میرا پیارا وطن کشمیر کب سے جل رہاہے، مجھے پتہ نہیں ۔ جب سے میں نے ہوش سنبھالا، چاروں طرف اندھیرا ہی اندھیرا نظر آیا۔ یہاں کے حالات اتنے خراب ہیں کہ لفظوں بیان نہیں ہوسکتا۔ میں نے کوئی دن ایسا نہ پایا کہ خوشی سے دل پاگل ہوجاتا۔ نامساعدحالات کا ایک غم ابھی تازہ ہوتا ہے ، دوسر ا غم بے دھڑک دل کے دروازے سے سیدھے جگر میں پیوست ہو جاتا ہے۔ میں شہر خاص کی بیٹی ہوں۔میری ہمسائیگی میں جو لوگ رہتے ہیں وہ زیادہ تر غریب ہیں، کوئی کوئی ان میں امیر بھی ماناتا ہے ۔ ان بڑے لوگوں کے زیادہ تر بچے انگلش میڈیم اسکولوں میں پڑھتے ہیں ، کہیو ں کے بیٹے اور بیٹیاں انڈیا اور انڈیا سے باہر کئی ملکوں میں لاکھوں کے ڈونیشن پرڈاکٹری ، انجنیئرنگ، ماسٹر آف بزنس ایڈمنسٹریشن(ایم بی اے ) وغیرہ کی ڈگریاں کر تے ہیں ۔ کشمیر کے بیٹے گھر سے باہر تعلیم کے لئے جاتے تو کسی کے ماتھے پر شکن نہیں پڑتی مگر بالغ بیٹیاں انڈیا یا انڈیا سے باہر جاتیں تو لوگ پہلے پہل پیٹھ پیچھے سوباتیں کر تے، برائیاں کرتے کہ ان کی غیرت مرگئی ہے ،یہ لوگ بیٹیوں کو کھلا چھوڑتے ہیں ، یہ اپنے خاندان اور محلہ والوں کیلئے کلنک کا ٹیکا ہیں مگر اب یہ کسی عیب چینی کاموضوع نہیں بلکہ لوگوں کے لئے فخر کی بات ہے، کیونکہ اکثر لوگ اپنا خواب یااپنی لڑکیوں کا سپنا ساکار کر نے کے لئے انہیں گھر سے ہزاروں میل دور بھیجتے ہیں ۔ کسی کو فکر نہیں ہوتی کہ وہاں انہیں کن حالات سے پالا پڑ سکتا ہے ۔ خدا نہ کرے اُن پر وہاں کچھ بھی بیت سکتی ہے ، ’’می ٹو‘‘ کی سنتے ہیں تو پیروں تلے سے زمین کھسک جاتی ہے ۔ایسی ہی ایک کہانی میں نے گزشتہ دنوں سنی کہ میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ میں یہ نہیں کہتی کشمیر سے با ہر جانے والی ہر لڑکی کے ساتھ ایساپیش آرہاہے مگر یہ کہانی ہمارے لئے تھوڑا ساeye-opener ہے ۔
میری سہیلی کے ابا دربار مو کے ساتھ ہر سال جموں جاتے ہیں۔ وہاں جموں کے کسی نیک عمل مقامی مسلمان کے ساتھ اُن کادیرینہ دوستانہ ہے ۔ جموں کایہ شخص ایک پیر صاحب کا مرید ہے جو باشرع پیر ہے۔اس پیر صاحب نے اپنے نیکو کارمرید کو بتایا کہ یہاں ہم روز کشمیر یوں کے کٹ مرنے پر خون کے آنسوروتے ہیں، بھلے ہی زبان سے اُن کے ساتھ ہمدردی کا ایک لفظ بھی نہیں نکال سکتے تا کہ ہمیں دیش درورہی کہہ کر اُجاڑا نہ جائے، لیکن خود بعض کشمیر یوں کا حال دیکھو کہ پچھلے دن کشمیر کی ایک پردہ پوش بالغ لڑکی میرے پاس دوبار آئی اور دونوں موقعوں پر اپنے ہمراہ ایک غیر مسلم نوجوان کو ساتھ لائی تھی ۔ پہلی بارمیں پر یشان ہوا کہ یہ کیا ماجرا کہ کشمیر کی ایک پردہ نشین مسلم لڑکی کسی غیر مسلم لڑکے ساتھ میرے پاس آئی ہے۔ ابھی میں نے ان کی آمد کی وجہ پوچھی بھی نہ تھی کہ اُس لڑکی نے لڑکے
( بوائے فرینڈ) کو کمرے سے باہر جانے کو کہا۔ میںاور زیادہ پریشان ہو ا۔ اس لڑکی نے کہا ،پیر صاحب !میری مدد کیجئے، میں کشمیر سے تعلق رکھتی ہوں ، گھروالوں نے مجھے چنڈی گڑھ پڑھنے بھیج دیا ہے مگر مجھے یہاں اس لڑکے سے پیار ہو ا ہے۔ اب میںاس لڑکے سے شادی رچانا چاہتی ہوں مگر یہ کہتا ہے کہ شادی ایک دنیاوی رسم ہے،اُس کی کوئی ضرورت نہیں ،ہم آپس میں فرینڈ بن کر رہیں گے اور ہمیشہ عیش کریں تو کیا ہرج ہے ۔ میں اس پرزور دیتی ہوں کہ نہیں جی یہ ٹھیک نہیں ۔ پیر صاحب ! مجھے چنتا اس بات کی ہے یہ لڑکا اگر کل کو کسی اور لڑکی کا ہوگیا تو میں کیا کروں ۔ اس لئے آپ جھاڑ پھونک سے لڑکے کو میرے سجھاؤ پر رضامند کیجئے ۔ میں نے باؤلی لڑکی سے کہا تمہارا مذہب کی دیوار پھلانگ کر غیر مسلم سے شادی کر نا شرعاً جائز ہی کہاں؟ جب تمہارے حقیقی وارث تمہارے ماں باپ ، بھائی وغیرہ موجود ہوں تو یہ رشتہ تم خود طے نہیں کرسکتی ہو ۔ اُن کی مرضی کے بغیر تم ایک قدم بھی نہیں اٹھاسکتی ہو۔ بیٹی! تم محرم کے بغیر حج پر بھی نہیں جاسکتی ہو کجاکہ اپنی شادی خود کرلو۔ میری پاس تمہارے مسئلے کا کوئی حل نہیں ۔ کیا تم نے اپنے ماں باپ کو اپنی مرضی سے باخبر کیا ہے؟اُن سے اجازت لی ہے ؟ وہ اس پر راضی ہیں ؟ لڑکی نے کہا نہیں، ایساکچھ نہ کیا ، شادی کے بعد میں اُنہیں منالوں گی ۔ میرا پکا یقین ہے وہ میری مرضی سے سمجھوتہ کر ہی لیں گے ۔ میں نے صاف انکار کیا تو وہ مایوس ہو کر چلی گئی مگر جاتے جاتے کہا کہ میں پرسوں پھر آؤں گی ۔ ایک دن بعد وہ دوبارہ آگئی، اس کے ساتھ وہی لڑکا تھا۔ میں نے اُسے تھوڑی سی ڈانٹ پلائی کہ یہاں مت آیا کر ، تمہارے گھرو الوں نے تمہیں چندی گڑھ بھیجا ہے ، وہ سمجھتے ہوں گے بیٹی کچھ پڑھ لکھ کر شان سے بیاہی جائے گی اور تم ہو کہ اُن کی عزت یہاں خاک میں ملارہی ہو،اُن کے خوابوں کو چکنا چور کر رہی ہو ، وہ بھی کسی غیر مسلم کے چکر میں ۔ میری سہیلی کا کہنا ہے کہ پیر صاحب کی ڈانٹ ڈپٹ بے اثر رہی اور لڑکا لڑکی خفا ہوکر وہاں سے چل دئے۔ پیر صاحب کو اس بات سے تکلیف تھی کہ کشمیر میں کتنا خون خرابہ ہورہاہے ، لوگ کن مشکلات میں پڑے ہیں اور کشمیر کی یہ بیٹیاں باہر کیا گل کھلا رہی ہیں ۔ میں یہ نہیں کہتی کو کشمیر کی ساری بیٹیاں ایسی ہیں مگر کیا ضرورت ہے کسی ماں باپ کو جان بوجھ کر اپنی لاڈلی بیٹی اپنی نظروں سے دور نرگ میں بھیجنے کی؟ کیا کشمیر میں اُن کی پڑھائی لکھائی نہیں ہوسکتی؟ کیا بیٹی اور ماں باپ کی عزت،اُن کاوقار انمول شئے نہیں ؟ اے میری قوم! اپنی بیٹیوں کو خداراجیتے جی نہ مار ڈال۔ یہاں ایک مثال دیتی ہو ں کہ غیرت اور حمیت کس چیز کانام ہے ۔ سعودی عرب میں ایک کشمیری ٹیچر کسی عرب شیخ کے بچوں کو پرائیوٹ ٹیوشن پڑھاتا تھا۔ اس عرب شیخ کے مکان کے پچھواڑے میں ایک خشک نالہ تھا جس میں صرف موسلا دار بارش ہونے کی صورت میں تیز بہاؤ پانی کا ریلا بہہ نکلتا۔ایک ایسے ہی موقع پر بارش کا پانی نالے میں طغیانی کی شکل اختیار کر گیا ۔ سُوئے اتفاق سے نالے میں عرب شیخ کی بالغ بچی گر گئی۔ جائے وقوعہ پر موجود پاکستانی اور بنگلہ دیشی مزدوروں نے ڈوبتی بچی کو بچانے کے لئے نالے میں ڈبکی مارنا چاہی مگر باپ نے ا نہیں یہ کہہ کر سختی کے ساتھ منع کیا کہ ہم جیتے جی کسی غیر محرم کو اپنی بیٹی کا بدن چھونے کی اجازت نہیں دے سکتے۔بچی کی زندگی صرف اللہ بچانا چاہے تو بچائے گا،ورنہ اس کا اللہ حافظ۔ یہ عرب شیخ خود نالے میں کو د کر بچی کوسیلاب سے نکال باہر کر نے کی پوزیشن میں نہ تھا۔ اسے کہتے ہیں مردانہ غیرت اور مسلمانیت۔ ہم میں یہ دونوں چیزیں مفقود کیوں ہورہی ہیں ؟ اے قوم! ذرا سا لاج شرم کر !!!! تم پر کوئی غیر دشمنی اور گمراہی کے تیر برسائے تو کوئی حیرانگی نہیں مگر تم خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارو یہ کہاں کی دانائی ہے۔ بیٹی بچاؤ کشمیر بناؤ!