نذیر جنیجو
جوانی میں انسان باپ کو شک کی نگاہ سے دیکھتا رہتا ہے۔ جیسے باپ کو ہمارے مسائل، تکالیف یا ضرورتوں کا احساس ہی نہیں، یہ نئے دور کے تقاضوں کو نہیں سمجھتا۔
کبھی کبھی ہم اپنے باپ کا موازنہ بھی کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ ’’اتنی محنت ہمارے باپ نے کی ہوتی، بچت کی ہوتی، کچھ بنایا ہوتا تو آج ہم بھی فلاں کی طرح عالیشان گھر، گاڑی میں گھوم رہے ہوتے۔‘‘
’’کہاں ہو؟ کب آؤ گے؟ زیادہ دیر نہ کرنا،‘‘ جیسے سوالات انتہائی فضول اور فالتو سے لگتے ہیں۔’’سویٹر تو پہنا ہے، کچھ اور بھی پہن لو سردی بہت ہے۔‘‘ انسان سوچتا ہے کہ اولڈ فیشن کی وجہ سے والد کو باہر کی دنیا کا اندازہ نہیں۔اکثر اولادیں اپنے باپ کو ایک ہی معیار پر پرکھتی ہیں۔ گھر، گاڑی، پلاٹ، بینک بیلنس ، کاروبار اور اپنی ناکامیوں کو باپ کے کھاتے میں ڈال کر خود سرخرو ہو جاتے ہیں۔’’ہمارے پاس بھی کچھ ہوتا تو اچھے اسکول میں پڑھتے، کاروبار کرتے۔‘‘
اس میں شَک نہیں کہ اولاد کے لئے رول ماڈل بھی ان کا باپ ہی ہوتا ہے۔ لیکن کچھ باتیں جوانی میں سمجھ نہیں آتیں یا ہم سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے۔ اس لئے کہ ہمارے سامنے وقت کی ضرورت ہوتی ہے، دنیا سے مقابلے کا بھوت ہم پر سوار ہوتا ہے، جلد سے جلد سب کچھ پانے کی جستجو میں ہم کچھ کھو بھی رہے ہوتے ہیں، جس کا احساس بہت دیر سے ہوتا ہے۔بہت سے بچے وقتی محرومیوں کا پہلا ذمہ دار اپنے باپ کو قرار دے کر ہر چیز سے بری الزمہ ہو جاتے ہیں۔وقت گزر جاتا ہے اچھا بھی اور بُرا بھی اور اتنی تیزی سے گزرتا ہے کہ انسان پلک جھپکتے ماضی کی کہانیوں کو اپنے اِردگِرد منڈلاتے دیکھنا شروع کر دیتا ہے۔ جوانی، پڑھائی، نوکری ،شادی، اولاد اور پھر وہی اسٹیج وہی کردار جو نبھاتے ہوئے ہر لمحہ اپنے باپ کا چہرہ آنکھوں کے سامنے آ کر باپ کی ہر سوچ، احساس، فکر، پریشانی، شرمندگی اور اذیت کو ہم پر کھول کے رکھ دیتا ہے۔
باپ کی کبھی کبھی بلا وجہ خاموشی، کبھی پرانے دوستوں میں بے وجہ قہقہے لگانا، اچھے کپڑوں کو ناپسند کر کے، پرانوں کو فخر سے پہننا، خورد نوش کی چیزوں میں اپنی سادگی پر فخر،کبھی اپنے من پسند کھانے کو یہ کہہ کر نہ کھانا کہ مجھے آج طلب نہیں ہے، کبھی عمر بھر کے سیر سپاٹے کے شوق کو یہ کہہ کر نکارنا کہ میرا من نہیں ہے، کبھی اپنے سب گھر والوں کے سامنے جھوٹ موٹ کا وہ ہنسنا، کبھی اپنے دل کے ٹکڑوں کواس انداز سے تکنا کہ وہ سماع دل کو موہ لیتا ہے۔کبھی سر جُھکائے اپنے چھوٹے چھوٹے کاموں میں مَگن ہونے کی وجہ، کبھی بغیر وجہ تھکاوٹ کے بہانے سر شام بتی بُجھا کر لیٹ جانا، نظریں جُھکائے، انتہائی گہری سوچ میں ڈوب کر قرآن کی تلاوت کرنا سمجھ تو آنا شروع ہو جاتا ہے۔ لیکن بہت دیر بعد جب ہم خود راتوں کو جاگ کر دوسرے شہروں میں گئے اپنےبچوں پر آیت الکرسی کے دائرے پھونکتے ہیں، جب ہم سردی میں وضو کرتے ہوئے اچانک سوچتے ہیں، چلو آج پوچھ ہی لیں کہ ’’بیٹا آپ کے ہاں گرم پانی آتا ہے کہ نہیں ؟‘‘
جب قہر کی گرمی میں روم کولر کی خنک ہوا بدن کو چٗھوتی ہے تو پہلا احساس جو دل و دماغ میں ہلچل سی مچاتا ہے کہ’’کہیں میری اولاد گرمی میں تو نہیں بیٹھی۔‘‘جوان اولاد کے مستقبل، شادیوں کی فکر، ہزار تانے بانے جوڑتا باپ، تھک ہار کر اللّٰه اور اس کے پاک کلام میں پناہ ڈھونڈتا ہے۔ تب یاد آتا ہے کہ ہمارا باپ بھی ایک ایک حرف، ایک ایک آیت پر رُک رُک کر بچوں کی سلامتی، خوشی، بہتر مستقبل کی دعائیں ہی کرتا ہو گا۔ہر نماز کے بعد اُٹھے کپکپاتے ہاتھ، اپنی دعاؤں کو بھول جاتے ہوں گے۔ ہماری طرح ہمارا باپ بھی ایک ایک بچے کو، نمناک آنکھوں سے اللّٰه کی پناہ میں دیتا ہو گا۔سر شام کبھی کبھی کمرے کی بتی بجھا کر، اس فکر کی آگ میں جلتا ہوگا کہ میں نے اپنی اولاد کے لئے بہت کم کیا؟
اولاد کو باپ بہت دیر سے یاد آتا ہے۔ اتنی دیر سے کہ ہم اسے چھونے، محسوس کرنے، اس کی ہر تلخی، اذیت، فکر کا ازالہ کرنے سے محروم ہو جاتے ہیں۔ یہ ایک عجیب احساس ہےجو وقت کے بعد اپنی اصل شکل میں ہمیں بےچین ضرور کرتا ہے۔ لیکن یہ سچائی جن پر وقت کے رہتے ہوئے عیاں ہو جائیں، وہی خوش قسمت اولاد ہوتا ہے۔
اولاد ہوتے ہوئے ہم سمجھتے ہیں۔ باپ کا چھونا و پیار کرنا، دل سے لگانایہ تو بچپن کی باتیں ہیں۔ باپ بن کر آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔ پتہ نہیں باپ نے کتنی دفعہ دل ہی دل میں ہمیں چھاتی سے لگانے کو بازو کھولے ہوں گے؟پیار کے لئے اس کے ہونٹ تڑپے ہوں گے اور ہماری بے باک جوانیوں نے اسے یہ موقع نہیں دیا ہو گا۔ہم جیسے درمیانے طبقے کے سفید پوش لوگوں کی ہر خواہش، ہر دعا، ہر تمناء، اولاد سے شروع ہو کر اولاد پر ختم ہو جاتی ہے۔لیکن کم ہی باپ ہوں گے جو یہ احساس اپنی اولاد کو اپنی زندگی میں دلا سکتے ہوں۔ یہ ایک چُھپا میٹھا میٹھا درد ہے جو باپ اپنے ساتھ لے جاتا ہے۔ اولاد کے لئے بہت کچھ کر کے بھی کچھ نہ کر سکنے کی ایک خلش آخری وقت تک ایک باپ کو بے چین رکھتی ہے اور یہ سب بہت شدت سے محسوس ہوتا ہے، جب ہم باپ بنتے ہیں۔ بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھتے ہیں تو باپ کے دل کا حال جیسے قدرت ہمارے دلوں میں منتقل کر دیتی ہے۔
اولاد اگر باپ کے دل میں اپنے لئے محبت کو کُھلی آنکھوں سے وقت پر دیکھ لے تو شاید اسے یقین ہو جائے کہ دنیا میں باپ سے زیادہ اولاد کا کوئی دوست نہیں ہو تا ہے ۔
ہاں یہ حقیقت ہے کہ ماں کا احسان عمر بھر بچے نہیں چکا سکتے ۔کیونکہ ماں نے اس بچے کو پورے نو مہینے اپنی کوکھ میں رکھ کر اور کتنے تکالیف سہہ کر جنم دیا ہے اور پھر دو ڈھائی سال تک اپنے سینے سے لگا کر زندہ رکھا ہے مگر باپ نے پوری عمر اس بچے کو پالنا اپنے اوپر فرض کیا ہے اور اپنا مستقبل اس بچے پر قربان کیا ہے، یہاں تک کہ اپنا سب کچھ یعنی اپنی دنیا و آخرت تک ۔پھر کیا اور کہاں کچھ باقی رہتا ہے۔