بھارت کے عدالتی نظام بچوں کو انصاف فراہم نہیں کر پاتے ہیں،اس کے تین اہم پہلو ہیں: پہلا معاملات کا درج نہ ہونا، دوسرا معاملے درج ہونے کے باوجود ان پر فیصلہ ہونے میں بہت تاخیر ہونا اور تیسرا عدالتی عمل کے آخر میں تقریباً 70 فیصد معاملات میں کسی کا مجرم ثابت نہ ہونا۔تصور کریں کسی نہ کسی نے تو بچوںکے ساتھ جرم کا ارتکاب کیا ہے،بچے اس کا اظہار کر رہے ہیں اور مقدمات سامنے آ رہے ہیںلیکن جب 70 فیصد لوگ جرائم کے بعد آزاد ہو جا رہے ہیں تو بچوں کے خلاف جرائم کی روک تھام کیسے کی جائے گی؟
اقوام متحدہ میں پائیدار ترقیاتی اہداف کو تیار کرنے میں بھارت کا بہت اہم کردار ہے۔ یہ اہداف (16) پائیدار ترقی کے لئے پرامن معاشرے کو فروغ دینے، تمام کے لئے انصاف تک رسائی فراہم کرنے اور تمام سطحوں پر موثر، احتساب اور باضابطہ اداروں کو تخلیق کرنے کا عزم شامل ہیں۔یہ واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ہم بچوں کے تئیں ظلم، ان کا استحصال، اسمگلنگ، تشدد اور ظلم و ستم ختم کریں گے اور سب کے لئے انصاف کی یکساں پہنچ کو یقینی بنانے کے لئے قومی اور بین الاقوامی سطح پرحکومت کے کاموں کو فروغ دیں گے،ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ بچوں کے خلاف ارتکاب جرائم اور نا انصافیوں کو قانون کے ذریعہ نہیں روک جاسکے گا،اس کے لئے ہمیں اپنی ترقی کی موجودہ تعریف کو تبدیل کرنا ہوگا، جو اقتصادی ترقی کے لئے ناانصافی، تشدد، ذلت اور عدم مساوات کو فروغ دینے کا سبق سکھاتا ہے۔
21 ویں صدی کے پہلے سولہ برسوں میں بچوں کے جرم سے متعلق عدالت میں زیر التواء مقدمات کی تعداد بھارت میں 973 فیصد، مدھیہ پردیش میں 1420 فیصد، راجستھان میں 3519 فیصد، بہار میں 15015 فیصد، مغربی بنگال میں 10690 فیصد، مہاراشٹر میں 828 فی صد، کرناٹک نے 10927 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ جب ہم سنگین جرائم کی بات کرتے ہیں، تب پتہ چلتا ہے کہ اس مدت میں بچوں کے قتل کے زیر التواء کیسوں کی تعداد میں 239فیصد، عصمت دری کے زیر التواء مقدمات میں 1311فیصد اور اغوا کے زیر التواء مقدمات کی تعداد میں 1431 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
بھارت میں سال 2001ء میں بچوں کے قتل 2482مقدمات میںسے 354سماعت مکمل ہوئی اور ان میں سے 193 مجرموں کو سزا دی گئی، لیکن 161 افراد بری ہوگئے۔اسی طرح بچوں سے بد فعلی کے 4546واقعات میں سے726 مقدموں کی سماعت مکمل کی گئی، 281افراد کو سزا دی گئی اور 445 مجرم بری ہوگئے ،بچہ اغوا کے 4837 واقعات میں سے 701مقدموں کی سماعت مکمل کی گئی اور 326 کو مجرم قرار دیا گیا،باقی 375 افراد کو رہاکرد یاگیا۔ سال 2016 میں بچوں کے قتل کے 7915 کیس عدالتوں میں رجسٹرڈ تھے ان میں سے 640پائے تکمیل تک پہنچے، لیکن صرف 283مقدمات میں کسی کو مجرم پایا گیا۔سال 2016 میں بچوں کے اغوا کے 74052مقدمات رجسٹرڈ تھے، جن میں سے 6077یں سماعت مکمل ہوئی اور صرف 1381 مقدمات میں کسی کو مجرم پایا گیا۔
بچوں سے بدفعلی کے 64138معاملوں میں سے صرف 6626 مقدمے کی ہی سماعت ہوپائی اور 1879 افراد کو مجرم قرار دیا گیا۔ غور کریں کہ جب بچوں کے قتل،بدفعلی اور اغوا جیسے معاملات میں 50 سے 70 فیصد مجرموں کوبے قصور قرار دے دیا جاتا ہے، تو کیا ملک کے عدالتی نظام پر کسی بچے کو یقین ہوپائے گا ۔؟ جب بچوں کے ساتھ جرم کرنے والے مجرموں کوآزاد کردیا جارہا ہو،تو پھر بچے کس حد تک محفوظ رہ پائیں گے اور کس حد تک مستقبل میں اپنے خلاف ہونے والے واقعات کو درج کروانے کے لئے سامنے آئیں گے ؟ عام طور پر، بھارت میں یہ تجربہ ہے کہ مصیبت کے بعد بھی پولیس اور عدالتوں کے صحن میں قدم رکھنے کی ضرورت نہیں پڑے! وہاں متاثرین کا درد بڑ جاتا ہے۔ بچوںسے متعلق جرم کے معاملات تیزی سے فروغ پارہے ہیں۔ گذشتہ16 برسوں میں مقدمات کی تعداد 10814 سے بڑھ کر 106958 تک جا پہنچی ہے۔ان برسوں میں مجموعی طور پر5089 59 مقدمات درج کیے گئے ۔یہ تومعاشرتی نظام کا بھی سوال ہے کہ بچوں کو ہراساں کرنے کے معاملات کو مسلسل بڑھنے پر بھی معاشرہ پرُسکون ہے اور ترقی کا لطف لے رہا ہے اور نظام عدل بھی ہر ممکن طریقے سے لاتعلق ہے۔حکومت بچوں کے خلاف جرائم کو ریکارڈ کرنے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ مجرموں پر کاروائی کی جاسکے، لیکن بچوں اور ان کے خاندانوں کو عملدرآمد کے معاملے میں رکاوٹوں اور دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
سال 2001 میں بھارت میں بچوں کے ساتھ 21233 جرم کے مقدمات عدالتوں میں زیر التواء تھے،ان مقدمات کی سنوائی کرنا باقی تھا۔ان میں سے سال بھر میں صرف 3231مقدمات مکمل کئے گئے تھے،بچوں کے خلاف جرم کے مقدمات میں صرف 15.2 فیصد مقدمات کی تکمیل ہوپائی۔ جن مقدمات میں سماعت مکمل ہوئیں، ان میں سے بھی محض 1531 مجرموں کو ہی سزا ہوئی اور باقی 53 فیصد مجرم الزام سے بریں ہوگئے۔ مدھیہ پردیش میں 2065 زیر التواء مقدمات میں سے 404 (19.2فیصد)، راجستھان میں 250 میں سے 29 (11.6فیصد)، کرناٹک میں 63 میں سے 2 (3.2 فیصد) اور مہاراشٹر میں 3999 میں سے 262(6.6فیصد) معاملات میں ہی سماعت مکمل ہو ئی ہے۔ ان معاملات میںمدھ پردیش میں 157، راجستھان میں 11، کرنا ٹک میں 0 اور مہاراشٹر میں 37 افراد کو ہی مجرم قرار دیا گیا ۔
بھارت کی سطح پر بچوں کے خلاف جرائم کے لئے زیر التواء مقدمات کی تعداد 2004 میں بڑھ کر 30316 اور سال 2010میں 72315 ہوگئی، ان مقدمات میں بھی محض ایک تہائی ملزمین کو سزا دی گئی اور باقی آزاد کردئے گئے۔ موجودہ صورت حال (سال 2016) میںبھارت میں بچوں کے خلاف جرائم کی عدالت میں زیر التواء مقدمات کی تعداد 2001 کے 21233سے تقریباً گیارہ گنا بڑھ کر227739 ہو گئی ہے۔بچوں کی حق تلفی صرف ان سے منسلک جرائم سے ہی نہیں منسلک ہے، بلکہ براہ راست ہمارے عدالتی نظام کی کمزوری بھی ان کے حقوق کو نقصان پہنچارہی ہے۔ جدید ہندوستان میں بھلے ہی نا انصافی ہوتی رہے اور مظلوموں کو انصاف نہ ملے، لیکن ماحول ایسا بنادیا گیا ہے کہ اس طرح کے حالات میں عدالتی نظام اور اس کے دائرہ کارکا جائزہ لینے کا حق بھارت کے شہریوں کو نہیں ہے۔اس طرح کے جائزے کو عدلیہ کے لئے توہین تصور کیا جاتا ہے۔ مدھیہ پردیش میں سال 2001 میں بچوں کے خلاف جرائم سے متعلق 2065 مقدمات عدالت میں زیر التواء تھے، جو سال 2016 تک 31392 تک بڑھ گئے ہیں۔ یعنی نہ صرف جرم میں اضافہ ہوا ،بلکہ زیر التواء معاملات میں 1420 فیصد کا اضافہ بھی ہواہے ۔ سال 2016میں ریاست میںکل 5444قدمات ہی مکمل ہوپائے اوران میں سے 30فیصد یعنی 1642 ملزموں کو مجرم قرار دیا گیا۔سولہ سالوں میں مہاراشٹر میں عدالتوں میں زیر التواء مقدمات کی تعداد3999سے بڑھ کر 37125ہو گئی، یعنی 828فیصد کا اضافہ ہو۔سال 2016میںکُل 1847مقدمات کی سنوائی ہوئی اس میں سے صرف 21 فیصد قیدیوں کو سزا دی جاسکی اور باقی کو رہا کردیا گیا۔اُتر پردیش میں زیر التواء مقدمات کی تعداد 275 فیصد بڑھ گئی اور یہ تعداد 10597سے بڑھ کر 39749 ہو گئی۔اسی طرح گجرات میں یہ تعداد 830سے بڑھ کر 12035تک ہو گئی ہے۔اس لئے حکومتوں کے ساتھ عدالتوں کو بھی اس طرف فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ ہمارے خوش حال مستقبل کے ضامن نہ صرف محفوظ رہیں بلکہ مضبوط بھی بنیں۔