برداشت زندگی کا عمدہ اصول ہے ۔جہاں بھی برداشت کا مادہ پیدا ہو جائے وہاں حالات خوشگوار ہو تے ہیں ۔برداشت کی قوت سے ہی معاشرے میں محبت و امن کا پیغام پھیلتاہےاورلڑائی و جھگڑے، فتنہ و فساد، گالی گلوچ، انتقام گیری، حتٰی کہ قتل و غارت جیسےخطرناک خصائل سے پاک معاشرہ وجود میں آتا ہے ۔ لفظ برداشت کا عربی مطلب تحمل ہے ،جس کے لغوی معنی بوجھ اٹھانے، سہنے، بردباری دِکھانے یا مصائب کو جھیلنے کا مادہ کے ہیں ۔گہرائی سے دیکھا جائے تو برداشت کا مطلب ایسی بات کے مقابلے میں صبر و تحمل کرنا، سہنا، غصے سے بچنا، اشتعال انگیزی سے دور رہنا، انتقام گیری سے باز رہنا یا قوت و طاقت ہونے کے باوجود بھی نہ جھگڑنابلکہ شفقت، ہمدردی و محبت کا مظاہرہ کرنا ہے،جس کلام ،بات یا الفاظ کے اظہار سے دوسرے کو ٹھیس پہنچے، گٹھن پیدا ہوجائےیااُس کی شخصیت پر اثر پڑجائے،اُن کا استعمال نہ کرنا بھی قوت ِبرداشت ہوتا ہے۔
برداشت، اِنسانیت کی وہ صفت ہے جس سے انسان میں ایسی قوت اور طاقت پیدا ہوتی ہے، جس کے سبب وہ غصّے، جوش، اشتعال اور انتقام کے جذبے کے باوجود عفو و درگزر سے کام لیتا ہے اور اپنے آپ کو قابو میں رکھتا ہے۔ مگر یہ صفت اس دنیا سے دوسری اخلاقی اقدار کی طرح معدوم ہوتی جا رہی ہے۔آج جس طرف نگاہ اٹھائی جائے عدمِ برداشت (Intolerance) کا رویہ اپنی تمام تر بدنمائی کے ساتھ نظر آتا ہے۔ اس طرح کے جملے ’’ میں اس بات کو قطعاً برداشت نہیں کروں گا ، میں یہ بات نہیں مانتا ہوں ، ہمارے وہاں سے گزر کے تو دکھاؤ ، آپ مجھے شاید جانتے نہیں ، آپ کو دیکھ لوں گا، جہنم میں جاؤ ، اپنے کام سے کام رکھو،پچھتانا پڑے گا ‘‘ وغیرہ جیسے الفاظ جن میں چھُپے لفظوں میں دھونس ،دبائو ،برتری ،دھمکی یا نتائج شامل ہوتے ہیں، بار بار سننے کو ملتے ہیں اوریہ سب کچھ عدمِ برداشت والےہی اظہار کرتے رہتے ہیں۔ یونیورسٹی جیسی اعلیٰ سطح کی تعلیمی اداروں میں بھی بیشتر طالب علموں کو یہ مصیبت جھیلنی پڑتی ہے اور مختلف انداز کی انتقام گیریوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ قوم کے معمار اساتذہ کرام بھی کبھی کبار معمولی سی بات پر برداشت کا مادہ کھو بیٹھتے ہیں جو باعث تشویش اور قابلِ مذمت بات ہے۔
چند روز پہلے راقم الحروف کو ایک سفر کے دوران عدمِ برداشت کا واقع اس وقت دیکھنے کو ملا جب ایک مسافر بردار گاڑی کوڈرائیور نے تیز رفتاری سے چلا رہا تھا۔ چند مسافروں نے ڈرائیور کو گاڑی تیز چلانے پر منع کیا تو دوسری جانب کئی مسافروں نےان ِمسافروں کا اعتراض مسترد کرکے ڈرائیور کو گاڑی تیز چلانے پر بضد رہے۔اب ڈرائیور کیا کرے اور کیا نہ کرے ،اُس نے اپنی پیشہ ورانہ حکمت و دانائی کا مظاہرہ کر کے اوسط رفتار سے گاڑی اپنی منزل کی طرف رواں دواں رکھی۔ اس دوران کچھ مسافت طے ہوتے ہی دو مسافر آپس میں لفاظی جنگ میں پڑگئےاور باتوں باتوں میںایک دوسرے پر غلبہ پانے اور برتری دکھانے کی کوششوں میں مصروف رہے ۔ایک گاڑی کو تیز چلانے کے حق میں تھا جب کہ دوسرا آہستہ چلانے کے ۔ بس میں موجود باقی مسافر کبھی ایک ساتھی کو چُپ کرانے کی کوشش کرتے رہیں تو کبھی دوسرے مسافر کو ۔ لیکن اُن کی کوئی کوشش کامیاب ثابت نہ ہوئی ،حالت یہاں تک پیچیدہ ہوتے رہےکہ اِن دونوں مسافروں میں سے ایک کی قوت برداشت بالکل کھو گئی اور وہ اس مسافر گاڑی کو منزلِ مقصود کے قریب پولیس کے ذریعے بند کرانے کی بھی دھمکی دی ۔اب یہ باتوں کی لڑائی ہاتھوں تک پہنچنے ہی والی تھی کہ ایک دانا مسافر نے جھگڑے پر تُلے ہوئے دونوں مسافروں کو اپنی استعدادِ علم کے مطابق مختصر لیکن جامع انداز میں قرآن و حدیث کی روشنی میں صبر و تحمل کی باتیں کیں اور انہیں قوتِ برداشت سے روشناس کیا ۔ اللہ رب العالمین کے فضل و کرم سے دونوں پہ اُس کی بات اثر ہوا اور دونوں نے خاموشی اختیا ر کرکے شرمندگی کا مظاہرہ کیا اور اِس طرح ایک بڑا جھگڑا رونما ہونے سے قبل ہی ٹھنڈا پڑ گیا اور اتنے میں وہ مسافر بردار گاڑی اپنی منزلِ مقصود پر بحفاظت پہنچ گئی۔
اس طرح کی صورت حال یا اس قسم کے مناظر نہ صرف مسافر گاڑیوں کے اندر دیکھنے کو ملتے ہیں بلکہ یہ گھر گھر اور در در پر دیکھنے میں آتے ہیں ۔ معاشرے میں آہستہ آہستہ خلوص، محبت، ہمدردی، بھائی چارگی، ایثار اور دوستی ختم ہوتی جا رہی ہے ۔ برداشت کی قوت آہستہ آہستہ کافور ہوتی جارہی ہے۔ معمولی باتوں پر اب بڑی بڑی لڑائی و جھگڑوں کی نوبت آتی ہے۔ عمر دراز لوگوں میں عموماً اور نوجوانانِ قوم میں خصوصاً اس قسم کے مادہ کی کمی نظر آرہی ہیں ۔ سیاحتی مقام ہو یا شادی بیاہ کی تقریبات، مقدس تہوار ہو یا کوئی مسابقتی امتحان گاہ، بازار ہو یا گھر غرض ہر جگہ چھوٹی چھوٹی معمولی باتوں پر جھگڑے ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔
عدم برداشت سے بیشتر گھروں کا ماحول بھی اب بگڑ چکا ہے ۔ میاں بیوی جیسے اٹوٹ رشتے کے درمیان ہی نہیں بلکہ اولاد اور والدین کے مقدس رشتوں میں کڑواہٹ پیدا ہونے کی بنیادی وجہ عدمِ برداشت ہی ہے ۔بہن ،بھائی اور دیگر خونی رشتوں کے درمیان میں بھی اب ایک دوسرے کی بات کے سننےکی قوت نہیں رہی ہے۔ حالانکہ یہ صرف اَن پڑھ لوگوں کا حال نہیں ہے بلکہ پڑھے لکھے معزز گھروں میں بھی اسی قسم کا ماحول پیدا ہو چکا ہے۔گویا یہ عدم برداشت ہی ہے، جس کا نتیجہ تشّدد کی صورت میں نظر آرہا ہے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ کئی افراد میں اعلیٰ تربیت ہونے کے باوجود برداشت جیسے گُن کی کمی عملی میدان میں نظر آرہی ہے ۔
اس عدمِ برداشت کے مظاہرے ہمیں آئے روز تسلسل کے ساتھ دیکھتے کو ملتے رہتے ہیں ۔اس وقت خودکشی کا جو سنگین مسئلہ ہمارے سامنے اُبھر کر آیا ہے،وہ بھی برداشت جیسے گُن کی کمی کا نتیجہ ہی ہے ۔ٹریفک جام میں پھنسے لوگوں میں یہ عام دیکھنے کو ملتا ہےکہ ذرا سی غلطی پر لڑنا جھگڑنا معمول بن چکا ہے ۔ ٹیلی ویژن کے ذریعے بحث و مباحثہ کے پروگراموں سےبھی اب عدمِ برداشت کو کافی فروغ مل رہا ہے ۔ حیرانگی کا عالم یہ ہے کہ بعض اوقات مسجدوں کے محراب سے بھی مقرر حضرات برداشت کے اہمیت بھول بیٹھتے ہیں۔جس سے بعض اوقات سنگین صورتحال جنم لیتی ہے ۔
صبر و برداشت کرنے والوں کو قرآن میں جنت کی بشارت دی گئی ہے (الہود: 11)۔ مزید قرآن ہمیں تکلیف و مشکلات کی گھڑی میں برداشت کرنے کا اصل گُر سِکھاتا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے کہ " اور رحمٰن کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر آہستگی کے ساتھ چلتے ہیں اور جب ان سے جاہل لوگ ناپسندیدہ بات کرتے ہیں تو وہ سلام کہتے ہیں، الگ ہو جاتے ہیں ۔" (الفرقان؛ 63)
قرآنِ کریم میں رب العالمین نے برداشت کرنے والوں کی تعریف ایک منفرد اور غیر معمولی انداز میں یوں فرمائی ہے کہ " اور وہ اپنے غصّے کو ضبط کرتے ہیں اور لوگوں کو معاف کر دیتے ہیں۔" (آل عمران: 134)
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرح دیگر پیغمبروں نے کئی برسوں تک تبلیغ کی ہیں ۔ لوگوں کو ہر طریقہ سے اللہ تعالیٰ کے دین کی طرف بُلایا، رات دن تبلیغ کرتے رہے ۔بالکل بھی بے صبر نہیں ہوئے اور نہ ہی برداشت کا مادہ کھو بیٹھے ہیں ۔اسی طرح اللہ کے آخری نبی خیر الانام سرور کونین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تمام مبارک زندگی میں اپنے اوپر ہونے والے ظلم و جبر اور زیادتی کا بدلہ لئے بغیر ہمیشہ صبر و تحمل اور عفو و درگزر کا معاملہ فرمایا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکۃ المکرمہ کے ابتدائی تیرہ سال کی زندگی میں ہر طرح کی اذیتیں برداشت کیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اوپر ہو رہی سبھی ظلم و زیادتی کو برداشت کیا ۔ یہ سب قوت ِ برداشت کی صلاحیتوں کا ثمرہ تھا ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ "طاقتور وہ نہیں جو کسی دوسرے کو پچھاڑ دے بلکہ اصل طاقتور وہ ہے جو غصّے کے وقت خود پر قابو رکھے " (صحیح المسلم)
الغرض ہم جس دین کے پیرو کار ہیں ،وہ ہر وقت صبر ، تحمل و برداشت کی اہمیت پر سب سے زیادہ زور دیتا آیا ہے ۔ ہمیں چاہئے کہ بحیثیت مسلمان ہم اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہوکر اپنے اندر برداشت کی صلاحیت کا مادہ پیدا کریں۔ کسی کی اشتعال انگیزی کے ردعمل میں ہمیں سوچے سمجھے طرز عمل (reflective behaviour) کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔اس طرزِ عمل سے انسان اشتعال کے موقع پر اپنے جذبات پر بہ آسانی قابو پا سکتا ہے، جس سے امن و محبت سے ہرا بھرا خوشگوار چمن تیار کیا جا سکتا ہے ۔
ہاری پاری گام ترال
رابطہ – 9858109109