کامیاب زندگی کا اصول یہ ہے کہ دوسروں کے ساتھ مل جُل کر زندگی گذاری جائےاور اس بات کو مدِنظر رکھا جائے کہ میراکون سا اصول اور مقصداُن کے حق میں ہےاورمیرا کون سا ردِ عمل اُن کے خلاف ہے۔ اس معاملے میں ہمارے معاشرےکا طرزِ عمل کچھ الگ سا ہونے لگا ہے۔آج کی مادی اور سائنس وٹیکنالوجی کی ترقی کے باوجود انسان حیوانی زندگی بسر کر رہا ہے اور پستی کے گڑھے میں گراہوا ہے ۔ وجہ یہی ہے کہ زندگی کا مقصد غلط سمجھ لیا گیا ہے۔ دین اور دنیا کے الگ الگ دائرے بنا کر زندگی کی وحدت اور ترقی کے توازن کو ختم کر دیا ہے۔ دین و دنیا کی مکمل علمی، ذہنی، روحانی اور انتظامی خوبیوں اور حلال و حرام کی روزی کی صفات کا اثر اور خواہش نظر ہی نہیں آتی ۔ اخلاقی و ذہنی لحاظ سے ناقص اور اعمال کے اعتبار سے پستی کا شکار نظر آرہا ہے۔ صرف مادیت اور کھانے پینے، لباس اور اشیائے تعیش کو مقصدِ حیات بنا لیا ہے۔گویا آج کے اس خزاں رسیدہ معاشرے میں اخلاق وکردار ،حسن معاملات اور نرمی و محبت کے آثار مٹتے جارہے ہیں۔جس کے نتیجے میں ہم دوسرے قوموں میں رُسوا اور ذلیل ہو رہے ہیں اور بگاڑ کا گھن ہمیں دیمک کی طرح کھاتاجارہا ہے۔چنانچہ اب ہم نے تجارت کو بھی خالص دنیاداری کا کام سمجھ لیا ہے، اسی لئے ہمارا یہ ذہن بن گیا ہے کہ جھوٹ اور دھوکا دہی کے بغیر تجارت کامیاب نہیں ہوسکتی۔ حالانکہ اگر تجارت اللہ کے خوف کے ساتھ کی جائے اور کسی کو دھوکا دینے کی غرض سے نہیں، بلکہ سچائی اور امانت داری کو اپنا معمول بناکر کی جائے تو یہی تجارت ہماری عبادت بن کر باعث ِ اجر بنے گی۔اگرچہ یہ بات عیاں ہے کہ غربت و ثروت،امیری و فقیری ،صحت وبیماری اور خوش حالی و تنگ دستی کا تعلق تقسیم خداوندی سے ہے،اس لئے بندوں کو چاہیے کہ وہ اس کی تقسیم پر راضی اور تقدیر پر خوش رہیں۔البتہ دولت مند کا فریضہ ہے کہ وہ اللہ کی دی ہوئی دولت میں سخاوت و فیاضی سے کام لے اور محتاجوں کی حاجت روائی کرے، جب کہ مفلس وغریب کوچاہیے کہ وہ قناعت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑے،کیونکہ قناعت میں انسان کی خوشی پوشیدہ ہےاور جو شخص قناعت کرتا ہے ،وہ نفس کے رنج سے آزاد رہتا ہےاور جس قدر ملے، اُسی پر راضی رہتا ہے،کبھی لوگوں کے سامنے دست سوال دراز نہیں کرتا ہے۔ظاہر ہے کہ موجودہ دور میں بے کاری ،بے روز گاری اورہوش رُبا مہنگائی کے باعث ہمارے معاشرے کے زیادہ تر لوگ معاشی بحران کے شکار اور مختلف پریشانیوں سے دوچار ہیں، ایسے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ نرمی کا معاملہ کریں، ہمدردی سے پیش آئیں، ایک دوسرے کے دُکھ درد کا احساس کریں۔ مکان مالکان اپنے کرایہ داروںکی کرایوں میں کمی کریں، جو قرض وصول کرنے والا ہوں، وہ اپنے مقروض کو قرض لوٹانے کا مزید موقع دیں،جو مالک و عہدیدار ہیں، وہ اپنے ملازم کا حسب وسعت خیال رکھیں۔ اگر ہم دنیا کی مختصر زندگی میں اس حوالے سے بھی خلقِ خدا کے کام آئیں گے تو کل آخرت کی زندگی میں خالق کائنات ہمارے کام آئیں گے ۔ہم دیکھ رہے ہیں کہ اپنے اس معاشرے میںآج کتنے اہل ثروت ایسے بھی ہیں جو خدمتِ خلق کے مختلف کاموں میں حصہ تولیتے ہیں، مگر ان کے قریبی رشتے دار،اُن کے احباب افلاس کی زندگی گزار رہے ہیں۔کتنے تاجر ایسے ہیں جو دست سوال دراز کرنے والوں کے ساتھ تو داد و دہش کا معاملہ کرتے ہیں، مگر دکان پر آنے والے ایک غیرت مند غریب کے جذبات و احساسات سے ناواقف ہیں۔ کتنے خوش حال ایسے ہیں جوخود تو تین وقت انواع و اقسام کی غذاؤں سے لذتِ کام و دہن کا سامان کررہے ہیں ،مگر اُن کے گھر سے متصل ان کا عیال دار پڑوسی نان شبینہ کا محتاج ہے۔جہاں عمومی اعتبار سے خدمتِ خلق اور انفاق فی سبیل اللہ کے کاموں میں سرگرمی دکھانا ضروری ہے۔آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم میں سے ہر شخص اپنی اپنی استطاعت کے مطابق بندگان خدا کے ساتھ فراخی و سہولت کا معاملہ کرے،تاجر اپنی تجارت میں، قرض خواہ قرض طلبی میں اوردیگر حقوق کا تقاضا کرنے والے اپنے تقاضے میں نرمی سے کام لیں۔اسلام کی سنہری تعلیمات ہمیں اس امر کا پابند کرتی ہیں کہ ہم مشکل اور آزمائش کی گھڑی میں اپنے اِن بھائیوں کی ہر طرح مدد کریںاور خدمتِ خلق ، ایثار و ہمدردی اور رفاقت کے اُس جذبے کو عام کریں جو ہمارے دین ِ متین کا امتیاز اور ہمارے معاشرتی مزاج کی رُوح ہے۔