ماہ اپریل میںریاست کی ایک منفرد علمی دانش گاہ بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری میں ایک سیمینارمیں شرکت کا موقعہ نصیب ہوا۔25 اپریل 2016کو منعقدہ اس ایک روزہ سیمینار بعنوان عربی ،اردو افسانہ ۔۔۔ فن اور تکنیک میں شرکت کا دعوت نامہ پہلے ہی موصول ہوا تھا ۔ اس مناسبت سے24 اپریل کوکشمیر سے دوسرے مدعوئین ڈاکٹر ریاض توحیدی،راجہ یوسف اور ڈاکٹر بشارت خان کے ہمراہ سرینگر سے روانہ ہوکرتاریخی مغل روڈ کا سفر شروع ہوا۔مغل روڑ پر دوران سفر ہوئے مشاہدات کو صرف نظر کرتے ہوئے صرف اتنا کہنا مناسب رہے گا کہ اونچے خوبصورت برفیلے پہاڑوں سے گزرنے والا یہ راستہ قدرت کی کاریگری کا شاہکار نمونہ ہے جسے دیکھ کر انسان کی عقل دنگ رہ جاتی ہے ۔لیکن اس خوشگوار سفر کے دوران پیر کی گلی والا راستہ انتہائی خستہ حالت میں ہے جس کی وجہ سے کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔بہر حال قدرتی نظاروں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے شام پانچ بجے ہم راجوری کے بازار میں پہنچے اور بازار کا سر سری چکر لگانے کے بعد بابا غلام شاہ بادشاہ یونیور سٹی ، جو بازار سے چھ سات کلو میٹر کی دوری پر ایک خوب صورت پہاڑی پر واقع ہے،کا رخ کرکے سیدھے یونیورسٹی کے گیسٹ ہاوس پہنچے ۔ جہاں پر پروفیسر جی ۔ایم ۔ملک(ڈین آف دی اسکول)‘ عربی کے معروف استاد اور دانشورڈاکٹر شمس کمال انجم (صدر شعبہ عربی و اردو)اور دیگر پروفیسر صاحبان نے بڑی خندہ پیشانی سے ہمارا استقبال کیا۔مختصر تعارف کے ساتھ ہی مشروبات اور چائے وغیرہ پینے کے بعد ہمارا سامان کمروں میں بھیجوا کر ٹھہرنے کے لئے کمروں کی چابیاں بھی دلوائیں۔تھوڑی دیر تک سستانے کے بعد محترم ڈاکٹرشمس کمال انجم ‘سربراہ شعبہ عربی و اردو جو اس سیمینار کے روح رواں بھی تھے ‘حاضر ہوئے اور ہم یونیورسٹی کیمپس کی سیر کے لئے نکل پڑے ۔یونیورسٹی کا نظارہ دیکھ کر دل خوش ہوگیا۔یونیورسٹی کے مختلف شعبہ جات اور ہوسٹل کی شاندار عمارتیں دیکھنے کے بعدہمیں کیفٹیریا لے گئے جہاں پرمنتظمین نے روایتی کشمیری سماوار میں نمکین چائے اور بے حد لذیذ قلچوں سے ہماری خاطر تواضع کی ۔چائے نوشی کے دوران سیمینار کے حوالے سے دلچسپ گفتگو بھی جاری رہی‘جس کے دوران یہ بھی پتہ چلا کہ یہ کیفٹیریا یونیورسٹی میں زیر تعلیم ایم ۔بی ۔ائے کے طلبہ ہی چلاتے ہیں۔یہ سن کر بے حد خوشی ہوئی کہ یہ ایک طرح سے عملی تربیت بھی ہورہی ہے۔۔بعد ازاں ڈاکٹر صاحب نے ہمیں ،لائیبرری ،کانفرنس حال ، کمپیوٹر لیب ،رہائیشی ہوسٹلوںاور دانشگاہ کی مختلف بلاکوں کی سیر کرائی ۔ یہ دیکھ کر انتہائی مسرت ہوئی کہ لائیبرری میں رات کے دس بجے کے بعد بھی طالب علم مطالعے میں ہمہ تن مشغول تھے ۔کچھ دیر تک اس علمی دانشگاہ کے منفرد محل وقوع ٹمٹماتی روشنیوں میں نہائی ہوئی عمارتوں اور دلکش و پر فضا ماحول سے محظوظ ہونے کے بعد ایک خوشگوار احساس لئے ڈاکٹر صاحب ہمیں واپس گیسٹ ہاوس میں چھوڑ کر خود اپنے ساتھیوں کے ساتھ سیمینار کی تیاریوں کا جا ئیزہ لینے میں مصروف ہو گئے ۔
دوسرے دن یعنی 25اپریل کو ہم مقررہ وقت پر ٹھیک دس بجے یونیورسٹی کے کانفرنس حال میں پہنچے جو اسکالروں ،طلباء و طالبات اورعلم و ادب کے شیدائیوں سے کچھا کھچ بھرا ہوا تھا ۔تھوڑی دیر میں یونیورسٹی کے وائس چانسلرجناب پروفیسر جاوید مسرت صاحب تشریف آور ہوئے ۔انہوںنے گرم جوشی کے ساتھ مہمانوں سے مصافحہ کرتے ہوئے حال احوال بھی پوچھا۔اس کے بعد سیمینار کا باضابطہ آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا۔ ناظم پروگرام ڈاکٹر شمس کمال انجم نے سیمینار کے اغراض و مقا صد بیان کرتے ہوئے مہمانوں کا رسماً استقبال کیا‘ جب کہ ڈاکٹر مظفر حسین ندوی اور پروفیسر جی۔آر۔ملک نے بھی اپنے خیالات سے سامعین کو نوازا ۔ پہلے سیشن کی صدارت وائیس چانسلر جناب جاوید مسرت صاحب نے فرمائی اور پروفیسر جی ۔ ایم ۔ ملک،ڈاکٹر مظفر حسین ندوی اور ڈاکٹر ریاض توحیدی بھی ایوان صدارت میں موجود رہے۔پروفیسر جاوید مسرت نے اپنے صدارتی خطبے میں فرمایا کہ یونیورسٹی کا شعبہ عربی ایک متحرک شعبہ ہے جو سیمنار اور اشاعتی سرگرمیوں میں کلیدی رول ادا کررہا ہے ۔انھوں نے تجویز رکھی کہ صدر شعبہ نرسنگ میں زیر تعلیم طالبات کو اسپوکن عربک سکھانے کا ایک پروپوزل بھی بنائیں۔ تاکہ ان طالبات کو عربی سیکھنے کے بعد خلیجی ممالک میں روزگار حاصل کرنے میں مدد مل سکے۔انہوںنے مزید یہ بھی کہا کہ وہ عربی شعبے کی ضروریات کو پورا کرنے میں سنجیدہ ہیں ۔افتتاحی پروگرام کے بعد چائے کا وقفہ ہوا جس دوران وائیس چانسلر صاحب نے مہمانوں سے گفتگو بھی فرمائی ۔ چائے نوشی کے بعد سیمینار کا پہلا ٹیکنیکل سیشن ’اردو افسانہ فن اور تکنیک ‘شروع ہوا ‘جس کی صدارت ڈاکٹر ریاض توحیدی نے کی اور ایوان صدارت میں پروفیسر جی ۔ایم ۔ملک ‘ ڈاکٹر شمس کمال انجم ‘راجہ یوسف اور ڈاکٹر بشارت احمد خان بھی موجود تھے ۔اس نشست میں ڈاکٹر مشتاق احمد وانی نے ’معاصراردو افسانہ ‘راجہ یوسف نے ’افسانہ کی بنت ایک جا ئیزہ اورڈاکٹر ریاض توحیدی نے ’افسانہ فن اور تکنیک وغیرہ پر اپنے مقالات پڑھے جب کہ ڈاکٹر بشارت خان نے بھی فن افسانہ کے حوالے سے خطبہ دیا۔ڈاکٹر توحیدی نے صدارتی خطبے میں افسانے کی مختلف جہتوں پر تفصیل سے روشنی ڈالی ۔اس سیشن کی نظامت کے فرائض ڈاکٹر آصف ملک نے انجام دئے۔اس سیشن کے فورً بعد دوسرا سیشن ’عربی افسانہ فن اور تکنیک‘شروع ہوا جس میں ڈاکٹر شمس کمال انجم نے’عربی افسانے کی نشو نما و ارتقا،ڈاکٹر محمد عفان نے ’القصتہ القیصرۃ و یوسف ادریس (یوسف ادریس کی افسانہ نگاری)ڈاکٹر محمد اعظم نے’القصتہ القیصرۃ خصائصہاو میزاتہا( عربی افسانے کا فن ، خصوصیات وامتیازات)جب کہ ڈاکٹر منظر عالم نے نجیب الکیلانی والقصۃ القصیرۃ (نجیب کیلانی اور عربی افسانہ)۔۔ کے عنوانات سے مقالے پڑھے ۔ سیشن کی صدارت ڈاکٹر مظفر حسین ندوی نے کی جنہوںنے اپنے صدارتی خطبے میں عربی افسانہ نگار نجیب کیلانی کے افسانوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے عربی افسانہ اور ناول پر تٖفصیل سے دلچسپ انداز میں روشنی ڈالی ۔عربی افسانہ فن اور آرٹ پر بھی سیر حاصل بحث ہوئی۔نظامت کے فرائض ڈاکٹر محمد عفان نے انجام دئے۔
اس سیشن کے بعد دو پہر کے کھانے کا وقفہ ہوا اور کیفٹیریا میں کھانا تناول فرمانے کے بعد دن کے تین بجے ’محفل افسانہ عربی اردو شروع ہوئی جو خاصی دلچسپ ہونے کے ساتھ ساتھ کافی طویل بھی رہی۔اس نشست میں کل گیارہ افسانے پڑھے گئے۔اس سیشن کی صدارت کے فرائض راجا یوسف نے انجام دئے جبکہ ڈاکٹر ریاض توحیدی ،ڈاکٹڑ شمس کمال انجم اور طارق شبنم بھی ایوان صدارت میں موجود تھے ۔ڈاکٹر ریاض توحیدی نے افسانہ’’ کالاچوہا‘‘ڈاکٹر شمس کمال انجم نے ’’غربت‘‘طارق شبنم نے’’ آب حیات ‘‘راجہ یوسف نے ’’حصار‘‘داکٹر مشتاق وانی نے ’’سب کی ماں‘‘ڈاکٹر بشارت خان نے ’’سنگ باز‘‘ڈاکٹر عقیلہ نے ’’قاتل ‘‘رضوانہ شمسی نے’’ باغی عورت‘‘ اور ڈاکٹر لیاقت نیر نے ’’مردہ ایک دم زندہ ہوگیا ‘‘کے عنوانات سے افسانے پڑھے۔
جب کہ عربی زبان میںڈاکٹر منظر عالم نے المال،ڈاکٹر محمد اعظم نے ماہوالانسان اور ڈاکٹر محمد عفان نے مسافر کے عنوانات پر افسانے پڑھے۔ سا معین نے سبھی افسانوں کو بڑے شوق سے سنا۔
راجا یوسف نے اپنے صدارتی خطبے میں فن افسانہ کے حوالے سے کئی نکات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کسی بھی افسانہ نگار کو ایک دم فن پر گرفت حاصل نہیں ہوتی ہے بلکہ لگاتارمشق کرنے سے آہستہ آہستہ فن برتنا آہی جاتا ہے ۔انھوں نے مزید فرمایا کہ میں نے بہت سارے محفل افسانہ میں شرکت کی ہے۔ افسانے کے کئی سیشن دیکھے ہیں ان میں شرکت کیے ہیں مگر ایسا سیشن نہیں دیکھا جس میں گیارہ افسانے پڑھے گئے ہوں۔ انہوں نے کہا کہ جس طرح سے مختلف سیشن میں مقالے پڑھے گئے اور محفل افسانہ میں گیارہ افسانے پڑھے گئے ۔ اس طرح اسے دو دن کا سیمینار ہونا چاہیے تھا۔انھوں نے شعبہ ٔعربی اور اس کے صدر ڈاکٹر شمس کمال انجم اور ان کے تمام ساتھیوں کواس کامیاب سیمینار کے لیے مبارکباد دی اور ان کا شکریہ ادا کیا۔اس سیشن کی نظامت ڈاکٹر مشتاق وانی نے انجام دی۔ اس سیشن کے بعد تمام مقالہ نگاروں اور افسانہ نگاروں کو توصیفی اسناد سے نوازا گیا اور ڈاکٹر شمس کمال انجم نے مہمانوں کا شکریہ ادا کیا جس کے ساتھ ہی دن بھر چلنے والا یہ سیمینار خوشگوار ماحول میں اختتام کو پہنچا ۔
اگلے دن یونیورسٹی کے کئی اساتذہ صاحبان اور طلبہ گیسٹ ہاوس میں آکر ملاقات کے لئے آگئے اور کئی علمی وادبی موضوعات پر گفتگو ہوئی۔اور ڈاکٹر شمس کمال انجم صاحب نے اپنی ایک اہم کتاب’’بلاغت القران‘‘اور نعتیہ مجموے’’بلغ العلی بکمالہ ‘‘سے نوازا۔جن پر بعد میں گفتگو کی جائے گی ان شاء اللہ۔
٭٭٭