سرینگر//تفتیشی ایجنسی’’این آئی ائے‘‘ کی طرف سے میر واعظ عمر فاروق کو دہلی طلب کرنے کی تازہ نوٹس روانہ کرنے کے ایک دن بعد حریت(ع) چیئرمین نے کہا کہ نئی دہلی انہیںخوفزدہ نہیں کرسکتی،اور وہ تنازعہ کشمیر کے پرامن حل کا مطالبہ جاری رکھیں گے۔انہوں نے واضح کیا’’کاغذی نوٹسوں سے وہ اصولی موقف سے دستبردار نہیں ہونگے۔ تاریخی جامع مسجد سرینگر میں2ہفتوں تک نماز جمعہ کے موقعہ پر بندشیں عائد رہنے سے نماز جمعہ پر پابندی کے بعد جمعہ کو میرواعظ عمر فاروق نے نماز جمعہ سے قبل خطبہ دیا،جس کے دوران انہوں نے واضح کیا ’’ہم دہشت گرد نہیں،بلکہ انصاف پسند لوگ ہیں‘‘۔ انہوں نے سوالیہ انداز میں کہا’’ مسئلہ کشمیر کا پرامن حل کا مطالبہ دہشت گردی ہے؟‘‘ حریت(ع) چیئرمین کا کہنا تھا کہ انہوں نے کئی بار اس بات کی وضاحت کی ہے’’ ہماری لڑائی کسی مذہب یا ملک کیخلاف نہیں ، بلکہ حکومت ہندکی اُن غلط پالیسیوں کیخلاف ہے جو 1947ء سے آج تک انہوں نے اس مسئلہ کو دبانے کے حوالے سے فوجی طاقت کے بل بوتے سے عبارت کر اختیارکررکھی ہے ۔ مرکزی تفتیشی ایجنسی’’این آئی آئے کا ذکر کرتے ہوئے میرواعظ عمر فاروق نے کہا کہ مزاحمتی خیمے کے خلاف یہ کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ان کا کہنا تھا پرانے کیسوںکے تحت گرفتاریاں کرنے کیلئے’’این آئی ائے‘‘کے ذریعے نوٹس اجرا کرکے قیادت کو ہراساں کرنے کیلئے یہ کوئی نئی چیز نہیں ہے۔حریت(ع) چیئرمین نے کہا’’میں نے اور میرے والد نے یہ چیزیں دیکھی ہیں، مولانا محمد یوسف شاہ ؒ کو حق بات کہنے کی پاداش میں جلاء وطن کیا گیا ،اورمیرے والد کو حق کی پاداش میں شہید کیا گیا،تاریخی اسلامیہ سکول کو جلایا گیا، میرے چچا کو مسجد میں شہید کیا گیا، اس کے بعد قدغنیں ، گرفتاریاں، نظربندیاں، جامع مسجد پر پابندیاں یہ سب حربے اور ہتھکنڈے اس لئے استعمال کئے گئے تاکہ یہاں کے عوام کی جائز آواز کو دبایا جائے۔‘‘انہوں نے تاہم دو ٹوک الفاظ میں واضح کیا کہ انکے اثاثہ اور جائیداد یہاں کے لوگ ہیں۔میر واعظ عمر فاروق نے کہا’’میں حکومت ہندوستان سے کہنا چاہتا ہوں کہ میرا سب سے بڑا ا ثاثہ کشمیری عوام کی پرخلوص محبت اور حمایت ہے اور یہی میری سب سے بڑی طاقت ہے ۔ ‘‘
انہوں نے کہاکہ یہ تحریک کسی ایک فرد یا جماعت کی تحریک نہیں بلکہ پوری کشمیری قوم کی تحریک ہے اور اس تحریک کیلئے کشمیری عوام اپنی جان، اپنی عزت اور اپنا گھر بار لٹا رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ یہاں کی قیادت اقتدار کی خواہاں نہیں اور لڑائی اقتدار کیلئے نہیں ۔میرواعظ نے سوالیہ انداز میں کہا کہ مسئلہ کشمیر کے سیاسی حل کا مطالبہ کیا کوئی جرم ہے۔ ؟کیا یہ بات کہنا کسی ملک کیخلاف اعلان جنگ ہے ؟ کیا یہ کہنا کہ کشمیریوں کے ساتھ بھارت اور پاکستان نے جو وعدے کئے ہیں ان کو پورا کیا جائے ،دہشت گردی ہے؟۔میرواعظ عمر فاروق نے مسئلہ کشمیر کو عالمی برادری اوراقوام متحدہ کے ایجنڈے پر سب سے قدیم حل طلب مسئلہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس مسئلہ کے حل کے حوالے سے آج سے نہیں بلکہ 1931ء سے یہاں کے عوام مال و جان کی قربانیاں پیش کررہے ہیں ۔مشترکہ مزاحمتی قیادت کے سنیئر لیڈر نے کہا کہ کشمیر کو انتخابات کیلئے ایک میدان بنایا جا رہا ہے اور کشمیریوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔انہوں نے کہاــ’’میں بھارت کے ارباب اقتدار سے کہنا چاہتا ہوں کہ وہ سیاسی جماعتوں کے مفاد کیلئے کشمیرکو بھینٹ نہ چڑھائیں ، آج کشمیر کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت نشانہ بنایا جارہا ہے اور یہ بھارت کی پالسیوں کا ہی نتیجہ ہے کہ یہاں کا نوجوان عسکریت کے راستے پر چل نکلا ہے،اور خود کش بمبار بننے پر مجبور ہو رہے ہیں۔‘‘انہوں نے کہا کہ سیاسی مکانیت کو مسدود کیا گیا ہے،اور نوجوانوں کو پشت از دیوار کیا جا رہا ہے۔میر واعظ نے کہا کہ انکے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے،اور جو پہلے تھا وہ اس پر قائم ہے۔انہوں نے کہا’’ہمارا موقف بالکل واضح اور دو ٹوک ہے جو بات سابق وزیر اعظم ہند اٹل بہاری واجپائی سے کی ،لعل کشن ایڈوانی سے کی ، منموہن سنگھ سے کی ، جنر ل پرویز مشرف سے کی اور پوری دنیا کی قیادت کے سامنے کی اور وہ موقف یہ ہے کہ مسئلہ کشمیرکو حل کرنے کے دو ہی طریقے ہیں یا اس مسئلہ کے حل کے حوالے سے عالمی برادری کی جانب سے کئے گئے وعدوں کو پورا کیا جائے یا پھر مسئلہ سے جڑے تینوں فریقوں کے درمیان ایک بامعنی مذاکراتی عمل کے ذریعے اس مسئلہ کا کوئی قابل قبول حل تلاش کیا جائے ۔
انہوں نے مزاحمتی و مذہبی خیمے و لیڈروں کے علاوہ عام نوجوانوں کے خلاف کریک ڈائون کو غیر جمہوری عمل قرار دیتے ہوئے کہا ’’محمد یاسین ملک اور دینی مبلغ مولانا مشتاق ویری کو پی ایس ائے کے تحت پابند سلاسل کیا گیا ، جماعت اسلامی کی پوری قیادت کو گرفتار کیا گیا ،اور یہ سب اس لئے کیا جارہا ہے تاکہ مسئلہ کشمیر کو دبایا جائے ۔‘‘تاہم انہوں نے واضح کیا کہ یہ کسی کی پشت پر چلائی جا رہی’’تحریک‘‘ نہیں ہے بلکہ کشمیریوں کی اپنی’’تحریک‘‘ ہے۔انہوں نے کہا’’ہماری تحریک کوئی کسی کی پشت پناہی والی تحریک نہیں بلکہ یہاں کے عوام کی تحریک ہے اور جو یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ یہاں کے نوجوان پیسوںکیلئے سڑکوں کا رخ کررہے ہیں تو میں بھارت کہتا ہوں کہ انہوں نے کشمیر کے حوالے سے کروڑوں ، اربوں ر وپے کے پیکیج دیئے لیکن اس کے باوجود یہ تحریک زندہ ہے کیونکہ یہ تحریک اقتدار کی نہیں بلکہ حق و انصاف سے عبارت تحریک ہے اور آج یہاں کی پوری سیاسی ، ملی، دینی قیادت ایک ہی صف میں کھڑی ہے۔‘‘