بلال فرقا نی
سرینگر// ڈویژنل کمشنر، وی کے بیدھوری نے ہفتہ کو اپریل سے اس کے مجوزہ نفاذ پر اٹھنے والے ہنگامے کے درمیان کہا کہ جموں و کشمیر میں پراپرٹی ٹیکس کی شرح نسبتاً کم ہے اور اس اقدام کا مقصد لوگوں کے لیے بہتر سہولیات کو یقینی بنانا ہے۔ ہفتے کو نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے، بیدھوری نے کہا کہ جموں و کشمیر ان ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں آخری ہے جہاں یہ ٹیکس نافذ کیا گیا ہے۔بیدھوری، جو سرینگر میونسپل کارپوریشن (ایس ایم سی) کمشنر، اطہر عامر خان کے ہمراہ تھے، نے کہا کہ پراپرٹی ٹیکس شہری بلدیاتی اداروں کی آمدنی کا بنیادی ذریعہ ہے۔انہوں نے کہا’’پراپرٹی ٹیکس میونسپلٹی کی آمدنی کا بنیادی ذریعہ ہے، یہ ایک ترقی پسند ٹیکس ہے اور یہ پورے اسپیکٹرم پر یکساں طور پر نہیں لگایا جاتا ہے، غریب لوگوں کو امیروں کی طرح ٹیکس ادا نہیں کرنا پڑے گا جن کے پاس زیادہ اثاثے ہیں‘‘۔ڈویڑنل کمشنر نے کہا کہ یہ ٹیکس صرف شہری علاقوں میں لگایا جا رہا ہے نہ کہ دیہی علاقوں میں۔انہوں نے کہا’’زرعی زمین اس سے مستثنیٰ ہے۔ 1000 مربع فٹ تک کا رہائشی مکان مستثنیٰ ہے،لہٰذا، یوٹی میں آبادی کا ایک تہائی پہلے ہی مستثنیٰ ہے، دیگر ریاستوں/ مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے مقابلے ٹیکس کی شرح بہت کم ہے‘‘۔بیدھوری نے کہا کہ ٹیکس سال میں ایک بار ادا کرنا ہوگا اور رقم میونسپلٹی کے اکاؤنٹ میں جمع ہوجائے گی۔انہوں نے مزید کہا کہ جمع کی گئی رقم عوام کے لیے بہتر سہولیات کو یقینی بنانے کے لیے استعمال کی جائے گی۔بیدھوری نے مزید کہا کہ لوگوں کو بہتر سہولیات کو یقینی بنانے کے لیے قابل قبول پراپرٹی ٹیکس عائد کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ میونسپل کارپوریشن کمشنر عامر اطہرنے کہا کہ اپریل سے عوام سے جو ٹیکس وصول کیا جائے گا اس کا استعمال لوگوں کو بہتر سہولیات فراہم کرنے کے لیے کیا جائے گا۔ انکا کہنا تھا کہ موجودہ آمدنی ضرورت کے مقابلے میں صرف دس فیصد ہے اور جائیداد ٹیکس سے لوگوں کو بہتر خدمات اور سہولیات کو یقینی بنانے میں مدد ملے گی کیونکہ ٹیکس کو مرکزی یا ریاستی حکومت کو منتقل نہیں کیا جا سکتا اور اسے صرف ترقیاتی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
ایک تہائی آبادی ٹیکس سے مستثنیٰ | شہری بلدیاتی اداروں کی آمدن کا ذریعہ: صوبائی کمشنر
