سرینگر//سرینگر بارہمولہ اودھمپور ریل رابطہ کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں 16برسوں کی تاخیر سے پروجیکٹ پر 25,446کروڑ روپے کا اضافی خرچہ آیا ہے جبکہ پروجیکٹ کو مکمل کرنے کیلئے اب تک متعدد بار حتمی تاریخ کا اعلان کیا گیا تاہم 1995سے اب تک پروجیکٹ مکمل نہیںہوپایا ہے ۔ سی این آئی کے مطابق 1995مارچ میں سرینگر ، بارہمولہ ، اودھپور ، جموں ریل پروجیکٹ کو منظور دی گئی تھی اُس وقت پروجیکٹ کیلئے لاگت کا تخمینہ 2500کروڑ تھا اور اس کو مکمل کرنے کیلئے 2002کی حتمی تاریخ مقرر کی گئی تھی ۔ تاہم پروجیکٹ کو دو ہزار دو تک بھی مکمل نہیں کیا گیا اور اس پروجیکٹ پر کچھوے کی رفتار سے کام جاری رہنے کی وجہ سے خزانہ عامرہ پر کروڑوں کا اضافہ بوجھ پڑ گیا جبکہ وادی کشمیر کا ملک کی دوسری ریاستوں سے براہ راست رابط ہونے کا خواب بھی ادھورا رہ گیا ۔ اس ضمن میں ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ پروجیکٹ کو اگر 2020تک مکمل کیا جائے گا تب تک اس پروجیکٹ پر 27,946کروڑکی اضافی رقم خرچ ہوگی ۔ سرینگر بارہمولہ ، اودھمپور ریل لنک کو سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے قومی پروجیکٹ قراردیتے ہوئے متعلقہ ایجنسیوں کو پروجیکٹ 2007تک مکمل کرنے کی ہدایت کی ۔ اور اٹل بہاری واجپائی نے اُس وقت خواہش ظاہر کی تھی کہ اس پروجیکٹ سے کشمیری لوگ ملک کی دوسری ریاستوں سے بذریعہ ریل رابطہ رکھ سکیں گے جس کے نتیجے میں وادی کی اقتصادی حالت میں بہتری آئے گی اور کاروبار کے علاوہ سیاحت کو مزید فروغ ملے گا۔ لیکن ان کا خواب آج تک ادھورا ہی رہا ۔ مرکزی وزارت برائے پراگرام امپلمنٹیشن کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس پروجیکٹ پر کام سست رفتاری سے جاری ہونے کی وجہ سے مرکزی خزانہ کو سالانہ کروڑوں روپے کا اضافی بوجھ برداشت کرنا پڑتا ہے ۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پروجیکٹ کو ملک کے بڑے سے بڑے پروجیکٹوں سے زیادہ وقت لگ چکا ہے جوکہ متعلقہ ایجنسیوں کی نااہلیت اور غفلت شعاری کا ثبوت پیش کرتا ہے ۔ رپورٹ میں پروجیکٹ کی تاخیر کی بنیادی وجوہات جاننے کیلئے تحقیقات کرانے کی سفارش کی گئی ہے ۔ واضح رہے کہ سرینگر ، بارہمولہ اودھمپور یل لنک شروع ہونے کے نتیجے میں وادی کے تاجر براہ راست دلی ، کولکتہ، پنچاب ، چنئی و دیگر بڑی منڈیوں میں اپنا مال فروخت کرسکتے ہیں جبکہ وہاں سے بھی مال بلاکسی رُکاوٹ کے مال لاسکتے ہیں جو وادی کے تاجروں کے ساتھ ساتھ عام لوگوں کیلئے راحت کاری کا سبب بن سکتا ہے جبکہ ملک کے مختلف حصوں سے سیاح براہ راست وادی پہنچ سکتے ہیں جس کے نتیجے میں سیاحت کو بھی فائدہ پہنچنے کی امید ہے تاہم پروجیکٹ میں تاخیر کی وجہ سے سیاحت سے وابستہ افراد اور تاجر برادی مایوسی کی شکار ہوچکی ہے ۔