رئیس یاسین
میں نے اُسے ہزار بار چھوڑا۔ دل کو سمجھایا، دماغ کو بہلایا، خود کو مصروف رکھا۔ دعا بھی کی، بددعا بھی دی۔ ہر کوشش کی کہ وہ یاد نہ آئے۔ مگر دل، وہ تو کسی اور ہی مٹی سے بنا ہے۔
کئی سال گزر گئے۔ زندگی اپنی رفتار میں چلتی رہی۔ رشتے آئے، کچھ چھن گئے، کچھ بن گئے مگر اُس کی جگہ خالی ہی رہی۔ ایک دن شام کے وقت جب میں تنہا اپنے کمرے کی کھڑکی سے باہر بارش دیکھ رہا تھا، ایک آواز پھر اُبھر آئی۔ دل سے، بڑی گہرائی سے:
“وہ صرف صحیح نہیں تھی، وہ دنیا کی بہترین لڑکی تھی۔”
میں چونکا۔
یہ کیسی آواز تھی؟ اتنے برس بعد؟ کیا میں واقعی اُس کی قدر صرف اُس وقت سمجھ پایا جب وہ دور جا چکی تھی؟
یادوں کے طوفان نے مجھے آ گھیرا۔ وہ نرم باتیں، وہ مسکراہٹ، وہ بےلوث محبت، وہ آنکھوں میں چھپی خلوص بھری دعائیں۔۔۔ سب کچھ ایک فلم کی طرح چلنے لگا۔
میں نے اُسے چھوڑا، شاید اپنی انا کی خاطر۔ یا شاید یہ سوچ کر کہ بہتر کوئی اور ہوگا۔ مگر وقت نے ثابت کیا کہ بہتر تو وہی تھی، بلکہ سب سے بہتر۔
شاید انسان کو بعض رشتے، بعض چہرے، تب سمجھ آتے ہیں جب وہ صرف ایک یاد بن چکے ہوتے ہیں۔
میں نے فون اٹھایا، نمبر آج بھی محفوظ تھا۔ دل کانپ رہا تھا۔ انگلیاں لرز رہی تھیں۔ مگر ایک امید، ایک خواہش — شاید وہ بھی کہیں بیٹھ کر یہی سوچ رہی ہو:
“وہ صرف صحیح نہیں تھا… وہ میری تقدیر تھی…”
فون بجا… اور ایک نرم سی آواز آئی:
“ہیلو…؟”
���
[email protected]