مولانا محمد نعمان رضا
بلا شبہ اللہ ربّ العزت نے بے شمار احسانات اور لاتعداد نعمتیں اپنے بندوں کو عطا فرمائی ہیں۔ انہی نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت ہماری اور آپ کی زندگی ہے۔ کتنوں کو زندگی کی یہ بیش بہا نعمت ملی مگر اب وہ اپنے شب و روز گزار کر زیرِ خاک ہیں۔ شمس و قمر کی گردش احساس دلاتی رہتی ہے کہ عیش و عشرت کے بستر پر سونے والوں عنقریب تمہارا بچھونا بھی بسترِ خاک ہوگا۔
انسان وقت کے ہاتھوں کچھ اس طرح گرفتار ہے کہ معلوم ہی نہیں پڑتا کہ ہر لمحہ کیسے ماضی کا حصہ بنتا جا رہا ہے۔ کتنے سال بیت گئے مگر پھر بھی ایسے ہی معلوم ہوتا ہے کہ ابھی کل کی بات ہے۔ دن ہفتوں میں، ہفتے مہینوں میں اور مہینے سال میں کیسے تبدیل ہوتے گئے پر ہمیں تو وقت گذرنے کا احساس ہی نہیں ہوا۔
۲۰۲۴ کا سورج طلوع ہوتے ہی۲۰۲۳ اپنی بساط سمیٹ کر ہمارے درمیان سے رخصت ہو گیا، ہر سال کی طرح یہ سال بھی تلخ تجربات، حسین یادیں، خوشگوار واقعات اور غم و الم کے حادثات چھوڑ کر رخصت ہو گیا اور انسان کو زندگی کی بے ثباتی اور نا پائیداری کا پیغام دے کر الوداع کہہ گیا یہ سال ختم ہو جانے سے تو حیات مستعار کی ایک سال کی بہاریں بھی ختم ہو کئی۔ قدرت کا نظام یہی ہے جو آیا ہے اسے جانا ہے چاہے وہ انسان ہو یا وقت، اور یہ بھی حقیقت ہے کہ جس طرح وقت اپنی رفتار سے گذرتا چلا جا رہا ہے ایسے ہی وقت کے ساتھ ساتھ انسان کی زندگی سے اس کا دن اور سال بھی کم ہوتا جا رہا ہے، لیکن حیف صد حیف! کہ بجائے اس کے کہ انسان اس وقت کے گذرنے پر اپنے اعمال کا محاسبہ کرے وہ جشن اور مستی میں ڈوب جاتا ہے، وہ اس طرح سے خوشیاں مناتا ہے کہ گویا اس کی زندگی سے وہ سال کم نہیں ہوا بلکہ اس کی زندگی میں ایک سال کا اضافہ ہو گیا ہے۔حیرت ہے ایسے انسانوں پر جو وقت کے گذرنے پر اپنے اعمال کا محاسبہ کرنے کے بجائے جشن سال نو کا اہتمام کرتا ہے اور ہزاروں لاکھوں روپے اس جشن میں برباد کر دیتا ہے، وہ جس سال نو کی آمد پر جشن کا اہتمام کرتا ہے در حقیقت وہ بیوقوف انسان اپنی زندگی سے ایک سال کم ہونے کا ماتم کرتا رہتا ہے جسے وہ اپنی خوش فہمی کی وجہ سے جشن کا نام دے دیتا ہے۔
تمام مذاہب اور قوموں میں مختلف طرح کے تہوار اور خوشیاں منانے کے طریقے ہوا کرتے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کا کوئی نہ کوئی پس منظر اور پیغام ہوتا ہے جن سے نیکیوں کو ترغیب دی جاتی ہے اور برائیوں کو ختم کرنے کی دعوت دی جاتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ لوگوں میں بگاڑ آنے کی وجہ سے ان میں ایسی بدعات و خرافات شامل کر دی جاتی ہیں کہ ان کا اصل مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے۔ چنانچہ دنیا جیسے جیسے مہذب ہوتی گئی انسانوں نے کلچر اور آرٹ کے نام پر نئے جشن اور تیوہار وضع کیے۔ ان میں سے ایک نئے سال کا جشن بھی ہےاور یہ عیسائیوں کا ترتیب دیا ہوا نظام تاریخ ہے۔ نئے سال کے ذریعہ ہمیں مزید اعمال صالحہ کرنے کا موقع ملا، اس پر اللہ کا شکر ادا کیا جائے اور اپنے سابقہ اعمال کا جائزہ لے کر برے اعمال سے توبہ اور اچھے اعمال میں اضافہ کی کوشش کی جائے۔ نئے سال کا آغاز ہم مسلمانوں کے لیے شرعی اعتبار سے کچھ بھی نہیں ہے، اگر ہے تو بس اتنا کہ اللہ تعالیٰ نے جو عمر ہمارے لئے مقرر کی تھی، اس عمر میں سے زندگی کا ایک اور سال گزر گیا، گویا کہ جس نئے سال کا جشن منایا جا رہا ہے حقیقت میں بیوقوف انسان اپنی زندگی کے ایک سال کم ہونے کا ماتم کرتا ہے، جسے وہ اپنی خوش فہمی میں جشن کا نام دے رہا ہے۔
آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں سامان سو برس کا ہے پل کی خبر نہیں
افسوس صد افسوس! یہ ہے کہ ہر نیا سال خوشی کے بجائے ایک حقیقی انسان کو بے چین کر دیتا ہے۔ اس لیے کہ اس کو اس بات کا احساس ہوتا ہے میری عمر رفتہ رفتہ کم ہو رہی ہے اور برف کی طرح پھل رہی ہے۔ وہ کس بات پر خوشی منائے؟ بلکہ اس سے پہلے کہ زندگی کا سورج ہمیشہ کے لیے غروب ہو جائے کچھ کر لینے کی تمنا اس کو بے قرار کر دیتی ہے، اس کے پاس وقت کم اور کام زیادہ ہوتا ہے۔ ہمارے لیے نیا سال وقتی لذت یا خوشی کا وقت نہیں، بلکہ گزرتے ہوئے وقت کی قدر کرتے ہوئے آنے والے لمحات زندگی کا صحیح استعمال کرنے کے عزم و ارادے کا موقع ہے اور از سر نو عزائم کو بلند کرنے اور حوصلوں کو پروان چڑھانے کا وقت ہے۔
ای میل۔[email protected]