ایک بھُول

حبیب ہمراز
آرتی نے اسی سال گریجویشن مکمل کرکے پی جی  فسٹ ائر میں داخلہ لیا۔ یونیورسٹی میں اسکو نئے اساتذہ، نئے دوستوں اور سہیلیوں سے واسطہ پڑا۔اس نے اپنی ممی پروفیسر رجنی کا موازنہ دوسرے پروفیسروں اور لیکچراروں سے کیا۔لیکن اسکو گھر کی طرح ہی گُم صُم خاموش اور پریشان حال پایا۔اسکا خیال تھا کہ گھر پر نہ سہی لیکن اپنی ڈیوٹی پر وہ ضرور خوش و خرم رہتی ہوگی اور کسی ذہنی دباؤ میں نہیں ہوگی۔لیکن آرتی کا خیال غلط ثابت ہوا۔وہ سوچ کے صحراؤں میں کھو گئی اور بڑبڑانے لگی۔!!ممی کو کوئی غم اندر ہی اندر کھوکھلا کئے جارہا ہے۔اُس نے کوئی خاص راز اپنے سینے میں دفن کرکے رکھے ہیں،جو اب ناسُور بن چکے ہیں۔اسلئےاب صرف ہڈیوں کا ڈھانچہ رہ گئی ہے۔صحت بگڑ چکی ہے۔جب میں ماضی کے متعلق کچھ پوچھتی ہوںتو بڑی چالاکی سے ٹال دیتی ہے۔خاص کر پتاجی کے متعلق وہ بالکل خاموش رہتی ہے کہ وہ کیسے سرگھاش ہوئے اور کونسی بیماری میں مبتلا تھے۔۔کچھ تو بات ہے ورنہ سب کچھ میسر ہے۔اتنی بڑی تنخواہ ہے۔مکان اور باقی سہولیات فراہم ہیں۔میں اکیلی اولاد ہوں۔۔آرتی خود پریشان رہنے لگی۔

یونیورسٹی گرمائی تعطیلات کیلئے بند ہوگئی۔آرتی نے ممی کو ایک لمحے کیلئے بھی اپنے سے الگ نہیں ہونے دیا۔سائے کی طرح اُسکے ساتھ رہی۔ایک دن اپنی بانہیں ممی کی گردن میں حمایل کرکےپوچھا’’ممی اور بڑی بیٹی سہیلیاں جیسی ہوتی ہیں۔اسلئے میںبحیثیت سہیلی ایک راز کی بات بتانا چاہتی ہوں‘‘۔

پروفیسر رجنی نے کہا’’ہاں کھُل کر بتاؤ‘‘آرتی نے کہا’’میرا ایک کلاس فیلو جس کا نام اوتار کشن ہےمیری طرف راغب ہے اور سچ تو یہ ہے کہ میں بھی اسکی طرف مائیل ہوں‘‘۔پروفیسر رجنی کو جیسے اسی گھڑی کا انتظارتھا وہ دل ہی دل میں خوش ہوئی لیکن آرتی کو اسکا احساس نہیں ہونے دیا۔

پروفیسر رجنی خود ماضی میں کھو گئی وہ آرتی کو کیسے بتادے گی کہ اسکا بھی ایک کلاس فیلوتھا۔جس کا نام راکیش تھا۔دونوں ایک دوسرے کو چاہتے تھے لیکن اپنی نادانی سے وہ بھول کر بیٹھی جس سے اُسکا  سب کچھ لُٹ گیااور وہ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہی۔۔۔والدین پہلے ہی گزر چکے تھے۔ ایک بھائی تھا جس کو منہ نہ دکھا سکی اور ماسی کے ہاں چلی گئی، جو اُسکا آخری سہارا بن گئی۔۔۔راکیش اس کو لُٹاکر تعلیم ادھوری چھوڑ کر نہ جانے کہاں چلا گیا۔۔۔کبھی مُڑ کر نہیں دیکھا۔۔۔پروفیسر رجنی نے آرتی کے ذریعے اوتار کشن کو پیغام دیا کہ وہ اپنے والدین یا دو میں سے ایک کو اپنے ساتھ لائے تاکہ رائج رسم کے مطابق بات چیت کی جائے۔۔جس پر اوتار کشن راضی ہوا۔

مقررہ دن کو پروفیسر رجنی اور آرتی گلاب پارک پہنچ گیئں۔آرتی ماں کو سہارا دئے ہوئی تھی اوتار کشن اپنے والد کو ساتھ لیکر پہلے ہی وہاں موجود تھا۔وہ اُنکو اپنے والد سے ملانے لے گیا۔

رجنی کے پاؤں تلے زمین کھسک گئی۔وہ اپنا توازن کھو بیٹھی۔آرتی نے اس کو سہارا دیا اور اس کا سر اپنی گود میں لے لیا۔ماحول گھمبیر بن گیا۔پروفیسر رجنی کا دل بیٹھ رہا تھا۔وہ کچھ کہنا چاہتی تھی لیکن آواز حلق میں اٹک رہی تھی۔آخر اپنی تمام تر قوت یکجا کرکے اُ س نے اوتار کشن کے والد کی آنکھوں سے آنکھیں ملاکر کہا ,,راکیش۔۔۔راکیش۔۔اوتار اور آرتی بہن بھائی ہیں۔ راکیش ہکا بکا رہ گیا۔اُس نے رجنی کو  پہچان لیا۔لیکن تب تک رجنی دم توڑ چکی تھی۔۔

���

تارزوہ سوپور،مموبائل نمبر؛8899039440