شوکت الحق کھورو
دنیا کی رفتار اتنی تیز ہو چکی ہے کہ جو رُک گیا، وہ دراصل پیچھے نہیں بلکہ مٹنے کے راستے پر چل پڑا۔ ہر قوم اپنی بقا کے لیے جدوجہد کر رہی ہے، ہر فرد اپنے مستقبل کے لیے فکر مند ہے۔ مگر ہم…؟ ہم اب بھی غفلت کے سمندر میں سوئے ہوئے ہیں۔ہم نے اپنی ذمہ داریوں کو دوسروں پر ڈال دیا ہے، اپنی ناکامیوں کا الزام نظام پر لگا دیا ہے، اور اپنی کمزوریوں کو قسمت کا نام دے کر دل کو تسلی دے لی ہے۔کیا کبھی ہم نے سوچا کہ آخر کب تک؟ کب تک ہم صرف دوسروں کی کامیابی پر تالیاں بجاتے رہیں گے اور اپنی حالت پر خاموش رہیں گے؟ قومیں تب بنتی ہیں جب ان کے افراد جاگتے ہیں، جب وہ اپنی غلطیوں کو تسلیم کر کے انہیں درست کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔
آئیے آج ہم ایک لمحے کے لیے خود پر نظر ڈالیں۔ہم نے آج تک معاشرے کے لیے کیا کیا ہے؟کیا ہم صرف اپنے لیے جی رہے ہیں یا اپنے اردگرد کے لوگوں کے لیے بھی کچھ کر رہے ہیں؟آج ہم اپنی شادیوں پر، اپنے گھروں پر لاکھوں کروڑوں روپے خرچ کر دیتے ہیں،لیکن وہ پڑوسی جو غربت میں ڈوبا ہوا ہے، جو بھوک سے تڑپ رہا ہے، جو ایک نوالے کے لیے مر رہا ہے ۔
کیا ہم نے کبھی اس کے لیے کچھ کیا؟ہم نے کبھی اس کے دکھ میں ہاتھ بڑھایا؟اگر نہیں، تو پھر ہمیں دوسروں کو الزام دینے کا کوئی حق نہیں۔ہمیں اپنے اندر جھانک کر دیکھنا ہوگا، کہ کہیں ہم خود تو اس معاشرتی زوال کے ذمہ دار نہیں؟یا تو ہم خود کو ابھی سمجھ لیں، اپنی غفلت کی نیند سے جاگ جائیں، یا پھر اسی بے سمجھی کے کام کرتے رہیں گے اور ایک دن یہی نادانی ہمیں پچھتانے پر مجبور کر دے گی۔فیصلہ ہمیں خود کرنا ہے — ہم بدلنا چاہتے ہیں یا تاریخ کا حصہ بن کر مٹ جانا چاہتے ہیں۔
حوصلہ افزائی اور مثبت پیغام:
یہ یاد رکھیں کہ ہر چھوٹا قدم اہم ہے۔ ایک مسکراہٹ، ایک مدد کا ہاتھ، ایک صحیح فیصلہ — یہی چھوٹے کامیں آخرکار بڑے انقلاب کی بنیاد بنتے ہیں۔تبدیلی کا آغاز ہمیشہ خود سے ہوتا ہے۔ جب ہم اپنے دل اور عمل کو درست کریں گے، تبھی ہمارے اردگرد کے لوگ بھی روشنی کی طرف آئیں گے۔امید کبھی ختم نہیں ہوتی، اور ہر کوشش — چاہے چھوٹی کیوں نہ ہو — ایک دن یقینی طور پر پھل لاتی ہے۔آئیں، آج سے ہم صرف سوچنے کے بجائے عمل کریں، قدم بڑھائیں، اور اپنی چھوٹی کوششوں سے معاشرے میں روشنی پھیلائیں۔
اختتامی کلمات: چلو، اگر آج تک ہم نے کچھ نہیں کیا، تو کوئی بات نہیں — جو ہو گیا سو ہو گیا۔آج سے، اسی لمحے سے آغاز کرتے ہیں۔کل سے، ایک چھوٹا سا قدم اٹھاتے ہیں۔
اپنے پڑوسی کے حالات پوچھتے ہیں، دیکھتے ہیں کہ کہیں وہ بھوکا تو نہیں، کسی تکلیف میں تو نہیں۔چھوٹے چھوٹے قدموں سے ہی بڑی منزلیں حاصل ہوتی ہیں۔اگر ہم نے نیت صاف رکھی اور عمل کا آغاز کیا،تو یقین جانو، یہ روشنی پھیلتی جائے گی،اور ان شاءاللہ ایک دن یہ امت پھر سے زندہ اور کامیاب ہو جائے گی۔