مغرب میں قومیت اور وطنیت خدائیت ہم پلہ ہیں جنہوں نے آج پوری امت مسلمہ کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے قومی، نسلی ، لسانی اور جغرافیائی لحاظ سے کئی حصوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ امت پر خلافت عثمانیہ کے دور سے اس کی یلغار شروع کی۔ خلافت عثمانیہ کو توڑنے کیلئے اس کی ریاستوں میں میر صادق میرجعفر ، اپنے تابع فرمان ایجنٹ تلاش کیے اور افراد کوحب الوطنی اور قوم پرستی پر اُکسایا۔مصری ، شامی ، عراقی، سعودی،یمنی،عمانی، لبنانی، اردانی، ایرانی ، افغانی سب کو درس دیا کہ تمہاری اپنی قومی شناخت ہے ، کلچر ہے، ثقافت ہے ، لسانیت ہے تم ترکی کے زیر اثر خلافت میں کیا کر رہے ہو ؟اس کے زیر اثر تمہارے ا پنے ملک و قوم کا مستقبل کیا ہے؟ کیا تم نے ہمیشہ ایک مرکز پر دوسری قوموں کا غلام بن کر رہنا ہے ؟ الگ الگ ہو کے خود مختاربنو، اپنی اپنی قوم و طن کی شناخت بناؤاور اپنی تمام تر تگ ودؤ اور صلاحیتیں اپنے ملک و قوم کو پروان چڑھانے میں صرف کرو۔ یوں یہ تصور اور درس دے کراہل مغرب نے امت کی مرکزیت کو توڑا، خلافت کو ختم کیا، ایک دوسرے کے احساس ، ہمدردی کے جذ بات کو کچل کر خاک میں گاڑ دیا اور ان کی غیرت کا جنازہ نکال دیااورپھر اسی پر اکتفاء نہ کیا بلکہ پوری امت کو چھوٹی چھوٹی خودمختاری ریاستوں میں بانٹ کر ان ریاستوں میں بھی انتشار اور نفرت کے بیج بونا شروع کر دئے ، لسانی و نسلی بنیادوں پرکہ تم عربی ہو ، تمہاری نسل دوسروں سے اعلیٰ و برتر ہے، تم فارسی ہو،تم ازبک ہو، تم ترکش ہو، تم کرد ہو، تم افغانی ہو، تم سندھی ہو، تم پنجابی ہو، تم بلوچی ہو،تم پختون ہو، اور اب اس بھی آگے کی جاہلیت میں مسلمانوں کو لے جایا جا رہا ہے کہ زبان اور قبیلہ کے نام پر بھی امت کو فرقوں میں تقسیم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ امت کو الگ الگ ٹکڑوں میں بانٹ کے قومی، لسانی، نسلی ، قبائلی غرور ڈالا جا رہا ہے کہ تم ان کے مفاد کے خلاف کسی کے آگے نہ جھکنے، سر تسلیم خم کرنے کو تیار نہ ہونا خواہ وہ تمہارا حقیقی خدا ہی کیوں نہ ہو۔
یہ بت کہ تراشیدہ تہذیبِ نوی ہے
غارت گرِ کاشانہ دین نبوی ﷺ ہے
مسلمانوں کو پہلے تو وطن و قوم کے نام پر مختلف ٹکڑوں میں تقسیم کیا گیاپھر مسلمانوں کو مختلف دینی اور مذہبی عقائد میں تقسیم کرنے کا بیڑہ اٹھایا۔ مختلف آئمہ دین کے قائل و مقلیدلوگوں کو اکسایا کہ تم حنبلی ہو، تم مالکی ہو، تم شافعی ہو، تم حنفی ہو، تم جعفری ہو، تم سلفی ہو، اور صرف یہاں پر ہی بس نہیں کی گئی بلکہ ہر امام کو ماننے والوں میں آگے کئی کئی جماعتیں اور گروہ بنا دئیے۔ ہر کسی کا اپنا امیر و امام مقرر کیا کہ تم اپنا الگ الگ مسلک، عقیدہ کا نظام، سسٹم اور تحریکیں چلاؤ اور ایک دوسرے کے مخالف جذبات کو بھڑکاؤ اور اتحاد و یکجہتی کی وباء تک نہ پھیلنے دو۔ آج ہر کوئی اپنی قوم، اپنے رنگ، اپنی نسل اور اپنے نظریے کو دوسروں سے برتر سمجھتا ہے۔ وہ یہ خیال کرتا ہے کہ برتری صرف اس کے ہاں پائی جاتی ہے اور باقی سب کمتر ہیں۔ یہی تفاخر اور غرور آگے چل کر نفرتوں، چپقلشوں، مقابلوں اور جنگوں کی صورت اختیار کرجاتا ہے جس کے نتیجے میں دنیا کا امن برباد ہوتا جا رہاہے۔ مسلمانوں میں انتشار و مخالفت کے جذبات کو بھڑکاناکفار، یہود و نصاریٰ کی پرانی روش ہے جو حضور ﷺ کےپاک دور سے ہی چلی آتی ہے مگر افسوس کہ مسلمان چودہ سو سال گذر جانے کے باوجود اپنے ازلی دینی دشمنوں کے نہیں پہچان سکے اور نہ ہی ان کی تیز دھار یلغار کے طریقے کو سمجھ سکے۔ابتداء سے لے کر آج تک کے مسلمان انہی زہریلے سانپوں سے ڈستے چلے آئے اور آج تک اسی عطارکے لونڈے سے دواء لینے پر مصر ہیں۔حضور ﷺ کے دورِ رسالت میں یہود میں مرشاس بن قیس نامی شخص مسلمانوں سے سخت دشمنی رکھتا تھا اس نے جب انصار میں محبت اور الفت کا معاملہ دیکھا تو اس نے ایک یہودی نوجوان سے کہا کہ تم ان کے درمیان بیٹھ کر جنگ بعاث کا ذکر کرو جو ماضی میں انصار کے قبائل اوس اور خزرج کے درمیان لڑی گئی تھی تاکہ ان کی محبت اور الفت قوم پرستی کے جذبے سے مغلوب ہوکر ختم ہوجائے۔ اس نوجوان نے مسلمانوں میں بیٹھ کر وہی ذکر چھیڑا اور آگ بھڑکائی یہاں تک کہ انصار کے دونوں قبائل میں سخت کلامی شروع ہوگئی اور ہتھیار اٹھا کرپھر جنگ کرنے تک اتر آئے۔ یہ خبر جب حضور ﷺتک پہنچی تو آپﷺ اپنے صحابہ کے ساتھ تشریف لائے اور فرمایا اے مسلمانوں! یہ کیا حرکت ہے کہ تم جاہلیت کے دعوے کرتے ہو حالانکہ میں تمہارے اندر موجود ہوں اور خدا نے تمہیں ہدایت دے دی اور اسلام کی بزرگی بخشی اور جاہلیت کی سب باتیں تم سے ختم کردیں اورتمہاری آپس میں محبت اور الفت قائم کردی۔ اس وقت دونوں گروہوں کو معلوم ہوا کہ یہ ایک شیطانی وسوسہ تھا جس میں ہم مبتلا ہوگئے تھے پھر وہ رو پڑے اور آپس میں ایک دوسرے کے گلے لگے۔اسی طرح کا واقعہ ایک غزوہ میں رونما ہوا جب ایک انصاری اور مہاجر صحابی کے درمیان کسی بات پر تلخ کلامی ہوئی تو دونوں نے اپنی اپنی قوم کو مدد کیلئے بلایا اس پر باہم لڑائی کی نوبت آپہنچی تو رسول اللہ ﷺنے ان کے اس قوم پرستی پر مبنی فعل کو جاہلیت کا نعرہ قرار دیا۔ اس کے بعد ان صحابہ کرام کے درمیان صلح ہوگئی اور وہ قوم پرستی کے اس نعرے پر نادم ہوئے۔
اسلام میں قوم پرستی صرف حرام ہی نہیں بلکہ اس کو جہالت کہا گیا ہے،یہ ایسی جہالت ہے جو قوموں کو زوال کی طرف لے جاتی ہے اور اسلام میں لوگوں کو قوموں کی سطح پر تقسیم در تقسیم کردیتی ہے اسلام جو واحدت و اتفاق کا درس دیتا ہے یہ قوم پرستی اسلام کی واحدت کو پاراپارا کردیتی ہے۔ ہمارے آقاو مولا ﷺ نے قوم پرستی، وطن پرستی کے نعرہ کو عملی طور پر خاک میں دفن کر دیا اور دین کو قوم اور وطن پر فوقیت دی ، دین کی اشاعت و تنفیذ کی خاطر اپنے وطن، قوم اور قبیلے تک کو ترک کر دیا۔ جبکہ ہم وطن اور قوم اور مفاد کی خاطر اپنے دین تک کو ترک کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ایک مسلمان سب سے پہلے ایک مسلم یعنی اللہ کا مطیع اور سب انسانوں کا خیر خواہ ہے ، جس نے بھی اللہ رب العزت کی وحدانیت اور حضرت محمد ﷺ کی رسالت کا اقرار کیا اور کلمہ پڑھا اور اس کی منشوعات کو پورا کیا وہ مسلمان ہو گیا، اب اس کی جان و مال دوسرے مسلمان پر حرام ہوگئی اور حضور ﷺ نے سچا مومن مسلمان اس شخص کو قرار دیا جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ اور پھر حضور ﷺ نے ایک مسلمان کی جان مال، عزت وآبرو اور عزت نفس کے تحفظ کوبیت اللہ کے تحفظ و حرمت سے بھی زیادہ بڑھ کر قرار دے دیا۔حضور ﷺ کا بیت اللہ شریف کی تکریم و حرمت سے بڑھ کر قرار دینے کا مقصد یہ تھا کہ کوئی غلطی سے بھی کسی مسلمان کی تنزلی و رسوائی کی جسارت نہ کر سکتے ۔ مگر کیا وجہ ہے کہ آج کا مسلمان کعبے کی حرمت پر تو اپنا تن من دھن سب قربان کرنے کو تیار ہے مگر اس سے بڑھ کر تکریم کے لائق مسلمانوں کی شہ رگیں کانٹے پے تلا ہے؟ایک مسلمان کیلئے سب سے پہلے اور سب سے قیمتی چیز ایمان ہے اور ایمان کااولین تقاضا ہے کہ اپنے دوسرے مسلمان بھائیوں کی جان ، مال، عزت و آبرو، مفاد کے تحفظ کیلئے اپنا سب کچھ قربان کر دے اور کسی صورت ان سے پیچھے نہ ہٹے، اس کا سایہ ان دوسرے مسلمان بھائیوں پر بادل کے سایہ بان اور آسمان کی چھت کی طرح چھایا رہے ، وہ کسی بھی میدان میں خود کو تنہا اور بے یارو مددگار تصور نہ کرے۔ہمارا دین اسلام کسی ذات پات، رنگ ،نسل اور قومیت کی فضیلت ، دولت کی کثرت اور سرحدی زمینی حقائق کو نہیں مانتا بلکہ صرف اورصرف تقویٰ اور پرہیزگاری کو ہی فضیلت کامعیار قرار دیتا ہے اورقوم پرستی کی بنیاد پر رونما ہونے والے اختلافات کا قلع قمع کرتا ہے ۔دین اسلام اپنے ماننے والوں کو علاقے اور زبان کی بنیاد پر تقسیم ہونے سے بچاتا ہے اور انہیں ایک ہی لڑی میں پرو کر بنیان مرصوص یعنی سیسہ پلائی ہوئی دیوار بننے کی تلقین کرتا ہے۔ہمارا دین ہمیں ایک قوم پرست گروہ بننے کی بجائے ایک امت بننے کا حکم دیتا ہے جو خالصتاً اخلاقی اصولوں کی بنیاد پر اٹھے اور دنیا میں حق وصداقت کا پرچار کرے۔ اگر ہم اپنے دین کی تعلیمات سے صحیح معنوں میں فیض یاب ہونا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے اندر سے ہرقسم کے تعصبات اور امتیازات کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ اس وقت ہمارے معاشرے کی یہ ضرورت ہے کہ نسلی اور قومی امتیازات کے خلا ف اسلام کی ان تمام تعلیمات کو عام کیا جائے اور معاشرتی نظام کو عدل اور مساوات کے اسلامی اصولوں کے تحت استوار کیا جائے۔اس مقصد کے حصول کیلئے ہمیں سیرت طیبہ ؐاور خلافت راشدہ سے بہترین نصاب اور رول ماڈل کہیں اور نہیں مل سکتا۔ آج یہود و نصاریٰ نے باہم مل کر نہایت ہوشیاری و چالاکی سے ہمارے راستوں میں اتنے زیادہ کانٹے اورجال بچھا دیے ہیں کہ ان کو کاٹنا مشکل سے مشکل تر ہوتاجارہا ہے اور مسلمان علم و شعور کی کمی کی وجہ سے قوم پرست، خود غرض، خود نما، مفاد پرست رہنماوں، حکمرانوں کے دنگل میں پھنسے ہوئے ہیں۔یہ نفس پرست رہنمادجالوں کے کہنے پر امت کو باہم متحارب کرنے کی ناپاک جسارتیں کررہے ہیں، یہ اس دنیا میں تو شاید کچھ ذاتی فوائد حاصل کرلیں مگر ان ظالموں کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوگا کیونکہ ایک انسان کی زندگی بچانا گویا پوری انسانیت کو بچانا ہے اور ایک انسان کو بلاوجہ قتل کرنا گویا پوری انسانیت کا قتل کرنا ہے اور امت میں فتنہ پیدا کرناقتل سے بھی بدتر ہے اور قوم پرستی کی دعوت جاہلیت کی دعوت ہے ۔
عرب معاشرہ جو قوم پرستی کے رنگ میں رنگا ہوا تھاخالصتاً تعلیمات نبویﷺ کی روشنی میں قومیت کے بجائے وحدتِ امت کے فلسفے سے آشنا ہوا اور اس میں ایک روشن مثال قائم کی، صحابہ کرامؓ کی جماعت میں حبشہ کے بلال رضی اللہ عنہ، روم کے صہیب رضی اللہ عنہ،فارس کے سلمان رضی اللہ عنہ اور اشعرقبیلہ کے موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو وہی مقام حاصل تھا جوکسی بھی قریشی اور مقامی صحابہ ؓکا تھا ۔ صحابہ کرامؓ نے قومیت کے بدبودار اثرات کو زائل کیا۔ مختلف اقوام سے متعلقہ افراد رشتہ اسلام کی لڑی میں باہم جڑ کر کفر کے مقابل سیسہ پلائی دیوار بنے تو اللہ کی نصرت اتری اور بہت کم عرصہ میں اسلام چہار سمت پورے عالم میں پھیل گیا۔ آج بھی امت کے غلبے کا راز یہی ہے کہ’’ قومیت‘‘ کے تفرقوں میں بٹنے کی بجائے ’’اُمت‘‘ بننے کو ترجیح دیں۔ جب مسلمان قوم بٹنے کے بجائے ایک امت بنے گی تو ان کے غلبے کو دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔ مغرب کے ان عیارو مکار خاموش ہتھیاروں نے اسلام کو بہت نقصان پہنچایا اور پہنچا رہے ہیں۔ اسلام سے اس کا حُسن چھیننے میںیہ ہتھیار، اسلام سے مرکزیت چھیننے میںیہ ہتھیار ، مسلمانوں سے اسلامی طرز زندگی،اسلامی نظریہ حیات، اسلامی اصول و ضوابط، اسلامی اقدار و روایات،اسلامی تمدن چھیننے میں یہ ہتھیار، مسلمانوں کو دین سے دور اور بیزار کرنے میں یہ ہتھیار، مسلمانوں سے اسلامی اخوت، بھائی چارہ، ایک دوسرے کی ہمدردی، احساس، الفت و محبت کے جذبہ کو ختم کرنے میں یہ ہتھیار، مسلمانوں سے اللہ و رسول ﷺ کی محبت اور دینی لگاؤ ختم کرنے میں یہ ہتھیار، مسلمانوں سے اسلامی فکراور غیرت کو خاک برد کرنے میں مغرب کے یہ خاموش ہتھیار استعمال ہوئے اور ہورہے ہیں ۔اتنا کچھ دیکھنے کے باوجود ہم کتنے احمق اور کند ذہن جانوروں سے بھی بد تر ہیں کہ ابھی تک مغرب کی اس یلغار اور اس کی مکاری و عیاری کو سمجھ نہیں سکے جب کہ ہمارے کم ظرف حکمران آج بھی بڑے سلیقے اور فخر سے باطل سے ناطہ جوڑے ہیں، اور قوم کو اس کی جبری اطاعت پر آنے کی ظالمانہ کوشش کرتے ہیں۔ یہ لوگ نہ حق بات بولتے ہیں، نہ حق سنتے ہیں نہ حق سمجھتے ہیں، کان، آنکھ، زبان اور دل و دماغ رکھتے ہیں مگر ان سے کام نہیں لیتے۔ تخلیق آدم کا مقصد کرہ ارض پر خلافتِ الٰہی کا قیام تھا ۔ گویا کہ اللہ رب العزت نے چاہاکہ زمین پر تمام مخلوقات کی بھلائی و بہتری کیلئے اپنا نائب اور خلیفہ بھیج دے تا کہ یہاں کی زندگی اور دیگر معاملات کو قدرت الٰہی کے دھارے میں شامل کر کے ان کیلئے راحت و آسودگی اور مساوات وحق بینی کا سامان فراہم کرے۔ قرآنی آیات اور احادیث نبوی ﷺ سے یہ بخوبی واضح ہو جاتا ہے کہ خلافت اللہ تعالیٰ کے احکامات و ہدایات کی تعمیل ،فرمانبرداری اور اطاعت کو مضبوط اور موثر بنانے کیلئے ایمانی میکانزم کا نام ہے ، اس کا سربراہ جسے عرف عام میں خلیفہ یاامیرالمومنین کا کہا جاتا ہے محض احکام الٰہی کی تعمیل اور تنفیذ کانگران ہوتا ہے ،وہ سوائے اپنے رب کے احکام و ہدایات اور سیرت طیبہؐ یا نصوص کی روشنی میں اجتہاد کے علاوہ اپنی طرف سے کوئی حکم یا قانون نافذ نہیں کر سکتا۔اس کے بر عکس دجالی جمہوریت ، ملوکیت اور آمریت انتہائی مردود، فرسودہ اور ناقابل اعتبار شیطانی نظام کے داعی ہیں اور یہ امت مسلمہ کی طرزِ زندگی سے کسی صورت بھی مطابقت و موافقت نہیں رکھتے ۔حکیم الامت حضرت ڈاکٹر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎
خلافت فقر با تاج و سریراست
زہے دولت کہ پایاں ناپذیر است
جوان بختا ! مدہ از دست این فقر
کہ جزا و پادشاہی زد و میر است
یعنی خلافت در حقیقت تاج و تخت کے ساتھ فقیری و درویشی کا نام ہے اورخلافت وہ عجیب دولت ہے جو زوال ناپذیر ہے ۔ اے جوان بخت ! اس فقر در خلافت کو اپنے ہاتھ سے نہ جانے دینا کیونکہ اس کے بغیر سلطنت اور بادشاہت جلد مر مٹنے والی چیزیں ہیں ۔حکیم الامت حضرت علامہ ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ ان خود غرض ملوک و سلاطین سے تنگ آکر اس امید میں تھے کہ ایک فقیر بے کلاہ ، بے گلیم ایک نہ ایک دن ضرور ان خود غرضوں سے مشت و گریباں ہوگا۔ جمہوریت ، ملوکیت اور آمریت سے الجھ جائے گا اور ان کی جعلی خدائی کوزمین بوس کرکے چراغ خلافت کو اپنے خون سے روشن کرے گا ۔تمام مسلمان ، تمام فرقے ، تمام گروہ ، تمام اسلامی ریاستیں اپنے تمام باہمی اختلافات اور ماضی کی تلخیوں کو بھلا کر اللہ عزوجل اور اس کے پیارے رسول ﷺ کے نام پر ، ان کی رضا کی خاطر ، صرف اور صرف اسلام اوراہل اسلام کی عظمت ، سربلندی، عزت ووقار اور سلامتی و بقاء کی خاطر ایک مرکز پر اکٹھے ہو جائیں ، آپس میں باہمی تعاون، اتحاد ، اتفاق،اخوت ،ہمدردی و مساوات کو فروغ دیں کیونکہ آج جتنی ہمیں ان چیزوں کی ضرورت ہے شاید کہ اس سے پہلے کبھی نہ تھی ۔