الطاف جمیل شاہ، سوپور
حسن ظن مطلب نیک گماں ،اپنے عزیز و اقارب یا اہل ایمان کے بارے میں اکثر حسن ظن سے ہی کام لیا جانا اہل ایمان کا شیوہ ہے اور صالح فکر کا عکس ،جس کی تعلیم ہمیں اسلام نے دی ہے۔ کیوں کہ بعض گمان ایسے ہوتے ہیں جو گناہوں کو راہ دیتے ہیں، اس لئے گمان سے بچنا بھی لازم ہے ،اس لئے بہترین طریقہ یہی ہے کہ مثبت سوچیں ،حسن ظن کو غالب رکھیں پھر بھی اگر دل بدگمانی کی لہروں پر ہچکولے کھاتا رہے تو تحقیق کریں۔ بس اپنے اندازوں سے پرے سوچیں کہ ممکن ہے آپ کو غلط فہمی ہوئی ہو، شاید ایسا نہ ہو جیسا آپ محسوس کر رہے ہوں اور جب تک تسلی و تشفی نہ ہوجائے کسی بات پر تب تک اُسے عام نہ کریں، یہ مسلم کی عزت ریزی میں آتا ہے اور کسی بھی مسلمان کی عزت ریزی کرنا گناہ کبیرہ ہے ۔ آپ کی خدمت میں دو چند باتیں حدیث و قرآن سے پیش ہیں، دیکھ لیں ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اللہ تعالیٰ نے میری اُمت کو وہ باتیں معاف کر دی ہیں جو وہ اپنے دل سے کریں، جب تک اُن پر عمل نہ کریں یا زبان پر لائیں۔‘‘(مسلم/ ال ايمان 332)
بدگمانی سب سے زیادہ جھوٹی بات ہے کیونکہ جب کوئی شخص کسی کے متعلق بدگمانی کرتا ہے تو وہ فیصلہ کر لیتا ہے کہ وہ شخص ایسا ایسا ہے چونکہ حقیقت میں وہ شخص ایسا نہیں ہوتا، اس لئے اُس کے اِس فیصلے کو جھوٹ کہا گیا اور بدترین اس لئے کہ اس نے بغیر کسی قرینے یا تحقیق کے محض نفس اور شیطان کے کہنے پر اُسے بُرا قرار دےدیا۔ جب کہ اس کے بُرے ہونے کی سرے سے کوئی بنیاد ہی نہیں۔’’بے شک بعض گمان گناہ ہیں۔‘‘سے یہی مرادہےکہ :’’بے شک گمان حق کے مقابلہ میں کچھ فائدہ نہیں دیتا۔‘‘(یونس: 36)اور’’یہ لوگ صرف اپنے گمان اور اپنی خواہشات کی پیروی کر رہے ہیں۔‘‘(النجم:23)
لوگوں میں ایک ایسا گروہ ضرور ہوتا ہے جو بدگمانیوں کو فروغ دیتا ہے، کیوں کہ اصل میں وہ چاہتے ہیں کہ اُن کی خواہشات کی تکمیل ہو، اس لئے وہ گمان کو بنیاد بنا کر کسی حد تک بھی جاسکتے ہیں کیوں کہ اُن میں خیر کا پہلو غالب نہیں ہوتا بلکہ اُن کے پورے وجود میں شر کا غلبہ ہوتا ہے۔اس لئے وہ اُسی کے نرغے میں اپنے وجود میں رکھے ہوئے شَر کو ہی فروغ دیتے ہیں۔ ہم اکثر ایسے معاملات تنظیم و جماعت میں دیکھتے ہیں کہ فلاں صاحب ایسے ہیں ،ان میں یہ یہ خامیاں ہیں اور اُسی سوچ کو اپنے ذہن میں غالب رکھ کر سوچنا شروع کر دیتے ہیں جیسے کہ ہمارے ہاں ایک بہت بڑے تاجر ہیں، کافی معروف بھی ہیں۔ میں اکثر اُنہیں دیکھ کر محسوس کرتا تھا کہ یہ جناب گمراہی کی اِنتہا پر ہیں اور بدی کے مجسمہ بنے ہوئے ایک بار ایک پروگرام میں اُن کی موجودگی دیکھی۔میں بھی صفِ سامعین میں اُن کے بغل میں بیٹھ گیا ۔اب کام کی باتیں ہونے لگیں کہ کس نے غریبوں اور یتیموں کی کیسے اور کتنی پرورش کی، کون کیسے نیکی کو فروغ دے رہا ہے، مقررین نے تقریریں کیں اور سامعین نے داد دی۔ اب جب اُن جناب کا تذکرہ ہوا تو مجھے حیرت ہوئی، یہ جان کر کہ دسیوں غریب ایسے ہیں کہ جن کے گھر کا چولہا اِن کی ہی کوشش سے چل رہا ہے اور تعجب بھی ہوا کہ ایک ایسا شخص جو لوگوں کے نزدیک دین بیزار ہے اور اتنے اونچے کامِ خیر، یہ تو بعد میں علم ہوا کہ جناب والا دین سے خاصی قربت رکھتے ہیں اور دین داروں سے اس سے بھی زیادہ مصیبت یہ ہے کہ اُن کا تعارف کچھ اچھا نہیں کرایا گیا ہے۔ جس کی وجہ سے دین دار طبقہ اُن سے بجھا بجھا سا رہتا ہے۔ ایسی ہی ہزاروں مثالیں ہیں ، جو آپ کو بظاہر نظر آرہی ہیں، ممکن ہے وہ غلط ہو۔ تنظیمی امور میں بدگمانیاں پروان چڑھتی رہتی ہیں اور یہی سبب ہے کہ ہم ان بدگمانیوں کے بوجھ تلے کچھ اس قدر دَب جاتے ہیں کہ اپنے دوست، رفیق،ساتھی سے نیکی کا گماں کر ہی نہیں سکتے۔ کیوں کہ ہم نے اس کے بارے میں ایک رائے طے کر رکھی ہوتی ہے اور اُسی رائے کو ہم حتمی سمجھ کر جیتے ہیں ۔نتیجہ افتراق در افتراق کی صورت بنی رہتی ہے۔ اس بدگمانی کی آڑ میں اسلامی تاریخ کا کس قدر اذیت ناک سلسلہ رہا ہے ،وہ ایک سنگین موضوع ہے کہ چھوٹی سی بدگمانی کے پیدا ہونے پر کیسے کیسے فتنے اُٹھے اور ان فتنوں کا ایندھن کیسے اہل ایمان بنتے رہے، بدظنی یا بدگمانی ایک ایسا ناسور ہے جس کے پیدا ہوتے ہی پھر یوں ہوتا ہے کہ(1)انسان دوسری کی ٹوہ میں اس قدر پریشان رہتا ہے کہ لمحہ بہ لمحہ یہی ایک فکر کھائے جاتی ہے کہ اب اس کا پردہ کیسے فاش کیا جائے، کیسے اس کی رُسوائی کے اسباب کو پیدا کیا جائے۔ (۲) جن کے بارے میں غلط رائم قائم کر کے بدظن ہے، وہ ان سے اختلاط ، ملنا جلنا چھوڑ دیتا ہے، دوری بناے رکھتا ہے، جان چلی جائے پر وہ جگہ حاضر نہیں ہوں گے جہاں وہ موجود ہوں ۔(٣) جب کبھی سامنا ہوجائے تو چہرہ پر نفرت، عداوت، دشمنی، بغض اور کینہ کے آثار نمایاں ہوتا ہے،چہرہ کا رنگ بدل جاتا ہے اور ہرحال میں وہاں سے نکلنے کی کوشش کرتا ہے ۔(۴) ہمیشہ ٹوہ میں لگارہتا ہے کہ کب کوئی خامی اوربُرائی موصوف کے اندر پا لوں تاکہ تشہیر کر کے کلیجے کو ٹھنڈک پہنچاؤں ،حالانکہ وہ مردہ بھائی کا گوشت ہے ،جسے کھانا وہ باعث فخر سمجھتا ہے، اس کے لئے وہ دن و رات غیبتیں کرتا اور سُنتا ہے۔اور اس سب کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کدورتیں بڑھ جاتی ہیں اور حسد و بغض کینہ پروری کو فروغ مل جاتا ہے،اور یہ کہ انسان تباہی و بربادی کی وادی میں دھنستے جاتا ہے، اس سراب نما کیچڑ میں ایک بار آدمی دھنس جائے تو شرافت و عزت و قار سب داؤ پر لگا دیتا ہے ،کیوں کہ اسے دوسرے کی عزت و ناموس کے بارے میں گمان ہے کہ وہ کوئی نیک یا پارسا نہیں ہے،اس لئے وہ اس بات کو ثابت کرنے کے لئے خود کو بھی ذلت و پستی کی وادیوں میں دھکیل دیتا ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے ۔؎
اک غلط فہمی نے دل کا آئینہ دھندلا دیا
اک غلط فہمی سے برسوں کی شناسائی گئی
آپسی عناد و کدورت کی بیخ کنی کے لئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:’’بے شک مومن ،مومن کے لیے عمارت کی مانند ہے، جس کا ایک حصہ دوسرے حصہ کو طاقت پہنچاتا ہے، اور آپ نے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں داخل کیا۔‘‘(صحيح بخاري، كتاب الصلوة، رقم: 481)
مطلب آپس میں ایک دوسرے کا سہارا بن کر رہیں نہ کہ ایک دوسرے سے متعلق بدظن ہوکر آپسی محبت و بھائی چارے کا گلہ گھونٹ دیں، جس بھائی چارے کی تعلیم اسلام نے دی ہے۔
’’کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ قطع کلامی کرے (بائیکاٹ کرے) دونوں آپس میں ملتے ہیں، ایک اس طرف منہ پھیر لیتا ہے اور دوسرا دوسری طرف رخ پھیر لیتا ہے۔ ان میں سے بہتر وہ ہے جو سلام کرنے میں پہل کرے۔‘‘ (صحيح بخاري، كتاب الادب، رقم: 6077)
مگر جب بدگمانیوں اور نفرتوں کی دیوار کھڑے ہوجاتی ہے تو سب سے پہلے تعلق ہی ٹوٹ جاتا ہے۔ اسی لئے کائنات کے امام محمد عربی ؐ نے پہلے ہی تعلیم دے دی کہ ایسا کبھی نہ ہو کہ تم آپس میں تعلق میں بگاڑ پیدا کرو اور پھر ترک ِگفتگو آپسی میل ملاپ کے خاتمے تک بات پہنچ جائے ۔بس یاد رکھیں۔ بقول شاعر ؎
ساز الفت چھڑ رہا ہے آنسوؤں کے ساز پر
مسکرائے ہم تو ان کو بد گمانی ہو گئی (جگر مرادآبادی)
حسن ظن کے بنائے رکھنے کے لئے سوچیں اور ایسے حادثے پیدا ہی نہ ہونے دیں کہ آپ کا بھائی، دوست آپ کے بارے میں کسی بھی صورت میں غلط فہمی کا شکار ہو ،جیسے کہ علماء کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی کسی اہلیہ سے محو گفتگو تھے، دور کچھ صحابہ باتیں کر رہے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں آواز دی اور فرمایا کہ یہ میری اہلیہ ہیں۔ صحابہ کرام رضوان اللہ نے عرض کیا کہ ہمیں آپ ؐکے بارے میں بلا کوئی تردد ہوسکتا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابلیس بدگمانیاں پیدا کر سکتا ہے ۔
ایک صحابی نے عمر رضی اللہ عنہ کا کرتہ دیکھا اور سوچا کہ کپڑا تو اتنا ان کے حصے میں نہیں آیا پھر قمیض کیسے بن گئی، سو پوچھ لیا۔ جس پر امیر المومنین نے فرمایا کہ میرے بیٹے نے اپنے حصے کا کپڑا مجھے دیا اور اسی سے یہ قمیض بن گئی، دونوں باتیں ہمارے لیے نصیحت ہیں کہ اپنی کسی بات کو اس انداز سے نہ رکھیں کہ لوگوں میں غلط فہمی پیدا ہو اور پھر اس سبب سے فتنہ پیدا ہو ۔اس لئے جب بھی ایسا کچھ محسوس ہو ،فوری طور صفائی دیں اور بدگمانیوں کو پیدا ہی نہ ہونے دیں۔لیکن ہمارے ہاں ایک مصیبت یہ بھی ہے کہ ہم شیخی کے زعم میں کسی کو خاطر میں نہیں لاتے اور پھر بدگمانیوں کے گرداب میں خود بھی گر جاتے ہیں اور اپنے ساتھ منسلک احباب کو بھی اسی گرداب میں دھکیل دیتے ہیں۔ نتیجتاً تنہائیوں کا وہ سفر شروع ہوجاتا ہے کہ آدمی چاہ کر بھی پھر محفل میں بیٹھ نہیں پاتا، کیوں کہ اُسے اس سب سے کدورت ہونے لگتی ہے کیوں کہ اس کی بدگمانیوں کا محور کوئی خاص نہیں ہوتا بلکہ یہ عام لوگوں کو اسی بدگمانی کی نظر سے دیکھتا ہے، پھر بدگمانیوں کے اس گرداب میں خود بھی تنہا رہ جاتا ہے اور اپنوں کو بھی اسی اذیت میں مبتلاء کردیتا ہے ۔
بد گمانی کو بڑھا کر تم نے یہ کیا کر دیا
خود بھی تنہا ہو گئے مجھ کو بھی تنہا کر دیا
آپ کے لکھنے یا پڑھنے سے آپ کی حرکات و سکنات سے یا آپ کی کسی خاص بات سے اگر لوگوں میں بدگمانیاں پیدا ہورہی ہیں تو حرج ہی کیا ہے کہ فوری طور پر صفائی دے دیں اور اپنی بات کو واضح انداز میں پیش کریں کہ سامنے والا آپ کے بارے میں کوئی غلط رائٹ قائم ہی نہ کرسکے۔ اسی طرح اگر آپ میں مجھ میں یہ بات موجود ہے کہ ہم خود کو خیر کا پتلا اور نیکیوں کا مجسم جان کر دوسروں کی ٹوہ میں لگے رہتے ہیں تو یاد رکھیں، اول ہم اپنے اعمال کو برباد کر رہے ہیں اور ساتھ میں موجب فساد بھی بن جاتے ہیں ۔ فساد پیدا کرنے والوں کے لئے وعیدیں بیان ہوئی ہیں قرآن و سنت میں۔ بس اتنا یاد رکھیں کہ کوئی صاحب ایمان و صاحب فراست انسان کسی صورت بھی اپنے ہم جنس دوست ،رفیق رشتے دار سے بدگمان ہو ہی نہیں سکتا بلکہ اگر کبھی خدانخواستہ کسی قسم کا سوء ظن پیدا ہو بھی جائے، فوری طور پر اس کے حل کی تلاش میں اُٹھ کھڑا ہوجاتا ہے۔ اب گر واقعی کسی بھی کسی قسم کی خامی کوتاہی ہوتی ہے، تو محبت و مروت کے ساتھ اس کی اصلاح کرنے کی سعی شروع کردیتا ہے،ا گر کوئی خامی نہیں ہوتی تو مطمئن ہوکر بیٹھ جاتا ہے۔ آپ اندازے لگانے والوں کو دیکھ لیں، وہ اکثر خرافاتی مزاج کے ہوتے ہیں اور خشک مزاجی اس قدر کہ کتنا بھی سمجھائیں ،وہ اپنی ہی داستان سنانے بیٹھ جائیں گے، اپنی پارسائی کچھ اس طرح بیان کریں گے کہ جیسے فرشتوں خط بعد یہی ایک ہستی ایسی ہے کہ جس میں کوئی کمی کوتاہی نہیں ،دور اندیشی کی اپنی تعبیر بیان کرے گا ، سنجیدگی کی اپنی تعبیر بتائے گا اور انسانی وقار و عظمت سے اس قدر خائف ہوگا کہ ہر کسی میں سوائے عیب کے اُسے کچھ نظر نہیں آئے گا ،کیوں کہ اس میں ابلیسی روح ہوتی ہے جو نیک گماں کے پیدا ہوتے ہی اُسے پھر سے گمراہی کی راہ پر رکھ دیتی ہے، تو ایسے مفتن سے خود کو بچائیں اور اپنوں پر بھروسہ کریں اور انہیں مواقع دیں کہ آپ کے ساتھ قدم بہ قدم چلتے رہیں۔ بدگمانیوں کے سراب میں اگر آپ گر گئے تو یقین کریں، دوسروں کی زندگیوں میں تلخیاں پیدا کرتے کرتے آپ تنہا رہ جائیں گئے اور پھر آپ ایک قابل نفرت وجود کا روپ دھار کر بربادیوں کی وادی میں یک و تنہا رہ جائیں گے۔ گنجائش رکھا کریں، فاصلے بڑھانے والے اکثر شکست خوردی کا شکار ہوجاتے ہیں، قلب و جگر میں وسعت رکھیں خود بھی جئیں اور دوسروں کو بھی یہ حق دیں۔
[email protected]