عمران قریشی
کورونا وائرس کے بعد ایک اور وائرس کے پھیلاؤ کے حوالے سے قیاس آرائیاں چل رہی ہیں۔ اس کا نام ہیومن میٹا نمونیا وائرس یا ایچ ایم پی وی ہے۔تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ وائرس کورونا وائرس کی طرح خطرناک نہیں ہے اور احتیاطی تدابیر اختیار کر کے اس سے بچا جا سکتا ہے۔چین میں اس وائرس کے تیزی سے پھیلنے کے بارے میں سوشل میڈیا پر کافی باتیں ہو رہی ہیں جبکہ انڈیا کی جنوبی ریاست کرناٹک کے دارالحکومت بنگلور میں دو شیر خوار بچوں میں اس وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔
یہ بیماری کتنی خطرناک ہے؟
مشہور وائرولوجسٹ ڈاکٹر وی روی کے مطابق ،اس بارے میں بہت زیادہ تشہیر کی گئی ہے۔ یہ وائرس 15۔16 سال پہلے دریافت ہوا تھا۔ یہ ایک موسمی انفیکشن ہے۔یہ عام طور پر انفلوئنزا کے معاملات کے ساتھ پایا جاتا ہے اور بچے اس سے سب سے پہلے متاثر ہوتے ہیں۔ماہرین صحت کے مطابق ایچ ایم پی وی کے علاوہ دیگر وائرس بھی ہیں۔ یہ ایک عام بات ہے کہ مختلف وائرسوں کا مرکب انسان میں انفیکشن کا سبب بنتا ہےاور اس طرح کے انفیکشن سردیوں اور بہار کے موسم میں زیادہ پھیل سکتے ہیں۔ مختلف علاقوں میں ان کے مختلف اثرات ہوتے ہیں۔ گھبرانے کی بالکل ضرورت نہیں ہے۔امریکہ کے سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن (سی ڈی سی) کے مطابق اس وائرس کی پہلی بار شناخت 2001 میں ہوئی تھی لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اس سے کئی دہائیوں سے زیادہ عرصے سے موجود ہے۔عام طور پر اس کی علامات زکام یا فلو جیسی ہوتی ہیں۔ اس میں کھانسی، بخار، ناک بند ہونا اور سانس کا مشکل سے آنا شامل ہیں۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ بہت زیادہ سنگین ہو سکتا ہے۔ یہ وائرس ہر عمر کے لوگوں میں سانس کی بیماری جیسے برونکائٹس یا نمونیا کا سبب بن سکتا ہے، لیکن زیادہ تر چھوٹے بچوں، بوڑھوں اور کمزور مدافعتی نظام والے لوگوں کو متاثر کرتا ہے۔اس وائرس کی مدت کا دورانیہ تین سے چھ دن ہے اور بیماری کی مدت وائرس سے متاثر ہونے کی شدت کے لحاظ سے مختلف ہو سکتی ہے لیکن یہ وائرس دیگر سانس کے انفیکشن کی طرح ہے۔یہ وائرس چھینک کی بوندوں، قریبی ذاتی رابطے اور وائرس سے آلودہ علاقوں کو چھونے کے بعد منھ، ناک یا آنکھوں کو چھونے سے پھیلتا ہے۔ انڈیا کے ڈاکٹر روی کے مطابق یہ ایک موسمی انفیکشن ہے۔ یہ انفلوئنزا کے ساتھ ہوتا ہے۔ اس میں عام طور پر بچے پہلے متاثر ہوتے ہیں اور بوڑھے بھی اس کا شکار ہوتے ہیں۔ لیکن انفیکشن کا امکان اتنا زیادہ نہیں ہے جتنا کہ کورونا وائرس میں ہوتا ہے۔انڈین ریاست کرناٹک کے محکمہ صحت اور خاندانی بہبود کے ایک تجزیہ سے پتہ چلتا ہے کہ انڈیا میں ابھی ایچ ایم پی وی کے کیسز میں کوئی خاص اضافہ نہیں ہوا ہے۔وزیر صحت دنیش گنڈو راؤ کی صدارت میں محکمہ صحت کے اعلیٰ عہدیداروں کی میٹنگ کے بعد جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ‘تشویش کی کوئی وجہ نہیں ہے، لیکن احتیاطی تدابیر کی سفارش کی جاتی ہے۔
یہ کورونا وائرس سے کتنا مختلف ہے؟
ڈاکٹر انیش کے مطابق ،ایچ ایم پی وی، کووِڈ۔ 19 سے مختلف ہے۔ کووِڈ ایک نیا وائرس تھا۔ اس کی وجہ سے کسی بھی انسان میں دوسرے وائرسوں کی طرح اس کے خلاف قوت مدافعت نہیں تھی۔ڈاکٹر کانگ کا کہنا ہےکہ اگر ہم ایسے وائرسوں کی درجہ بندی کریں جو بچوں کے لیے خطرہ ہیں، تو میں آر ایس وی (یعنی رسپائریٹری سنسائٹل) وائرس کو نمبر ایک وائرس کے طور پر رکھوں گا‘سانس لینے میں تکلیف کی وجہ کی تحقیقات کے دوران ایچ ایم پی وی کا پتہ چلا۔ اس لیے ابتدائی طور پر اس کے بارے میں زیادہ معلومات سامنے نہیں آئیں لیکن اب یہ واضح ہے کہ یہ ایچ ایم پی وی ہے۔آر ایس وی ایک عام لیکن انتہائی متعدی وائرس ہے جو دسمبر۔جنوری کے دوران اپنے عروج پر ہوتا ہے۔
یہ پھیپھڑوں، ناک اور گلے کو متاثر کرتا ہے اور کمزور افراد میں سنگین بیماری یا موت کا سبب بھی بن سکتا ہے۔
ڈاکٹر انیش اور ڈاکٹر کانگ دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ جب بچہ پانچ سال یا اس سے زیادہ کا ہو جاتا ہے تو وہ اس وائرس سے مکمل قوت مدافعت حاصل کر لیتا ہے۔
ڈاکٹر کانگ نے کہا کہ ’اس وائرس سے دوبارہ انفیکشن ہوسکتا ہے، لیکن یہ عام طور پر ہلکا انفیکشن ہوتا ہے۔ یہ بہت چھوٹے بچوں، بوڑھوں یا ایسے لوگوں میں ہو سکتا ہے جن کے پھیپھڑوں کو نقصان پہنچا ہے یا جن کو دائمی پلمونری بیماری ہے یا پھر دوسرے لوگ جن کو کوئی مرض لاحق ہے یا ان کی قوت مدافعت کمزور ہے ان کے لیے یہ طویل عرصے تک کھانسی کا باعث بن سکتے ہیں، لیکن ہمارے لیے یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے۔
ایسے میں لوگوں کو کیا کرنے کی ضرورت ہے؟
ڈاکٹر روی کا کہنا ہے کہ سب سے بہترعمل انفیکشن سے بچنا ہے۔اگر لوگوں میں نزلہ یا کھانسی کی علامات ہیں تو وہ سب سے بہتر کام یہ کر سکتے ہیں کہ وہ گھر میں رہیں کیونکہ ایچ ایم پی وی کی روک تھام کے لیے کوئی اینٹی وائرل نہیں ہے۔اگرچہ انفیکشن کا امکان کووڈ جتنا زیادہ نہیں ہے تاہم انھوں نے بتایایہ انفیکشن ہجوم میں پھیلتا ہے۔ اس لیے بھیڑ بھاڑ والی جگہوں سے بچیں۔
بشکریہ بی بی سی