ویب ڈیسک
جنوبی کوریا کے سائنس دانوں نے ایک مائیکرو ڈرون بنایا ہے جو روایتی ڈرون سے 150 درجے کم توانائی استعمال کرتا ہے، ہوا سے بجلی بناتا ہے اور یوں طویل عرصے تک معلق رہ سکتا ہے۔ تمام خوبیوں کے باوجود ڈرون کی بجلی تیزی سے خرچ ہوتی ہے اور یوں انہیں طویل عرصے تک پرواز کے قابل نہیں بنایا جاسکتا۔
کوریا ایڈوانسڈ انسٹی ٹیوٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی نے تجرباتی ہوائی سُرنگ (وِنڈ ٹنل) میں اس کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔ ڈرون نے ہوا سے ہی بجلی بنائی اور بہت دیر تک فضا میں برقرار رہا۔ یہ ہوا کی امواج کو معلق رہنے کے لیے استعمال کرتا ہے اور توانائی کی بچت میں ایک اہم ایجاد بھی ہے۔
یہاں تک کہ معمولی بادِ نسیم سے بھی اپنا کام چلا لیتا ہے۔ اسے ماہرین نے ’’مائیکرو ایئر وھیکل‘‘ (ایم اے وی) کا نام دیا گیا ہے۔ اڑنےکاعمل’ ’اوروگرافِک سورنگ‘‘ کہلاتا ہے، جس میں ہوا کی اوپر اٹھنے والی امواج کو استعمال کیا جاتا ہے۔ جب جب ہوا کسی پہاڑ یا رکاوٹ سے ٹکراتی ہے تو اس کا رخ اوپر کی جانب ہوجاتا ہے۔
اپنے سینسر اور الگورتھم کی بنا پر یہ ہوا کی لہروں میں تبدیلی نوٹ کرتا ہے اور اپنی پوزیشن بدلتا رہتا ہے۔ اس طرح کم سے کم توانائی خرچ کرکے کامیابی سے اڑسکتا ہے۔ اس ڈرون کو تلاش، بچاؤ، نگرانی اور کسی جگہ کی مسلسل فضائی چوکیداری کےلیے استعمال کیا جاسکتا ہے، تاہم اسے بہتر بنانے کے لیے مزید تحقیق اور تجربات کی ضرورت ہے۔ تحقیق کے بعد اس میں مزید صلاحیتوں کا اضافہ کیا جاسکتا ہے۔دریں اثنا سوئٹرز لینڈ کے شہر لوزان میں قائم فیڈرل انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سے تعلق رکھنے والے ماہرین نے مردار ای کولی بیکٹیریا سے بجلی بنانے کا کام یاب تجربہ کیا ہے۔سائنس دانوں کی ٹیم نے ایکسٹرا سیلولر الیکٹرون ٹرانسفر (ای ای ٹی) نامی طریقہ کار استعمال کرتے ہوئے بیکٹیریا میں رد و بدل کی، تاکہ ان کو انتہائی مؤثر برقی مائیکروب بنایا جاسکے۔ یہ عمل روایتی طریقہ کار کی نسبت برقی کرنٹ کی پیداوار میں تین گنا اضافہ کر تا ہے۔انسٹیٹیوٹ سے تعلق رکھنے والے پروفیسر آرڈیمِس بوغوسین کا کہنا ہے کہ محققین نے ای کولی بیکٹیریا میں رد و بدل کر کے بجلی پیدا کی۔ اگرچہ قدرتی طور پر بجلی پیدا کرنے والے یہ غیر معمولی مائیکروب ایسا صرف مخصوص کیمیا کی موجودگی میں کر سکتے ہیں۔ ای کولی متعدد جگہوں پر بڑھ سکتے ہیں ،جس کا مطلب ہے کہ مختلف ماحول بشمول گندے پانی میں بجلی بنائی جاسکتی ہے۔اس جدید دور میں ایسی آلات کی تعداد بڑھ رہی ہے جو کہ کم وقت کے
لیے یا ایک مرتبہ استعمال ہوتے ہیں اور اب ایک از خود گھل کر ختم ہونے والی ماحول دوست کاغذی بیٹری بیٹری تیا رکی گئی ہے۔ اس سےماحول پر بیٹریوں کے منفی اثرات اور زہریلے کیمیائی اجزا کم کرنے میں بہت مدد ملے گی۔ اس سے کم بجلی خرچ کرنے والے سینسر، اسمارٹ لیبل والی اشیا، ٹریکنگ اور طبی آلات اور دیگر برقی پرزوں کو توانائی فراہم کی جاسکے گی۔ یوں کاغذی بیٹری پانی سے روبہ عمل ہوگی اور خاص وقت میں گھل کر ختم ہوجائے گی۔
سویڈن کی مشہور اپسالا یونیورسٹی کے سائنسداں پروفیسر گستاف نائسٹروئم اور ان کے ساتھیوں کی بیٹری میں ایک مربع سینٹی میٹر پر ایک سیل لگایا ہے۔ اس پر کاغذ پر چھاپی گئی تین روشنائیوں (انک) سے سرکٹ کاڑھا گیا ہے۔ کاغذی پٹی کو سوڈیئم کلورائیڈ میں ڈبویا گیا اور اس کے چھوٹے سروں میں سے ایک کو خاص موم میں ڈبویا گیا ہے۔ روشنائی میں گریفائٹ کا چورا لگایا گیا ہے جو بیٹری کے مثبت برقیرے یا کیتھوڈ کی تشکیل کرتے ہیں۔ دوسری قسم کی انک میں زنک کا سفوف ہے جو بیٹری کا اینوڈ یا منفی سرا بناتا ہے۔کاغذ کے دونوں جانب سیاہ کاربن لگایا گیا ہے جو مثبت اور منفی برقیروں کے عمل کو ممکن بناتا ہے۔جب اس کاغذ پر پانی کی معمولی مقدار ڈالی جاتی ہے تو کاغذی بیٹری سے چارج جاری ہونے لگتا ہے اور بیٹری کام کرنے لگتی ہے، پھر برقیروں کو کسی بھی آلے سے جوڑ کر اسے بجلی فراہم کی جاسکتی ہے۔ تجربے کے طور پر ماہرین نے اس سے لیکویڈ کرسٹل ڈسپلے اور ایک چھوٹی الارم گھڑی چلا کر دکھائی ہے۔ پانی کے دو مزید قطرے گرانے سے بیٹری اور بہتر ہوگئی اور مزید 20 سیکنڈ تک کام کرتی رہی۔ اس دوران بیٹری سے ایک اعشاریہ دو وولٹ کی ہموار بجلی خارج ہوتی رہی۔ جب کہ ایک عام سیل 1.5 وولٹ بجلی فراہم کرتا ہے۔ لیکن جب جب کاغذی بیٹری کی بجلی کم ہوئی اس پر مزید پانی ڈالا گیا اور ایک گھنٹے تک بھی بجلی ملتی رہی۔ استعمال کے بعد کاغذی بیٹری ازخود گھل کر ختم ہوجاتی ہے۔