عظمیٰ نیوزسروس
سرینگر//جموں و کشمیر اسمبلی سپیکر عبدالرحیم راتھر نے بی جے پی کے ایوان کی طرف سے منظور کردہ خصوصی درجہ کی قرارداد کو واپس لینے یا استعفیٰ دینے کے مطالبے کو مسترد کر تے ہوئے کہا کہ اگر پارٹی کو ان پر اعتماد نہیں ہے تو ااُسےتحریک عدم اعتمادلانی چاہئے۔انہوں نے پارٹی کو اس کی ’’سستی نعرے بازی‘‘کیلئے بھی سرزنش کرتے ہوئےکہا کہ وہ ممبران کوچاہِ ایوان میں داخل ہوکرسیکریٹری کی کرسی پر رکھے ہوئے قومی نشان پر پیر رکھنے کو برداشت نہیں کرسکتے ہیں۔راتھر نے کہا’’بی جے پی ممبران سپیکر سے قرارداد واپس لینے کے لئے کہہ رہے ہیں۔ سپیکر کے پاس اختیارات نہیں ہیں۔ ایوان کی طرف سے پاس کردہ کوئی بھی چیز صرف ایوان ہی کالعدم کر سکتا ہے۔ سپیکر ایسا نہیں کر سکتے۔ سپیکر کے پاس ان مسائل میں محدود اختیارات ہیں۔ انہیں (سپیکرکو)ایوان کی صدارت کرنی ہے، گنتی کرنی ہے اور حقائق کی بنیاد پر فیصلے د ینے ہیں‘‘۔
بھاجپا ممبران کی جانب سے سپیکر سے قرارداد واپس لینے یا مستعفی ہونے کی مانگ کے جواب میں راتھر نے کہا’’ایک سپیکر یہ کیسے کر سکتا ہے؟ میرا انہیں مشورہ ہے کہ وہ اسمبلی کے قوانین دیکھیں اور پھر ایوان میں بات کریں ‘‘۔سپیکر نے کہا کہ اگر بی جے پی ممبران کو ایوان کے پریذائیڈنگ آفیسر کے طور پر ان پر اعتماد نہیں ہے تو انہیں انہیں ہٹانے کے مناسب طریقہ کار پر عمل کرنا چاہئے۔ انکا اس ضمن میں کہناتھا’’مجھے کوئی فکر نہیں لیکن اگر انہیں مجھ پر یقین نہیں تو نعرے لگانا اب بھی راستہ نہیں ہے۔ تحریک عدم اعتماد کا طریقہ کار ہے۔انہیں تحریک عدم اعتماد لانی چاہیے۔ اگر ایوان نے اسے منظور کیا تو میں خود واپس چلا جاؤں گا چاہے کوئی رکن مجھے کہے یا نہ کہے۔ تاہم وہ ایسا نہیں کریں گے بلکہ صرف نعرے لگاتے رہیں گے۔اس قسم کی سستی نعرہ بازی نہیں کی جاتی۔ ان کا تعلق مرکز میں برسراقتدار پارٹی سے ہے۔ انہیں اس بات کو ذہن میں رکھنا چاہئے اور دوسروں کے مقابلے میں ان کا برتاؤ بہتر ہونا چاہئے۔ ان کا رویہ ٹھیک نہیں ہے‘‘۔کچھ ممبران کو مارشلوںکے ذریعے ایوان سے باہر نکالنے کا دفاع کرتے ہوئے سپیکر نے کہا’’میں نے مارشلوں کو واضح ہدایات دی ہیں کہ وہ کسی بھی رکن کو چاہِ ایوان میں داخل ہونے سے روکیں کیونکہ کچھ بی جے پی ممبران اسمبلی ے اپنے احتجاج کے دوران اسمبلی سکریٹری کی کرسی پر رکھے قومی نشان کو بھی پیروں تلے روندھ دیاتھا‘‘۔اُنکامزید کہناتھا’’کل کچھ ارکان ایوان کے ویل میں آئے اور سیکرٹری قانون ساز اسمبلی کی کرسی پر کھڑے ہو گئے۔ ان کی کرسی پر قومی نشان ہے اور انہوں نے جوتے پہن کر قومی نشان پر قدم رکھا ۔ایک سپیکر کے طور پر میں اسے کیسے برداشت کر سکتا ہوں؟ کل جب میں نے اسے دیکھا تو مجھے بہت دکھ ہوا۔ آخر ہم سب سے پہلے ہندوستانی ہیں۔ ہمیں اپنے پرچم اور نشان کا احترام کرنا چاہئے‘‘۔راتھر نے کہا کہ ایک ممبر اسمبلی کوایوان سے باہر لوگوں کیلئے مثال قائم کرنی چاہئے۔ اگر وہ ایسی باتیں کرینگے تو سپیکر کیا کرے گا؟ ۔انہوں نےکہا’’اس لیے میں نے آج ہدایت دی تھی کہ اگر کوئی چاہِ ایوان میں آئے تو اسے روکا جائے۔ اس کا وہاں کیا کام ہے؟ کوئی بھی بولنا چاہے وہ اپنی کرسی سے کرے۔ وہ کیسے ویل میں آ کر کرسیوں پر کھڑے ہو سکتے ہیں؟‘‘۔راتھر نے کشتواڑ سے پہلی مرتبہ منتخب ہوئی بھاجپا کی جواں سال ممبر اسمبلی شگن پریہار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا’’ایک نئی خاتون ممبر اسمبلی ہے، اس نے بھی یہی سیکھا ہے۔ وہ وہی کام کر رہی ہے جو سینئر ممبران کر رہے ہیں۔ وہ سوچتی ہے کہ یہی کرنا ہے اور وہ بھی آج کرسیوں پر کھڑی ہو گئی۔ اس کا دوسروں پر برا اثر پڑتا ہے‘‘۔پی ڈی پی، پیپلز کانفرنس اور عوامی اتحاد پارٹی کے ممبران اسمبلی کے ایک گروپ کی طرف سے قرارداد پر سپیکر نے کہا کہ انہیں ابھی تک یہ موصول نہیں ہوئی ہے۔انہوںنے اس ضمن میں کہا’’یہ مجھ تک نہیں پہنچی ہے تاہم، قراردادیں جمع کرانے کا ایک مناسب طریقہ کار ہے۔ اسے اسمبلی سیکرٹریٹ میں جمع کرانا ہے اور سیکریٹری جانچ کر کے اسے سپیکر کے احکامات کے لیے پیش کرے گا۔ اگر اسے تسلیم کیا جاتا ہے تو سپیکر کو حکومت کو مطلع کرنا ہوگا تاکہ وہ تیار ہو کر آئیں۔ آپ کاغذلاکراسے ایوان میں پڑھ کر قرار دادنہیں کہہ سکتے ہیں‘‘۔