Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
افسانے

بدنصیب

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: April 25, 2021 1:00 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
12 Min Read
SHARE
انہوں نے کہا تھا ۔۔۔مت جاؤ ۔۔۔لیکن اس نے ان سنی کردی ۔۔۔۔وہ چلا گیا۔۔۔اس کے دل و دماغ پر اس کی بیوی نے قابو پالیا تھا ۔۔۔۔اسی لئے جب وہ نیند سے جاگا اور منہ ہاتھ دھو کر ماں کے ہاتھوں شفقت بھری چائے کی پیالی پینے ہی والا تھا کہ فون بجنے لگا ۔۔۔اس نے جب دیکھا تو وہ کوئی اور نہیں بلکہ اس کی اپنی بیوی ڈیزی تھی ۔۔۔جس کو راشد کے والدین نے نیک لڑکی سمجھ کر بہو بنا کر لایا تھا ۔۔۔وہ فون پر تیز لہجے میں کہہ رہی تھی ۔۔۔۔۔۔گھر سے نکلے کہ‌ نہیں ۔۔۔میں سڑک پر انتظار کر رہی ہوں ۔۔۔سب کچھ تیار ہے ۔۔۔۔۔۔ ابو اور امی جان بھی آپ کی راہ دیکھ رہے ہیں ۔۔۔جلدی کرو ۔۔۔دیر ہو رہی ہے ۔۔۔راشد نے بھی حامی بھر لی اور چائیے کی پیالی ماں کے ہاتھوں میں واپس تھما کر نکلنے لگا ۔۔۔ماں ہکا بکا ہو کر بولتی رہی ۔۔۔ارے بیٹا ۔۔۔‌چائے تو پی لو۔۔۔۔نا شتہ تو کر لو ۔۔۔۔۔بھوکا ہی جائیگا کیا ۔۔۔۔۔
لیکن وہ چلتے چلتے کہہ رہا تھا ۔۔۔۔مجھے اس گھر میں نہیں رہنا ۔۔۔۔یہاں میرا دم گُھٹ رہا ہے ۔۔۔۔میں جارہا ہوں ۔۔۔۔
باپ نے آواز دی بیٹا مت جاؤ ۔۔۔۔۔۔لیکن وہ بیوی کے بہکاوے میں آگیا تھا ۔۔۔۔اس کے لئے ساس سسر زیادہ معزز اور ممتاز تھے ۔۔۔۔ماں کی ممتا اور باپ کی قربانیاں کوئی وقعت نہیں رکھتی تھیں ۔۔۔۔اس کو وہ دن کہاں یاد تھے ۔جب ماں چلچلاتی دھوپ میں شجر سایہ دار کی طرح سائبان بن کر اس کو سکون کا احساس دلاتی تھی۔۔۔۔جب اس نے جنم لیا تھا اور وہ دنیا کی تمام مخلوقات کے مقابلے میں سب سے زیادہ مجبور اور بےبس تھا ۔۔۔جب ماں کی چھاتی سے نکلنے والے دودھ کو وہ چوس نہیں سکتا تھا ۔۔۔جب پیشاب خود نکل جاتا اور اس کو یہ تمیز نہیں تھی کہ ماں مہمانوں یا دوستوں کے ساتھ بیٹھی ہوتی تھی اور وہ ہنستے ہنستے ماتھے پر بغیر کسی شکن کے اس کو صاف کرتی تھی ۔۔۔جب ماں رات کے وقت اس کو بستر کے خشک حصے پر سلا کر خود اس کے تر کئے گئے حصے پر سوتی تھی اور اپنی گرم گود میں سردی کا احساس نہیں ہونے دیتی  ۔۔۔
جب باپ نے انگلی پکڑ کر چلنا پھرنا سکھایا تھا ۔۔۔۔اور خون پسینہ ایک کرکے بے لوث محبت سے اس کی پرورش کی تھی ۔۔۔آج وہ بڑا ہوگیا تھا ۔۔۔۔اس کی شادی ہوگئی تھی ٹھیک اسی طرح جسطرح اس کے والدین نے شادی کی تھی ۔۔۔آج اس کے اپنے سپنے تھے ۔۔۔اس کی اپنی زندگی تھی ۔۔۔۔ٹھیک اسی طرح جس طرح اس کے والدین کی زندگی تھی اور سپنے تھے ۔۔۔۔۔اگر اس کے والدین نے تب اپنے خوابوں اور زندگی کی پرواہ کی ہوتی تو اس کا وجود ہی نہیں ہوتا ۔۔۔۔اپنے پیشاب میں لت پت بستر کے بیچ  مرگیا ہوتا ۔۔۔۔۔لیکن ایسا نہیں ہوا ۔۔ماں نے اپنی خوبصورت جوانی بچے پر لُٹا دی ۔۔۔۔باپ نے خون پسینے کی کمائی اپنے بیٹے پر خوشی خوشی خرچ کی ۔۔۔۔اس کی مسکراہٹ پر دونوں نے اپنی زندگی قربان کر دی ۔۔۔۔لیکن اس کو یہ چیزیں یاد کہاں تھیں ۔۔۔وہ تو ان کو والدین کے فرائض سمجھتا تھا ۔۔۔۔بچوں کی پرورش والدین کی زمہ داری ہے ۔۔۔ایسا اس کا ماننا تھا۔۔۔والدین کی ذمہ داری خدا کے ہاتھ میں ہے۔۔۔ بہرحال وہ چلا گیا ۔۔۔اس کے ساس سسر نے اس کو دعائیں دیں۔۔۔ جائو بیٹا خدا آپ دونوں کو سدا خوش رکھے۔۔۔۔۔لیکن دعا تو والدین کی بھی ہونی چاہیے۔۔۔۔۔۔وہ خوش تھے کہ ان کو اتنا اچھا داماد ملا جو اپنے والدین کو خدا کے رحم پر چھوڑ کر آیا اور ان کی بیٹی کے ساتھ خوشی خوشی شہر میں رہنے لگا۔۔۔۔۔۔وہ یہ سمجھنے سے قاصر تھے کہ آج ان کی بیٹی نے کسی سے ان کا بیٹا چھینا کل کوئی اور آکر ان کا بیٹا ان سےچھینے گا ۔۔۔۔۔۔آج داماد کی ماں رو رہی ہے کل بیٹی کی ماں روئے گی ۔۔۔آخر دستور سب کے لئے یکساں ہے ۔۔۔ماں باپ کی دعائیں صرف بیٹی کو نہیں بلکہ داماد کو بھی نصیب ہونی چاہیں ۔۔۔۔
راشد شہر میں جینے لگا ۔۔۔۔۔۔اس کی بیوی روزانہ اپنے والدین سے بات کرتی تھی اور ان کی خیریت دریافت کرتی تھی ۔۔۔۔فرصت ملنے پر مل کر بھی آتی اور ماں کے لئے اچھے اچھے تحفے بھی لے جاتی ۔۔۔۔۔کبھی کبھی شہر آنے کی دعوت بھی کرتی ۔۔۔۔۔یہ سب راشد کی آنکھوں کے سامنے ہورہا تھا ۔۔۔۔وہ یہ سمجھ نہیں پایا کہ اگر اس کی بیوی اپنے والدین سے روزانہ بات کرتی تھی تو اس کو بھی چاہیے تھا کہ کبھی کبھی والدین کی خیریت و عافیت دریافت کرتا ۔۔۔۔ ساس سسر سے ملنے کے لئے اس کے پاس وقت تھا لیکن اپنے والدین کے لئے اس لئے نہیں تھا کیونکہ اس میں بیوی کی مرضی نہیں تھی۔۔۔۔۔
وقت گزرتا گیا۔۔۔۔۔اس کے اپنے بچے ہوئے جن میں ایک بیٹا اور ایک بیٹی تھی ۔۔۔ایک دن جب  وہ آفس سے گھر آیا تو اس کی بیوی بیٹے کو گود میں لے کر رو رہی تھی ۔۔۔بیٹا درد سے تڑپ رہا تھا ۔۔۔۔۔اس نے جب بیوی سے پوچھا کیا مسئلہ ہے ۔۔۔۔۔تو بیوی چینخ اٹھی۔۔‌۔۔۔۔ہائے میرا بچہ۔۔۔۔۔۔تمہیں دکھائی نہیں دیتا بیمار ہے ۔۔۔۔۔۔گاڑی نکالو ۔۔۔؟اس کو ہسپتال لے جائیں گے۔۔۔۔۔۔گاڑی میں بچے کو ہسپتال پہنچایا گیا ۔۔۔۔ڈاکٹر صاحب نے دوائی دے کر کہا۔۔۔۔ساری ما ئیں ایک جیسی ہوتی ہیں۔۔۔بچے کے لئے جان داؤ پر لگاتی ہیں ۔۔۔تڑپ اٹھتی ہیں ۔۔ ۔۔۔۔۔بچے کو راحت ملی تو سب گھر لوٹ آئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔شام کے کھانے کا وقت آگیا ۔۔۔۔۔۔ڈیزی بچے کو لےکر ابھی بھی پریشان تھی ۔۔۔۔آخر بچے کے ساتھ ایسا کیا ہوا۔
وہ خود کو دوش دے رہی تھی ۔۔۔میری لاپرواہی سے ایسا ہوا۔۔۔۔راشد کو یہ دیکھ کر اپنی ماں یاد آگئی ۔۔۔وہ سوچنے لگا ۔۔۔۔۔کہ ماں‌خدا کی نعمت عظیم ہے۔والدین خلوص کا سرچشمہ ،خدا تعالیٰ کا عکس اور ایسا باغ ہیں جہاں ہر وقت اولاد کے لئے پھولوں کی پتیوں کی طرح نرمی ہی نرمی ہے ۔۔۔۔۔میرے بچپن میں بھی میری ماں اسی طرح تڑپ اٹھی  ہوگی اور بیقرار ہوئی ہوگی ۔۔۔آج چھے سال کے بعد اس کو پھر ماں یاد آگئی ۔۔۔۔۔اس نے فون نکال کر ایک نمبر ڈائیل کیا ۔۔۔۔جو بند ہوگیا تھا ۔۔۔۔کئی کوششیں کرنے سے اس کے دل میں بےاطمینانی پیدا ہوگئی ۔۔۔۔۔اس نے اپنے دوست کو کال کی۔۔۔۔۔۔ہیلو ہیلو ۔۔۔۔
دوست نے پوچھا ۔۔۔۔کون ہو بھائی ۔۔۔
راشد نے جواب دیا ۔۔۔۔میں راشد ہوں ۔۔
دوست ۔۔۔۔۔راشد میاں ۔۔۔۔۔نیا نمبر ۔۔۔۔۔۔
راشد بے صبری سے ۔۔۔ہاں نیا نمبر ہے ۔۔۔۔میرے والدین کیسے ہیں ۔۔۔ان کا نمبر نہیں لگ رہا ۔۔۔
دوست حقارت آمیز لہجے میں ۔۔۔۔۔۔کون اور کیسے والدین ؟
کیا تیرے والدین بھی  تھے؟ ارے تُو تو بڑا ہی پیدا ہوا تھا ۔۔۔
راشد عاجزی سے۔۔۔۔مذاق مت کر ۔۔۔۔بتا نا ۔۔۔۔۔
دوست تلخ لہجے میں ۔۔۔۔۔سن ۔۔۔تیری ماں تیرے جانے کے غم میں  چند دنوں کے بعد ہی مر گئی ۔۔۔۔ہم نے فون کیا تھا لیکن تیرا فون آف آرہا تھا ۔۔۔۔شاید تونے نمبر بدل دیا تھا ۔۔۔۔۔
راشد گونگا ہوگیا ۔۔اس کا دل تڑپ اُٹھا۔۔۔۔کچھ دیر بعد پوچھنے لگا ۔۔۔۔۔
اور ابو کی طبیعت کیسی ہے ؟
دوست آہیں بھرتے ہوئے۔۔۔۔تو بڑا بد قسمت ہے دوست۔۔۔اس کی آج صبح موت واقع ہوئی ۔۔۔۔۔تیرے سر سے والدین کی دعاؤں کا سایہ اُٹھ گیا ۔۔۔۔۔تو مفلس ہوگیا ۔۔۔۔۔تجھے دعائیں دینے والے خدا کو پیارے ہوگئے۔۔۔۔تجھے تو ان کی قبر بھی ڈھونڈنی پڑے گی۔۔ ۔۔۔راشد کے ہاتھوں سے فون گر گیا ۔۔۔۔۔
تھوڑی دیر بعد فون منقطع ہوگیا۔۔۔وہ دنیا کی سب سے عظیم دولت کھوگیا تھا ۔۔۔
پاس میں بیٹھی بیوی پوچھنے لگی ۔۔۔۔
کیا ہوا ؟ سب کچھ ٹھیک ٹھاک تو ہے نا ؟
وہ رو رہا تھا ۔۔۔۔بیوی ہنس رہی تھی ۔۔۔۔دیکھو ہمارا بیٹا مسکرانے لگا ۔۔۔۔جب راشد زور زور سے رونے لگا ۔تب بیوی نے سنجیدگی سے پوچھا ۔۔۔۔
راشد کیا بات ہے ۔۔۔تجھے کیا ہوگیا ۔۔۔۔
نہیں نہیں ۔۔۔۔اتنے زور سے کیوں رو رہے ہو ۔۔۔۔؟
معاملہ کیا ہے ؟
راشد نے روتے روتے ہکلاتے ہوئے کہا ۔۔۔
م م م میں یتیم  ہوگیا ۔۔۔۔۔میرے والدین مجھے چھوڑ کر چلے گئے۔۔۔۔
بیوی جھوٹ موٹ کا رونا روتےہوئے ۔۔۔۔۔
گھبرائو مت ۔۔۔ہم صبح سویرے جا ئیں گے؟ 
چلو اٹھو کھانا کھاؤ ۔۔۔۔راشد آنسوں پونچھتے ہوئے۔۔۔۔کہاں جائیں گے؟ ۔۔۔۔
بیوی ۔۔۔گاوں اور کہاں ؟
راشد۔۔۔نہیں‌اب ہم کہیں نہیں جائیں گے ۔۔۔میں اس گاؤں میں کیسے جاؤں گا ۔۔۔جہاں میں نے اپنے والدین کو تڑپتے چھوڑا تھا ۔۔۔۔ان کی زندگی میں میں وہاں نہیں گیا تو اب کس منہ سے جاؤں گا ۔۔۔۔۔جس طرح تو اپنے بچے کے لئے تڑپ اٹھی ۔۔اسی طرح میرے والدین بھی تڑپے ہونگے ۔۔۔۔میں بد نصیب ہوں نہ دنیا کی خوشی اور نہ آخرت کا سکون ۔۔
 بس اب ہم انتظار کریں گے اس دن کا ۔۔۔جس دن ہمارا بیٹا ہماری بہو کے کہنے پر ہمیں چھوڑ کرچلا جائیے گا ۔۔۔۔۔۔اور ہم پکارتے رہیں گے ۔۔۔مت جاؤ۔۔۔۔ ہمیں چھوڑ کر ۔۔۔۔۔لیکن وہ اپنی بیوی کی سنے گا اور ہماری ان سنی کرے گا ۔۔۔۔۔تب جا کےہم کو احساس ہوگا کہ والدین کا سایہ رحمتوں سے مالامال ہوتا ہے اور ان کی خوشی میں زندگی کا سکون مضمرہے۔۔۔۔والدین کی خدمت جنت اور نافرمانی عذاب ۔۔۔۔۔۔ رَّبِّ ارْحَمْھُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًا
���
 قصبہ کھُل، ترال ، موبائل نمبر؛ 9906598163
 
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

۔9500بنکر دستیاب، شہری علاقوں میں بھی تعمیرکئے جائینگے:ڈلو متاثرہ خاندانوں کی واپسی فورسز کی کلیئرنس کے بعد ممکن،ڈاکٹروں کی کمی دور کرنے کے اقدامات جاری
پیر پنچال
بوتلوں اور ڈبوں میں پیٹرول اور ڈیزل کی فروخت پر پابندی
صنعت، تجارت و مالیات
جنگ بندی اعلان کے بعد تاریخی مغل روڈ پر بھی رونق واپس لوٹ آئی پیرپنچال میں لوگوں نے راحت کی سانس لیکر اپنی سرگرمیاں دوبارہ شروع کردیں
پیر پنچال
ریکی باں ملہت پل تکمیل کے باوجود عوام کیلئے تاحال بند عام لوگوں کو پریشانی کا سامنا ، عوامی حلقوں میں تشویش کی لہر
پیر پنچال

Related

افسانے

افسانے

May 10, 2025
افسانے

جنون کہانی

May 3, 2025
افسانے

مصوّر افسانہ

May 3, 2025
افسانے

تنہائی کا آسیب افسانہ

May 3, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?