ڈاکٹر مسعود
مشہور کہاوت ہے کہ سو مریں ،سو کا سردار نہ مرے۔اس کہاوت کی منطق یہ ہے کہ سردار مزید سو جانباز پیدا کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔مذکورہ کہاوت کا ظاہری تعلق تو میدان جنگ یا جنگی صورت حال سے ہے تاہم زندگی سے جڑے دوسرے شعبوں میں بھی اسے آزمایا جا سکتا ہے۔قومیں بغیر لیڈر کے اپنے وجود کا اعتراف نہیں کر پاتی ہیں۔علامہ اقبال کے لفظوں میں انہیںـ’’ متاع کارواںکا جانا‘‘ تو دور’’ احساس زیاں‘‘ تک نہیں ہو پاتا۔یہ لیڈر ہی ہوتا ہے جو قوموں کو زندہ رکھتا ہے۔ان کے تشخص اور وقار کی لڑائی لڑتا ہے۔انہیں متحرک اور بامقصد ہونے کا احساس دلاتا ہے۔آج راقم کا موضوع ایسی ہی ایک شخصیت ہے جو لیڈریا سردار کی تعریف پرکما حقہ کھرا اترتی نظر آتی ہے۔
11جنوری 2025ء کی صبح سوشل میڈیا کی مختلف سائٹس پر یہ خبر گردش کرتی ملی کہ مولوی شمس الدین نہیں رہے۔انا للہ واناالیہ راجعون۔اس خبر نے پہلے پہل چونکایا۔پھر دل و دماغ نے جذبات کی ڈوری کو چھوڑ کر موت کی حقیقت کو تسلیم کرنے میں ہی عافیت سمجھی۔دنیا کے متعدد گوشوں سے بھیجے جانے والے سیکڑوں تعزیتی پیغامات نظروں سے گزرے۔ہر پیغام مولانا کی شخصیت کے متنوع جہات کو بیان کرتا پایا گیا۔ہر پیغام نری جذباتیت کے بجائے سچائی سے مملو نظر آیا۔درجنوں آنکھیں اشک بار تھیں۔بیسیوں دل مغموم تھے۔ہر کوئی اپنے اپنے انداز میں حضرت کے انتقال پر ملال پر رنج و غم کا اظہار کر رہا تھا۔راقم کے لیے مولانا شمس الدین صاحب کا انتقال کئی اعتبار سے باعث نقصان ٹھہرا۔ایک تو یہ کہ حضرت میرے پہلے استاد تھے۔انھوں نے مجھے حرف کی پہچان کروائی۔ان کا یہ احسان ایسا ہے جسے کسی بھی قیمت پر نہیں چکایا جا سکتا۔دوسرا اور بڑا نقصان اجتماعی نوعیت کا ہے اور ذرا تفصیل طلب ہے۔
مولانا کی شخصیت متنوع اور کثیر الجہت تھی۔وہ بیک وقت ایک عالم با عمل،ایک مصلح قوم،مدبر،اعلا سیاسی بصیرت کے حامل،سماجی خدمات کے پیکر،منصف مزاج اور دنیاوی تعلیم کے مبلغ تھے۔ان تمام صفات کے باوجود ان کی شخصیت سادگی کا منہ بولتا ثبوت تھی۔وہ سادگی میں جینے کے قائل ضرور تھے تاہم خیالات کی عمدگی کے مضبوط وکیل تھے۔انھوں نے آج سے تقریباً پچپن چھپن برس قبل ایشیا کی عظیم دینی درسگاہ دارلعلوم دیوبند سے تعلیم حاصل کی۔یہ وہ دورتھا جب دینی یا دنیاوی تعلیم کی عوام و خاص میں کوئی اہمیت نہ تھی۔بلکہ جو کوئی تعلیم حاصل کرنے کا منصوبہ بناتا اسے سماج میں بے کار اور نافرمان تصور کیا جاتاتھا۔ایسے میں مولانا اور ان کے ساتھیوں کو پڑھائی سے رغبت کیوں کر ہوئی ؟یہ عقدہ تا دم تحریر کھل نہیں پایا۔اسے مشیت ایزدی پر محمول کرنا ہی دانش مندی ہے۔اللہ جب کسی قوم ،گروہ یا عوام پر مہربان ہوتاہے تو وہ انھی میں سے کچھ لوگوں کو اپنے دین متین کی خدمت کے لیے چن لیتا ہے۔خدا معلوم گائوں اڑائی کے کس بزرگ کی آہ سرد عرش سے ٹکرائی اور چند نوجوانوں نے گھر سے میلوں دور تعلیم حاصل کرنے کی خاطر رخت سفر باندھا۔تعلیم مکمل کرنے کے بعد مولانا کے ساتھیوں نے اپنی استطاعت کے مطابق الگ الگ جگہوں پر مکاتب قائم کیے۔یہ سبھی مکاتب آج بڑے مدرسوں کی شکل میں موجود ہیں۔مولانا شمس الدین مرحوم کا اختصاص یہ رہا کہ انھوںنے اپنے گائوں اڑائی میں ہی دین کی درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا۔
اڑائی میں اس وقت نہ جانے کیسی کیسی خرافات مذہب کی آڑ میں رائج تھیں۔عجیب و غریب رسم رواج جن کا مذہب اسلام سے دور دور تک کوئی واسطہ نہ تھا بڑے زور و شور سے پروان چڑھ رہے تھے۔نماز و روزہ کی پابندی بھی اپنی سہولت کے اعتبار سے یا عادتاً کی جا رہی تھی۔ڈھول باجے کے بغیر کسی عوامی اجتماع کا تصور ناپید تھا۔مَردوں میں مونچھیں رکھنے اور تائو دیناغیر معمولی فعل تھا۔شادی بیاہ کے موقعوں پر ناچ گانوں کے ساتھ جو بھی فعل من کو بھاتا اسے کر گزرنے میں کوئی تامل نہ تھا۔ایسے میں مولانا مرحوم نے ایک صدائے حق بلند کی۔لوگوں سے دین متین کو سیکھنے ،سمجھنے اور عمل پیرا ہونے کی گزارش کی۔نماز و روزہ کی اہمیت کواجاگر کیا۔عوام سے رسم و رواج کوچھوڑ کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑنے کی تلقین کی۔ظاہر ہے کہ اس اعلان پر انھیں حد سے زیادہ مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔وہ Reformer تھے ۔ معاشرے میں ریفارم لانا سب سے مشکل کام ہوتا ہے۔اس میں مخالفت کے خدشے کے ساتھ ساتھ ناکامیاب ہونے کا خوف بھی شامل ہوتا ہے۔قربان جائیے مولانا کے عزم و ہمت اور استقلال کے کہ ان کے آگے بڑھے ہوئے پائوں کو جنبش ہوئی اور نہ قدم ڈگمگائے۔وہ ایک visionaryشخص تھے۔ایک بڑے مشن کے ساتھ آگے بڑھنا چاہتے تھے۔اس کے لیے استقلال بنیادی ضرورت تھی۔وہ ڈٹے رہے لیکن اپنے مشن سے ہٹے نہیں۔مخالفت ہوئی اور ضرور ہوئی ۔اس میں بھی مولانا نے تعمیری پہلو ڈھونڈ نکالا۔اگر ان کے عزم و استقلال کو دیکھنا ہو تو جامعہ تعلیم القرآن و جامعتہ الصالحات اور جامعہ کی اکیڈمی کو ایک نظر دیکھ لیجیے۔
مرحوم کی تدریسی خدمات کی اہمیت بجا ان کی سیاسی اور سماجی خدمات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔وہ وقت کے پارکھ تھے۔سیاسی اعتبار سے ہمیشہ وہی اسٹینڈ لیتے جو عوامی مفاد میں ہوتا۔ذاتی اور قومی تعصب سے انھیں خدا واسطے کا بیر تھا۔سماجی اعتبار سے وہ ہر شخص کو باوقار زندگی جیتے دیکھنا چاہتے تھے۔کمزور اور ضرورت مند کی مدد کے لیے پیش پیش رہتے اور اپنے جاننے والوں سے بھی ان کی معاونت کرواتے۔آج ان کے جانے سے نہ معلوم کتنے ایسے ضرورت مند یتیم ہوئے جن کی مدد وہ خاموشی سے کرتے رہتے تھے۔ان تمام کی دعائیں بلاشبہ مولانا کو جنت کے اعلا درجات پر فائز کریں گی۔مولانا کی امیج larger than life تھی۔ایسے لوگوں کو نابغہ روزگار کہا جاتا ہے۔یہ صدیوں میں ایک پیدا ہواکرتی ہیں۔میں دعا گو ہوں کہ اللہ ہمیں جلد مولانا کا نعم البدل عطا کرے۔انھیں بہترین خراج یہی ہے کہ ان کے مشن کو اپنی اصل روح کے ساتھ آگے بڑھایا جائے۔سماج میں انصاف کا ماحول قائم کیا جائے۔امیر و غریب کی تفریق کو کم کیا جائے۔مسلکی نفرت کو مٹایا جائے۔ایک خوش حال،صحت مند اور کامیاب معاشرے کی تعمیر عمل میں لائی جائے۔دینی و عصری تعلیم کے نئے معرکوں کو سر کیا جائے۔یہی اعمال ان کی روح کو سکون بخشیں گے۔وہ اپنے حصے کا رول ادا کر گئے اب میری اور آپ کی باری ہے۔اللہ انھیں غریق رحمت کرے۔بقول اکبر الہ آبادی
ہماری باتیں ہی باتیں ہیں سید کام کرتا ہے
نہ بھولو فرق جو ہے کہنے والے کرنے والے میں
کہا جو چاہے کوئی میں تو کہتا ہوں کہ اے اکبرـؔ
خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں
(مضمون نگار کنسلٹنٹ انٹرپریٹر ،لوک سبھا سکریٹریٹ،نئی دہلی ہیں)
رابطہ۔9797303914