اختلاف انسانی صلاحیتوں میں سے ایک ایسی خدادا صلاحیت ہے جو غور و فکر کی نئی راہیں ہموار کرتی ہے۔دماغ کو تدبر کے نئے اسلوب اور زاویوں سے روشناس کرواتی ہے۔مدلل اختلاف جدت اور ترقی کا دوسرا نام ہے کیونکہ اگر تمام انسان ایک ہی نقطے پر متفق ہو جائیں تو ارتقاء کا عمل رُک جائے گا۔ خدانے انسان کو اشرف المخلوقات بنا کر اس کائنات میں بھیجا،اسے شعور کی نعمت عطا کر کے باقی تمام مخلوقات پر فضیلت دی اور ہر انسان کو الگ الگ سوچ اور الگ الگ دماغی صلاحیتں عطا کیںتاکہ وہ اس دنیا میں اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کراس کائنات میں موجود ہر شٔے پر غور و فکر کرسکے اوریہ بھی اختیار دیا ہے کہ وہ اپنے علم و عقل سے اپنی راہیں ڈھونڈ لے۔ گویا ہر انسان کو اُس کی صلاحیتوں کے مطابق اپنی نشانیوں کی تلاش اور نشان دہی میں دوسرے انسانوں سے اختلاف کا حق بھی دیا ہے۔ انسانی طرز تفکر میں تنوع اور اختراع اختلاف رائے کی یہی سب سے بڑی دلیل ہے۔لیکن بد قسمتی سے ہم بحیثیت انسان ایک دوسرے کو یہ حق دینے کو تیار نہیں ہیں۔ہمارے معاشرے میں اختلاف جیسی خوبصورت روش کو بغاوت اور گستاخی کا نام دے کر اختلاف رکھنے والے فرد سے جینے کا حق تک چھیننے سے گریز نہیں کیا جاتا۔ ہم بحیثیت معاشرہ اس مغالطے میں مبتلا ہیں کہ ہم اور ہمارے نظریات سو فیصد درست ہیں جبکہ ان نظریات سے اختلاف رکھنے والے تمام لوگ کم عقل اور لا علم ہیں۔کیونکہ ہمارا معاشرہ جس نظام کی پیداوار ہے، اس کے نصاب میں کہیں بھی برداشت اور رواداری کے اسباق موجود نہیں ہیں۔کہیں پر بھی ہمیں احترام رائے اور اختلاف رائے کے حق کے بارے میں تربیت نہیں دی گئی۔جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اختلاف رائے کی بنیاد پہ ہم ایک دوسرے کے جانی دشمن بننےلگے، دانشوروں کے قلم پہ قد غنیں لگیں اور ہر مختلف شخص کو اظہارِ رائے کی صورت میں اپنی جان خطرے میں نظر آنے لگی ہے۔ہم اس قدر تنگ نظر ہو چکے ہیں کہ کسی مجلس میں گفتگو کے دوران اگر کوئی شخص ہم سے اختلاف کرتا ہے تو وہ ہمیں اپنا دشمن لگنے لگتا ہےاور جب ہمارے پاس اس کے اختلافات کے جواب میں کوئی مدلل جواب نہیں ہوتا تو ہم اس کی دلیل ماننے کی بجائے اس کی ذات پر بات شروع کر دیتے ہیں۔جس کی بنیادی وجہ اس تربیت کی کمی ہے جو ہمیں مدلل اختلاف کو بخوشی قبول کرنے کے حوالے سے نہیںدی گئی ہے۔چونکہ بدقسمتی سے عالم کُل اور عقل کُل ہونے کے خناس نے ہمیں سوچنے،سمجھنے اور برداشت کرنے کی صلاحیتوں سے محروم کر دیا ہے اور ہم لوگ بحیثیت معاشرہ صم بکم عمی کی جیتی جاگتی مثال بن چکے ہیں۔دین اسلام جس کا خاصہ ہی برداشت اور رواداری ہے۔ہم اس کے پیروکار ہوتے ہوئے بھی اپنے مذہبی معاملات میں بھی شدید عدم برداشت انتہا پسندی کا شکار ہیں۔اختلاف جو ہمارے دین کا حسن ہے، ہم نے اس کو مسخ کر کے تفرقے کا روپ دے دیا ہے۔اختلاف رائے تو ہمارے اسلاف کے زمانے میں بھی موجود تھی لیکن انہوں نےاس اختلاف کے حسن کو ہمیشہ برقرار رکھا اور کبھی بھی برداشت اور رواداری کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا اور کبھی بھی دائرہ اخلاق سے باہر نہیں ہونے دیا۔ لیکن آج کے ہمارے معاشرے میں کہیں پر بھی رواداری اور برداشت جیسی اسلامی قدریں نظر نہیں آتیں۔ ہر اختلاف پر ایک فرقہ موجود ہے،جس کے لئے صرف اور صرف اپنا نظریہ اور اپنی رائے اہم ہے۔ اس تفرقے اور عدم برداشت کا زہر ہمارے اندر اس قدر سرایت کر چکا ہے کہ ہم ایک دوسرے کے سلام کا جواب تک دینا گوارہ نہیں کرتےاوراپنے نظریات کے پرچار کے لئےہر طرح کی زبان اور الفاظ استعمال کررہے ہیں۔جس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ ہم نے اپنے مذہبی اور فکری اختلافات کو ذاتی اختلافات میں تبدیل کرنا شروع کر دیا ہے۔کوئی بھی شخص اگر ہمارے کسی نظریے سے اختلاف کرتا ہے تو ہمیں لگتا کہ وہ ہماری ذات سے اختلاف کر رہا ہے۔ ٹھنڈے دماغ سے سوچنے کی بجائے ہم اُس سے بدلہ لینے کے بارے میں سوچنا شروع کر دیتے ہیں اور یہی سوچ اُس امر کی بنیاد بنتی ہے جو معاشرے کو تباہ کر دیتی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ کوئی بھی علم ، خواہ وہ دینی ہو یا دُنیاوی،سیاسی ہو یا سماجی کو اپنے بند دماغوں پر بوجھ کی طرح نہ لادیں بلکہ انھیں کھولا جائے تاکہ اس بات کا احساس ہوجائے کہ ہمارے اِردگرد بسنے والے لوگ مختلف سوچ اور رائے رکھتے ہیں اور وہ بھی ماری طرح اپنی رائے رکھنے کا حق رکھتے ہیں۔