پرویز احمد
سرینگر //وادی میں پلاسٹک بوتل بند پانی کی خرید و فروخت بلا کسی روک ٹوک کے جاری ہے اور روزانہ لاکھوں لوگ اس کا استعمال کررہے ہیں۔اس سے ماحولیات پر سنگین اثرات مرتب ہونے کیساتھ ساتھ انسانی صحت بھی اثرانداز ہورہا ہے۔ کولمبیا اور رٹگرز یونیورسٹیوںکے محققین نے اپنی تازہ تحقیقی رپورٹ میںکہا ہے کہ بوتل بند پانی کے ایک لیٹر میں100اقسام کی پلاسٹک کے 2لاکھ 40ہزار ذرات موجود ہوتے ہیں جو انسانی جسم میں جاکر کینسر اور دیگرکئی بیماریوں کا سبب بنتے ہیں۔ پلاسٹک اجزاء میں سے 90فیصد نینو پارٹیکلز( نہ دکھائی دینے والے ذرات) اور باقی 10فیصد مائیکرو ( انتہائی چھوٹے) زرے ہوتے ہیں۔ بوتل بند پانی میں موجود ہونے والے والے 1000اقسام کے زرات میں یہ طاقت ہوتی ہے کہ یہ انسان کے معدے سے گزر کر خون میں شامل ہوتے ہیں اور کینسر اور دیگر بیماریوں کا سبب بنتے ہیں۔ وادی میں اوسطاً روزانہ 1لاکھ سے زائد بوتل بند پانی کا استعمال ہورہا ہے۔ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے تخمینے کے مطابق ترقی پذیر ممالک میںتمام بیماریوں کی 80 فیصد وجوہات آلودہ پانی ہے اور ہر سال تقریباً 25 ملین اموات اس کی وجہ سے ہوتی ہیں۔آج پیکڈ پینے کا پانی ہندوستان میں ایک صنعت ہے جس کا تخمینہ 700 کروڑ روپے ہے۔مارکیٹ میں 200سے زیادہ برانڈز ہیں، جن میں سے زیادہ تر کی تقسیم کی حدود محدود ہیں۔ یہ ہندوستان میں ایک بڑھتی ہوئی مارکیٹ ہے اور ملک میںہر سال ایک اندازے کے مطابق 800 ملین لیٹر پلاسٹک بوتل بند پانی کی فروخت کی جاتی ہے۔ تحقیقی رپورٹ کے مطابق’’ بوتل بند پانی کی دو اقسام ہیں، ایک قدرتی پانی اور دوسرا پیکڈ(Packed) پانی‘‘۔ قدرتی پانی جھرنوں سے لیا جاتا ہے اور اس کا نمبر IS13428 ہوتا ہے، چونکہ یہ پانی قدرتی ہوتا ہے اور اس لئے اس میں کیمیات کا استعمال نہیں کیا جاتا ۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ قدرتی پانی میں نہ تو کلورین،اور نہ کسی دیگر کیمیائی ادویات استعمال ہوتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ ایسا کرنے پر پابندی بھی ہے کیونکہ کیمیائی جزیات ملانے سے اسکا رنگ تبدیل ہوجاتا ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے’’ دوسری قسم پیکڈ(Packed) پانی کی ہوتی ہے، جسے کیمیائی جزیات سے صاف کیا جاتا ہے اور اس میں pH کی مقدار 5ہوتی ہے۔ (pH ایک پیمانہ ہے کہ تیزابیت/بنیادی پانی کتنا ہے)۔طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ انسانی معدے میں تیز آب پہلے سے موجود ہوتا ہے جب قدرتی پانی پیا جاتا ہے تو نظام ہاضمہ جلد کام کرنے لگتاہے اور بھوک بھی لگتی ہے لیکن پیکڈ پانی میں pH کی مقدار 5 چونکہ ہوتی ہے ، لہٰذایہ معدے کے تیز آب سے ملکر بد ہضمی پیدا کرتا ہے اور اسی پانی کی وجہ سے اکثر لوگوں کو بد ہضمی کی شکایت ہوتی ہیں۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے’’ ایک لیٹر پیکڈ بوتل میں 750گرام پانی اور 250گرام کیمیات ہوتے ہیں‘‘۔ ان کیمیات میں کلورین، فلورائیڈ،میگنشم اور پوٹاشم کے علاوہ دیگر کیمیائی ادویات شامل ہیں۔ پیکڈ پانی کو فروخت کرنے کیلئیجن پلاسٹک بوتلوں کا استعمال ہوتا ہے وہ پنجاب میں دوبارہ بنائی جاتی ہیں جبکہ فوڈ سیفٹی کے قوائد و ضوابط کے مطابق اس بوتل کو صرف ایک ہی بار استعمال کرنا لازمی ہے۔پیکڈ پانی کیلئے استعمال ہونے والی پلاسٹک بوتل کا ڈی او پی(Degree of polarisation ،ایک مقدار، جو برقی مقناطیسی حصے کو بیان کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہے) 21گرام ہونا چاہئے لیکن پنجاب میں ری سائیکل ہونے والی بوتلوں کا ڈی اوپی صرف 16گرام ہوتا ہے کیونکہ اس بوتل کو ٹھوس بنانے کیلئے بھی کیمیات کا استعمال کیا جاتا ہے اور اسی وجہ سے نہ صرف بوتل ٹھوس بنتی ہے بلکہ پانی بھی کافی دیر تک رہتا ہے، اور اسی وجہ سے اس میں کھٹا س محسوس کی جاتی ہے۔یہ امر قابل ذکر ہے کہ بیوو آف سٹینڈاڑ(BIS)، جو کہ ملکی سطح پر کھانے پینے کی چیزوں کے معیار کو پرکھنے کی سرٹیفکیٹ عطا کرتا ہے، نے بوتل بند پانی کی برآمد اور در آمد پر پابندی عائدکی ہے۔انڈین فوڈ سٹینڈارڈ ایکٹ مجریہ 2004میں صاف طور پر لکھا ہے( بوتل استعمال کرنے کے بعد توڑنی چاہیے)۔ماہرین طب کا کہنا ہے کہ پانی صاف کرنے کیلئے استعمال ہونے والی کیمیات اور غیر معیاری طور پر بوتلوں کے استعمال سے ہی پلاسٹک کے ذرات نظام ہاضمہ سے گزرکر خون کے ساتھ ملکر مختلف بیماریوں کا سبب بنتے ہیں جن میں کینسر بھی شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ قدرتی پانی میں مختلف قسم کے معدنیات موجود ہوتے ہیں جو صحت کیلئے اچھے اور برے بھی ہوتے ہیں لیکن پیکڈ (سیل) بندپانی میں کسی قسم کا کوئی بھی منرل نہیں ہوتا اوروہ تابکاری کرنوں سے تباہ ہوجاتے ہیں۔ پولیوشن کنٹرول بورڈ حکام کے مطابق بوتل بند پانی پر کئی بار تحقیقاتی رپورٹیں تیار کی گئی ہیں۔انہوں نے کہا کہ فوڈ سیفٹی ایکٹ کے تحت جو بھی پانی سیل کیا جاتا ہے اسکے لئے باضابطہ طور پر معیار وضع کیا گیا ہے اور ان پر ہی عملدر آمد کیا جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ خلاف ورزی جہاں کہیں بھی کی جاتی ہے وہاں کارروائی عمل میں لائی جاتی ہے۔