افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا
خالقِ کائنات نے اس دنیا کی تخلیق کتنے حسین پیرائے میں کی ہے۔لاتعداد اور رنگ بہ رنگی مخلوقات کو خلق کرکے انسانوں کو اشرف المخلوقات کے درجے پر فائزکر دیا ہے۔تمام مخلوقات کو انسانوں کے ماتحت رکھ کر انسانوں کو گویا پورے معاشرے کا منتظم بنایا ہے لیکن اس بلندی کے ساتھ ساتھ ہی قدرت نے انسانوں کو باقی مخلوقات کے تئیں ذمہ داری کے ایک بھاری برکم بوجھ کے ساتھ وابستہ رکھا ہے کیونکہ تمام مخلوقات میں سے صرف انسان ہی وہ مخلوق ہے جن کو خالقِ کائنات نے تدبر و تفکر اور بولنے کی نعمت سے نوازا ہے۔انسان کی یہی خدادا نعمتیں اور صلاحیتیں سماجی زندگی کی بنیادیں قرار پاتی ہیں اور ان ہی سے انسانی معاشرہ تشکیل پاتا ہے ،اسی پر انسانی ترقی اور کامیابی کا پورا دارو مدار ہوتا ہے ۔حقیقی امر یہ ہے کہ ایک انسان سماج کے ساتھ ایک فطری مطابقت رکھتا ہے اور اسی لیے انسان کو سماجی مخلوق بھی کہتے ہیں،کیونکہ سماج میں ضروریات کے واسطے ایک فرد ہر وقت دوسرے کا محتاج رہتا ہے۔ایک سماج میں چونکہ مختلف مزاج،رنگ،جنس،نسل اور مذاہب و عقائد کے افراد شامل ہوتے ہیںجن کو سماج کے مختلف شعبوں میں کسی نہ کسی شعبے سے وابستگی ہوتی ہے۔ان ہی پر ملک و قوم کی قسمت کا دارومدار ہوتا ہے،یہی ایک پسماندہ قوم کو اقوام کی برادری میں نمایاں مقام دلا سکتے ہیں،گھٹا ٹوپ اندھیروں میں انوارات بکھیر سکتے ہیں،نا ممکنات میں سے ممکنات کی کرنوں سے مستفیض کروا سکتے ہیںلیکن یہ سب کچھ تب تک قطعی ممکن نہیں جب تک کہ نہ مجموعی طور پراس سماج سے جڑے تمام افراد کے اندر ذمہ داری کا جذبہ اور احساس پیدا نہ ہو جائے۔
سماج میں ہر شخص قوم کی قسمت کا چمکتا ستارہ ہوتا ہے ،فرد چاہے اونچے رتبے پر ہو یا نچلے مر تبے پر،مرد ہو یا عورت،چھوٹا ہو یا بڑا، ہر کسی کی سماج میں ایک حیثیت ہوتی ہے۔ ایک سماج تب ہی کامیاب قرار دیا جاتا ہے جب اس سماج میں ذمہ داری کے تعمیری جذبے سے معمور کارکشا لوگ فوج درفوج پائے جاتے ہوںجو اپنی اپنی ذمہ داریوں اور صلاحیتوںکو جانتے سمجھتے ہوں اورسماج کی تعمیر میں اپنے فرائض کی اہمیت کو سمجھتے ہوں ۔یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ تب تک کوئی بھی قوم ترقی کی رہ پر گامزن نہیں ہو سکتی جب تک کہ نہ اس قوم کے افراد کے ہاں اپنی ذمہ داری کا احساس پیدا ہو۔جس قوم کے افراد میں ذمہ داری کا احساس پیدا ہو جاتا ہے وہ قوم کبھی بھی اپنے مقاصد میں ناکام نہیں ہوسکتی ،احساسِ ذمہ داری ان میں ایک انقلاب برپا کر دیتا ہے ۔یہ احساس ان کے رگ و پے میں حمیت و جفاکشی کا مادہ بھرتا ہے،ان کو حرام کمانے کے بجاے حلال رزق کھانے کے لیے آمادہ کرتا رہتا ہے، سونے کے بجاے جاگنے پر اُبھارتا ہے۔کاہلی کے بجائے جفاکش بننے کاسبق دیتا ہے۔ذمہ داری کااحساس جس قوم میں پایا جائے وہ قوم کسی بھی میدان میں پیچھے نہیں رہتی بلکہ ہمیشہ دوسروں کو پچھاڑتی ہے،اقوامِ عالم میں وہ نمونہ ٔ عمل کی حیثیت اختیار کر جاتی ہے، اقوام اور ملتیں ایسی قوم کی گرویدہ ہو جاتی ہیں۔اس قوم کی تقلید کو باقی ممالک اپنے اوپر فرض قرار دیتے ہیں ۔ موجودہ دور میںاس کی زندہ مثال چین اور امریکہ جیسے دو ترقی یافتہ ممالک ہیں ۔اسی طریقے سے جب سماج سے جڑے پیشہ وارانہ افراد کو اپنی ذمہ داری کا احساس ہو جاتا ہے،تو وہ قوم خود بہ خود باقی قوموں سے بے نیاز ہو جاتی ہے۔ اس احساس کی وجہ سے وہ اپنا کام وقت پر اور لگن سے سر انجام دیتے ہیں۔ اس کی وجہ سے ایک انسان کا صرف کوئی ایک ہی پہلو ہی نکھر کے سامنے نہیں آ تا بلکہ ایک انسان کے تمام پہلو نکھر کے سامنے آ جاتے ہیں ۔یہی احساس انسان کو گناہ اور جرم سے روکتا ہے ، رشوت لینے اور دینے پر ٹوکتا ہے، امیروں کو غریبوں کا خادم بنا دیتا ہے ،غریبوں کو امیروں ،چھوٹوں کو بڑ وں کا محافظ بنا دیتا ہے۔جب ایک فرد کو اپنے سماج کے تئیں انسانی ذمہ داریوں کی سدھ بدھ آئے تو ایک صحیح سالم صالح معاشرہ وجود میں آجاتا ہے ۔ کاروبار، ترقی، خوشحالی،سیاست،قیادت،تہذیب اور صالحیت کے گلستان وجود میں آ جاتے ہیں ، گناہوں کے ناسوراور ظلم جیسی لعنت ختم ہو جاتی ہے،سود،بدکاری،لوٹ کھسوٹ ، رسومات ِبد، سماجی بر ائیوں کا بازار ٹھپ ہو جاتا ہے۔ اسلام اسی صالح معاشرہ کی تعمیر کانام ہے ۔
احساسِ ذمہ داری انفرادی سطح پر ہو تو جزوی طور ہی سود مند ثابت ہوسکتی ہے لیکن اگر اجتماعی سطح پر ہو تو کلی طورایک بڑے سے بڑے انقلاب کا موجب بن سکتی ہے۔ چھوٹے چھوٹے قطرے اگر ایک ندی کو جنم دے سکتے ہیں،جو پھر بعد میں ایک بڑے سمندر کا پیش خیمہ بنتی ہے تو کیا سماج سے منسلک بہت سے افراد میں نیکی اور بھلائی کے ضمن میں احساس ذمہ داری کو جگانے کے بعد کوئی انقلاب برپا نہیںہوسکتا؟ ہاں،لیکن شرط یہی ہے کہ ہر کوئی شخص اپنی ذمہ داریوں اورفرائض کے حوالے سے سنجیدگی سے بیدار ہو جائے۔ یہ اس بات کی نشانی ہوتی ہے کہ اُس شخص کا ضمیر جاگا ہوا ہے وگرنہ تو غیر ذمہ داری برتنے والے لوگ خیانت کار اوربے ضمیرہی ہوسکتے ہیں۔وہ ایک تو خود کے لئے سبب ِ زیاںثابت ہوتے ہیں اوراپنے سماج اور ملک و قوم کا نقصان کر بیٹھتے ہیں۔ایک استاد کو چونکہ سماج میںقومی معمار کا درجہ حاصل ہوتاہے۔اس لئے اگر ایک استاد کو اپنی ذمہ داری کا احساس ہو جائے تو قوم پستی سے بلندی تک اُڑان کر کے زمین وافلاک سر کراسکتا ہے۔احساس ِ ذمہ داری سے لیس استاد قوم کو صحیح تعلیم و تربیت سے نوازکر اُسے با شعوروبااخلاق بناتے ہوئے اس کے اندر سے مفکر،فلسفی، سیاست دان ،سائنس دان، معلم ، انجنینئراور دیگر شعبوں کے پیشواؤں کو جنم مل سکتا ہے۔اسی طریقے سے اگر ڈاکٹر حضرات اپنے پیشے کو ذمہ داری سے برتیں گے تو قوم جسمانی اور ذہنی صحت مندی سے بہرہ و ہوسکتی ہے۔اگر ایک انجنئیر اپنے پیشے سے انصاف کرئے گا توملک کا انفراسٹرکچرمثالی بن سکتا۔اگر ایک جج صحیح فیصلے سنائے تو قوم سے دھنگے فساد خود بہ خود کم ہو جائیں گے۔اگر ایک سیاست دان خدمت خلق والی
سیاست کرے تو قوم ہر میدان میں ترقی یافتہ بن سکتی ہے۔یوں ایک صحیح الجہت معاشرہ تشکیل پذیر ہو سکتا ہے جو انصاف اور حق کی بنیادوں پر استوار ہو گا۔
………………..
رابطہ :ریسرچ اسکالر ،سینٹرل یونی ورسٹی آف کشمیر