میں مسلمانوں کے حقوق کے نگہبان میرواعظ خاندان کی مذہبی و معاشرتی اہمیت کو کسی بھی صورت میں نظر انداز نہیں ہونے دیا جاسکتا تھا۔ تب وقت اس خاندان کی قیادت میرواعظ مولوی محمد یوسف شاہ صاحب کے ہاتھوں میں تھی۔ بحیثیت میر واعظ کشمیر مولوی صاحب کے وجود اور اُن کی با اثر شخصیت کو نہ حکمرانوں کے ایوانوں میں نظر انداز کیا جاسکتا تھا اور نہ کشمیر کے مسلمانوں کے دلوں میں آباد مولوی خاندان کی عقیدت و احترام کو مٹایا جاسکتا تھا۔اِدھر ظالم و جابر شخصی نظام کو زمین بوس کرنے کیلئے ایک اُبھرتے نوجوان شیخ محمد عبداللہ کی شعلہ بیانی بھی نوجوانوں کے دلوں میں دھیرے دھیرے جگہ بنارہی تھی۔یوں تحریک آگے کی طرف رواں دواں تھی، لیکن قصہ مختصر یہ کہ ایک میاں میں راج شاہی کے خلاف برسرکار دو تلواروں کا سمایا جا ناممکن نہیں ہوسکتا تھا اور یہی ایک آفاقی حقیقت دولیڈروں کے شخصی ٹکراؤکا نقطہ ٔ آغاز بن گیا۔ اس دراڑ کو روکنا آسان کا م نہیں تھا اوریہ ٹکراؤ کشمیر کی تحریک ِآزادی کی راہ کا ایک بہت بڑا پتھر بن گیا۔تاہم تحریک میں جو دراڑ پڑگئی تھی،
(بقیہ جمعرات کے شمارے میںملاحظہ فرمائیں)