ایم پاکس: عالمی صحت عامہ کے لیے خطرہ فکر ِصحت

لیاقت علی جتوئی

ایم پوکس (Mpox) (سابقہ نام منکی پوکس) ایک وائرل انفیکشن جو قریبی رابطے سے پھیلتا ہے۔ اسے دو برسوں میں دوسری بار عالمی صحت کے لیے خطرہ قرار دیا گیا ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) نے چار روز قبل اس وائرل بیماری کے لیے غیرمعمولی انتباہ جاری کیا ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ افریقا میں رواں سال 14,000سے زیادہ کیسز اور524 اموات پہلے ہی واقع ہوچکی ہیں جو گزشتہ پورے سال کے اعداد و شمار سے زیادہ ہیں۔

MPox کیا ہے؟
MPox ایک وائرل انفیکشن ہے جو بنیادی طور پر انسانوں اور جانوروں کو متاثر کرتا ہے۔ یہ چیچک جیسے وائرس کے اسی خاندان سے تعلق رکھتا ہے، جسے “آرتھوپوکس وائرس جینس” کہا جاتا ہے۔ چیچک کی طرح، جو اب ختم ہو چکا ہے، MPox بھی اسی طرح کے پوکس وائرس کی وجہ سے ہوتا ہے جیسا کہ کاؤپاکس اور ویکسینیا۔ یہ وائرس اصل میں جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوا تھا لیکن اب انسانوں سے انسانوں کو بھی منتقل ہوتا ہے۔

یہ افریقا کے جنگلات کے دور دراز دیہات میں جمہوریہ کانگو جیسے ممالک میں سب سے زیادہ عام ہے۔ ان علاقوں میں ہر سال اس بیماری سے ہزاروں کیسز اور سینکڑوں اموات ہوتی ہیں جن میں 15 سال سے کم عمر کے بچے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ تاہم اب یہ وائرس افریقا سے باہر بھی پھیل رہا ہے۔ افریقا سے باہر حال ہی میں سویڈن میں اس وائرس کی موجودگی کی تصدیق کی گئی، جبکہ اب پاکستان میں بھی اس وائرس سےلوگوں کے متاثر ہونے کی تصدیق ہوچکی ہے۔

متاثر ہونے والا مردان کا رہائشی ایک شخص خلیجی ممالک سے پاکستان واپس آیا ہے۔ تاحال یہ ابھی واضح نہیں ہے کہ مذکورہ مریض ایم پوکس کی کس قسم کا شکار ہوا ہے اور کیا یہ وہی ویریئنٹ ہے جس کی تصدیق افریقا سے باہر پہلی مرتبہ سویڈن میں ہوئی ہے۔

ترجمان کا کہنا ہے کہ ’متاثرہ شخص کی کانٹیکٹ ٹریسنگ شروع کر دی گئی ہے اور مزید لوگوں کے نمونے حاصل کیے جا رہے ہیں۔‘ پاکستان کی وزارت صحت نے تین روز قبل اس بیماری کے بارے میں ایک ایڈوائزری بھی جاری کی ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ ’ایئرپورٹس اور داخلی راستوں پر اسکریننگ کے نظام کو مزید مضبوط کیا جا رہا ہے۔‘

ایم پوکس کی کتنی اقسام ہیں؟ :
تحقیق کے مطابق، ایم پوکس کی دو اہم اقسام ہیں: کلیڈ ون اور کلیڈ ٹو۔ اس سے پہلے 2022ء میں اعلان کردہ ایم پوکس پبلک ہیلتھ ایمرجنسی کلیڈ ٹو کی وجہ سے تھی۔ یہ وائرس تقریباً 100 ممالک میں پھیلا جہاں عام طور پریہ وائرس نہیں ہوتے جن میں یورپ اور ایشیا کے کچھ ممالک بھی شامل ہیں لیکن ویکسین دے کر اس پر قابو پا لیا گیا تھا تاہم اس بار یہ کہیں زیادہ مہلک کلیڈ ون ہے۔
تغیرات کے نتیجے میں، گزشتہ سال کلیڈ ون بی نامی ایک قسم سامنے آئی جو اس کے بعد تیزی سے پھیل رہا ہے۔ اس نئی قسم کو سائنسدانوں نے ’اب تک کی سب سے خطرناک‘ قسم قرار دیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ نئی قسم زیادہ آسانی سے پھیل سکتی ہے جس سے بچوں اور بالغوں میں زیادہ سنگین بیماریاں اور اموات ہو سکتی ہیں۔

علامات :
اس وائرس سے متاثر ہونے والے شخص کو ابتدائی طور پر بخار، سر درد، سوجن، کمر درد اور پٹھوں میں درد کی شکایت ہوسکتی ہے۔ بخار ٹوٹنے کے بعد دانے پڑ سکتے ہیں جو اکثر چہرے سے شروع ہو کر جسم کے دیگر حصوں میں پھیل جاتے ہیں جن میں عام طور پر ہاتھوں کی ہتھیلیاں اور پیروں کے تلوے شامل ہوتے ہیں۔
یہ دانے انتہائی کھجلی والے یا تکلیف دہ ہو سکتے ہیں۔ یہ کھجلی تبدیل ہوتے ہوئے مختلف مراحل سے گزرتی ہے اور آخر کار خارش کی شکل اختیار کر جاتی ہے جو بعد میں زخموں کا سبب بن سکتی ہے۔ انفیکشن عام طور پر خود بخود ختم ہو جاتا ہے اور 14 سے 21 دن تک رہتا ہے۔ سنگین معاملات میں زخم پورے جسم پر ہو سکتے ہیں خاص طور پر منہ ، آنکھوں اور جنسی اعضا پر بھی۔

ایم پوکس کے لیے ویکسین؟ :
عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر جنرل ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر ٹیڈروس ایڈھانوم گیبریئس نے گزشتہ ہفتے ایم پوکس کی عالمی صحت عامہ کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ، ’’جیسا کہ آپ جانتے ہیں، ڈبلیو ایچ او کا اسٹریٹجک ایڈوائزری گروپ آف ایکسپرٹس فار امیونائزیشن، ایم پوکس کے لیے دو ویکسینز کی سفارش کرچکا ہے، اور ان کی منظوری ڈبلیو ایچ او کی فہرست میں شامل قومی ریگولیٹری اتھارٹیز کے ساتھ ساتھ انفرادی ممالک بشمول نائیجیریا اور ڈی آر سی نے بھی دی ہے۔‘‘
مزید برآں، عالمی ادارہ صحت ان ویکسینز کو کم آمدنی والے ممالک کی رسائی میں لانے پر بھی تیزی سے کام کررہاہے۔ عالمی ادارہ صحت، یونیسیف اور GAVIجیسے شراکت داروں کے ساتھ مل کر یہ ویکسینز حاصل کرکے انھیں تقسیم کرے گا۔

پچھلے ہفتے میں نے ایم پی اوکس ویکسین کے لیے ہنگامی استعمال کی فہرست کے عمل کو شروع کیا، جو کم آمدنی والے ممالک کے لیے ویکسین تک رسائی کو تیز کرے گا جنہوں نے ابھی تک اپنی قومی ریگولیٹری منظوری جاری نہیں کی ہے۔ عالمی ادارہ صحت، تمام شراکت داروں کے ساتھ مل کر تشخیص، ویکسین، طبی نگہداشت کی فراہمی اور دیگر آلات تک مساوی رسائی کو آسان بنانے کے لیے کام کر رہا ہے۔
ایم پوکس پھیلنے کی وجوہات :

ایم پوکس کسی متاثرہ شخص کے ساتھ قریبی رابطے کے ذریعے دوسرے افراد میں پھیلتا ہے۔ ان رابطوں میں جنسی تعلقات، جِلد سے جِلد کے رابطے اور کسی دوسرے شخص کے قریب بیٹھ کر بات کرنا یا سانس لینا بھی شامل ہے۔ یہ وائرس زخمی جِلد، سانس کی نالی یا آنکھوں، ناک یا منہ کے ذریعے جسم میں داخل ہوسکتا ہے۔
یہ وائرس سے آلودہ ہونے والی چیزوں کو چھونے سے بھی پھیل سکتا ہے جیسے بستر، کپڑے اور تولیہ۔ بندروں، چوہوں اور گلہری جیسے متاثرہ جانوروں کے ساتھ قریبی رابطہ ایک اور وجہ ہے۔
���������������