عارف شفیع وانی
14ویں صدی کے بادشاہ زین العابدین، جسے عرف عام میں کشمیری عوام بڈشاہ کے نام سے جانتے ہیں،سری نگر میں براری نمبل جھیل کی خوبصورتی سے اس قدر مسحور ہوئے کہ انہوںنے اسکے کنارے حمام بنائے۔ لیکن بڈشاہ کو کیا معلوم تھا کہ براری نمبل جھیل ایک دن غلاظت کے ڈھیرمیں تبدیل ہو جائے گا!
شہر خاص کے دروازے پر واقع براری نمبل جھیل صاف پانی کیلئے جانا جاتا تھا۔ یہ کشمیر کے اہم سیاحتی مقامات میں سے ایک تھا۔
1970 کی دہائی سے پہلے براری نمبل سے پانی کے اخراج کیلئے دو راستے تھے ۔ایک مغرب کی طرف اور دوسرا نالہ مار سے شمال کی طرف۔1970 کی دہائی کے دوران نالہ مار کی مٹی سے بھرائی کرکے اسے سڑک میں تبدیل کر دیا گیا۔ نالہ مار آؤٹ لیٹ کی بندش سے جھیل خراب ہونے لگی۔ رفتہ رفتہ، براری نمبل کی ہائیڈرولوجی یا پانی کا معیار متاثر ہونے لگا اور اس نے پانی صاف کرنے کی صلاحیت کھو دی۔
یہ آب گاہ ماحولیاتی لحاظ سے اہم ہے کیونکہ یہ فتح کدل کے علاقے میں ایک نالے کے ذریعے اضافی پانی کو دریائے جہلم میں چھوڑ کر ڈل جھیل کی ہائیڈرولوجی کو منظم کرنے میں مدد کرتی ہے۔ گزشتہ تقریباً تین دہائیوں کے دوران براری نمبل نے سرکاری بے حسی اور عوامی لالچ کا خمیازہ بھگتا ہے۔ آلودگی اور تجاوزات کے ساتھ ساتھ تحفظ کے اقدامات کی عدم موجودگی نے اسے معدومیت کے دہانے پر دھکیل دیا ہے۔ جھیل کا بڑا حصہ گھاس پھوس اور کچرے کے ڈھیروں نے نگل لیا ہے۔
بابا ڈیمب کی طرف سے جھیل پر بڑے پیمانے پر تجاوزات کی گئی ہیں۔جھیل کا یہ حصہ ایک بھرے بازار میں تبدیل ہو چکا ہے۔ براری نمبل کے کنارے کھلے عام استعمال شدہ اشیاء، پلاسٹک، سٹیل، لوہا اور کاغذو کچرے کوجھیل کی خالی زمین میں پھینکا جارہا ہے۔
کشمیر یونیورسٹی کے شعبہ ماحولیاتی سائنس کی طرف سے کی گئی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ براری نمبل جھیل نے گزشتہ 40 برسوں میں 10 ہیکٹر سے زیادہ اراضی کھو دی ہے ۔یہ مسئلہ میکروفائٹس یا پانی میں اُگنے والے گھاس پھوس اور پیڑپودوں کی بے تحاشا نشوونما سے بڑھ گیا ہے جس کی وجہ سے کھلے پانی کے پھیلاؤ میں کمی واقع ہوتی ہے۔
تقریباً دو دہائیوں سے گریٹر کشمیر اور کشمیر عظمیٰ ا س آب گاہ کی ابتر حالت کو اجاگر کر رہے ہیں۔ 2015 میں حکومت نے اس آب گاہ کی بحالی کیلئے ایک جامع منصوبہ تیار کیا تھا اور اسے “لٹمس ٹیسٹ” قرار دیا تھا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ تقریباً آٹھ سال گزرنے کے باوجود براری نمبل کی بحالی کیلئے کوئی سائنسی اقدام نہیں اٹھایا گیا۔
انجینئرنگ کے کاموں، ویونگ ڈیکوں یا جھیل کا نظارہ کرنے مقامات کی تعمیر اورپیدل چلنے کیلئے واکنگ ٹریک کی تعمیر کوچھوڑ کر پانی کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے شاید ہی کوئی سائنسی کوشش کی جا رہی ہے۔ موسم گرما میں جب گرمی انتہا پر ہوتی ہے تو براری نمبل سے ملحقہ علاقوں میں عفونت پھیل جاتی ہے اور وہ بدبو پورے علاقہ کو اپنی لپیٹ میں لیتی ہے۔کوئی عظمت یا فخر کا مقام بننے کی بجائے یہ آب گاہ اب لوگوں کیلئے تکلیف کا باعث بن چکی ہے۔
اس آب گاہ کے بیتھی میٹرک تجزیہ یا زیر زمین پانی کے سائنسی تجزیہ سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس کی گہرائی اب نہ ہونے کے برابر رہی ہے اور اب یہ 10 سے 174 سینٹی میٹر تک کی گہری رہی ہے ۔آبی ذخائر یا جھیلوں کی مجموعی صحت جاننے کیلئے کارلسن کا جو ٹرافک سٹیٹ انڈیکس (TSI)طریقہ کار مستعمل ہے ،اس کے مطابق براری نمبل آب گاہ کا TSIیا ٹرافک سٹیٹ انڈیکس 74 سے 87 تک ہائپریوٹروفک پانی کی نشاندہی کرتا ہے جس کامطلب یہ ہے کہ اس جھیل میں پانی کی شفافیت ناقابل بیان حد تک متاثر ہوچکی ہے اور اس میں خوردبینی کیڑے مکوڑوں کی بہتات ہے۔ مورفومیٹرک خصوصیات (حجم اور شکل) میں کمی کے ساتھ رقبہ کی کمی ،کم گہرائی اور زیادہ ٹرافک سٹیٹس انڈیکس جھیل کی ماحولیاتی سالمیت پر سمجھوتہ کرنے والے بشری دباؤ کی نشاندہی کرتے ہیں۔ جھیل میں پانی کی شفافیت ناقابل بیان حد تک متاثر ہوچکی ہے اور اس میں خوردبینی کیڑے مکوڑوں کی بہتات اور بے پناہ بوجھ جھیل میں شدید ترین آلودگی کی نشاندہی کرتے ہیں۔
ماہرین ماحولیات کا دعویٰ ہے کہ جھیل ختم ہونے کے دہانے پر ہے۔ نامور ماہر ماحولیات ڈاکٹر ایم آر ڈی کندنگر یہ کہنے میں قطعی عار محسوس نہیں کرتے ہیںکہ براری نمبل ایک گلائو اور سڑائو کے ایک پْرتشدد عمل سے گزر رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں’’سیوریج یا ٹھوس و رقیق فضلہ کی آمد سے جھیل میں بیکٹیریا کابوجھ ناقابل بیان حد تک بڑھ چکا ہے جس کی وجہ سے یہ ہائیڈروجن سلفائیڈ گیسوں کومسلسل خارج کررہاہے اور وہ جھیل کے آس پاس انتہائی قسم کی عفونت و رعونت کی وجہ بن چکا ہے ‘‘۔
ایک ہائیڈرولک انجینئر اعجاز رسول کا کہنا ہے کہ سجاوٹی باڑ لگانے اور دیکھنے کے مقامات کی تعمیر تب تک بے کار ہے جب تک کہ براری نمبل کی ماحولیاتی بحالی سائنسی بنیادوں پر نہ کی جائے۔ ایک ریسرچ سکالر شاہد احمد ڈار، جنہوں نے براری نمبل پر وسیع مطالعہ کیا ہے، بتاتے ہیں کہ گزشتہ 40برسوںمیں یہ آبی پناہ گا10 ہیکٹر سے زائد رقبہ کھو چکی ہے اور انتہائی آلودگی کے بوجھ سے دوچار ہے۔
براری نمبل کی بحالی کے منصوبے میں زمین کا حصول، ڈریجنگ، صفائی اور جھیل کے کناروں کی ترقی شامل ہے۔ لیک کنزرویشن اینڈ مینجمنٹ اتھارٹی (LCMA) کے عہدیداروں کا دعویٰ ہے کہ زمین کے حصول میں تاخیر آبگاہ کے تحفظ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ اگرچہ ڈل اور اس کے منسلک آب گا ہوں کے انتظام و انصرام کیلئے ذمہ دار لیک کنزرویشن اینڈ مینجمنٹ اتھارٹی (LCMA)کا کہنا ہے کہ وہ براری نمبل کے علاقے میں ڈریجنگ اور صفائی کر رہی ہے لیکن اس کے کوئی واضح نتائج کہیں پرنظر نہیںا ٓرہے ہیں۔
نائوپورہ نالہ سے براری نمبل تک پانی کا بہاؤ بڑھانا ہوگا۔براری نمبل جھیل میں دو سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹس (STPs) کی موجودگی اس کے سائنسی تحفظ کو لازمی بناتی ہے اوریہ کام جنگی بنیادوں پرہوناچاہئے ۔حکومت کو اس بات کو یقینی بنانا چاہئے کہ اس کے جنوبی کنارے پر بنائے گئے ایس ٹی پی طے شدہ معیارات کے مطابق کام کریں۔ جھیل کو ان دو سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹس (STPs) کے ذریعہ کچرا،غلاظت یا غیر علاج شدہ ٹھوس و رقیق فضلہ پھینکنے کے لئے بنجر زمین نہیں سمجھا جانا چاہئے۔ رقیق و ٹھوس فضلہ کے بہاؤ اور کچرے کے ڈھیر سے ماحولیاتی طور پروجود کے خطرے سے دوچاربراری نمبل کو مزید آلودگی سے بچانے کیلئے سائنسی اقدامات کی ضرورت ہے۔
ہم براری نمبل کو انتہائی برق رفتاری سے کھو رہے ہیں۔ اس کے ماحولیاتی نظام کو اب تک جو نقصان پہنچا ہے وہ ناقابل تلافی ہے۔ اس لئے براری نمبل کو بچانے کیلئے مصنوعی نہیں، سائنسی اقدامات کی ضرورت ہے۔ حکومت کو براری نمبل کیلئے نالہ مار کے راستے پائپ لائنوں کے ذریعے آنچار جھیل تک ایک اخراجی نہر ( آؤٹ لیٹ) کی تعمیر کیلئے آپشنز تلاش کرنے چاہئیں، جو اس کا مرکزی اخراج کا راستہ تھا تاکہ اس کے پانی کی گردش میں بہتری آئے اور نتیجہ کے طور پر پانی کا آنا اور جانا بحال ہوگا تو پانی کا معیار بہتر ہونے کا امکان ہے۔
ایک ایسے وقت میں جب مصنوعی جھیلیں بن رہی ہیں، براری نمبل، جو کہ ایک قدرتی جھیل ہے، کی بحالی مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں۔ ہمارے آبی ذخائر کو بچانے کیلئے جامع سائنسی پالیسیوں، مضبوط سیاسی ارادے اور خاص کرلوگوںکے تعاون کی ضرورت ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ حکومت اور عوام براری نمبل اور دیگر آبی ذخائر کواپنائیں۔ براری نمبل کے تحفظ اور بحالی کو کشمیر میں دیگر آبی ذخائر کی بحالی کا نمونہ بنایا جا سکتا ہے۔ ہمیں اپنے قدرتی اثاثوں کو بچانے کا یہ امتحان پاس کرنا ہوگا اور ذمہ دار شہریوں کے طور پر برتاؤ کرنا ہوگاورنہ تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی اور ہم ہمیشہ کیلئے اپنی آنے والی نسلوں کے گناہ گار ٹھہریں گے۔
(مضمون نگار گریٹر کشمیر کے ایگزیکٹیو ایڈیٹر ہیں)
براری نمبل وجود کے خطرے سے دوچار اس قتل ِ ناحق کیلئے حکومت ذمہ دار تو عوام بھی خطاکار
