قیصر محمود عراقی
دنیاکا ہر انسان ترقی اور کامیابی کا خواہش مند ہے، ہر ایک یہی چاہتاہے کہ وہ کامیاب انسان بن جائے اور کامیابی وکامرانی اس کے قدم چومے۔مگر کامیابی کا معیار کیا ہے؟ اس کے متعلق لوگوںمیںکافی اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض لوگ کامیابی کا معیار مال ودولت کو سمجھے اورسرمایہ دارشخص کو کامیاب انسان سمجھا، بعض نے زمین جائیداد کو کامیابی کا معیار ٹھہرایا اور جاگیر دار کو کامیاب انسان گردانا، بعض نے عہدے واقتدار کو کامیابی کا معیار سمجھااور عہدیداروصاحب اقتدار کو کامیاب ترین انسان جانا۔ لیکن کامیابی کی یہ سب معیارات وتصورات ناقص ونامکمل ہیں، کیونکہ یہ معیارات انسان کے صرف مادی پہلو کو مدِ نظر رکھتے ہوئے قائم کئے گئے ہیں، جو انسان کی صرف مادی ضروریات وحاجات ہی پورا کرتے ہیں۔ حالانکہ انسان محض جسم کا نام نہیں بلکہ انسان جسم وروح دونوں کے مجموعے کا نام ہے۔ لہٰذا کامیابی کا معیار وتصور بھی وہی دُرست اور کامل ہوگا جس میں انسان کے مادی اور روحانی دونوں پہلوئوں سے متعلق جملہ ضروریات اور حاجات کو مدِ نظر رکھا گیا ہو اور جو انسان کے جسمانی اور روحانی تقاضوں کو بحسن وخوبی پورا کرتے ہو۔ اگر تاریخ عالم کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات ضرور سامنے آئیگی کہ اگر مال ودولت کامیابی کا معیار ہوتا تو قارون جو اپنے وقت کا سب سے بڑا مالدار وسرمایہ دار شخص تھا، وہ کامیاب انسان کہلاتا۔ اگر حکومت کامیابی کا معیارہوتی تو فرعون جس نے’’انا ربکم الاعلیٰ‘‘کا دعویٰ کیا تھا ،وہ کامیاب انسان ٹھہرتا، سکندرِ اعظم اور چنگیز خان کامیاب انسان ٹھہرتے اور اگر عہدے کامیابی کا معیار ہوتے تو ہامان کامیاب انسان ہوتا۔ لیکن سب لوگ مال ودولت ، جاہ ومنصب ، عزت وشہرت کے باوجود ناکام ونامراد ٹھہرے۔ معلوم ہوا کہ کامیابی کا صحیح اور کامل معیار اور کامیابی کی شرائط وہ نہیں جو انسانوں نے اپنے تئیںمتعین کی ہیںبلکہ کامیابی کا کامل واکمل معیار اور شرائط وہ ہیں،جسے خالق کون ومکاں نے قرآن مجید میں بیان فرمایا ہے ، جو انسانوں کی مصالحہ کو انسانوں سے زیادہ جانتا ہے۔ ارشاد ربانی ہے ’’قسم ہے زمانے کی! بے شک تمام انسان خسارے میں ہیں، مگر وہ لوگ جو ایمان لائے اور عمل صالح کرتے رہے اور حق کی تلقین کرتے رہے اور صبر کا درس دیتے رہے‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے خسران ونقصان کے لق ودق صحرا سے نکلنے ، کامیابی کی سبز وشاداب وادی میں قدم رکھنے اور دنیوی و اخروی طور پر کامیاب ترین انسان بننے کیلئے چار شرائط ذکر فرمائے۔ایمان۔کامیابی کا پہلا زینہ اور بنیادی شرط ہے اس کے بغیر کامیابی کا حصول تو درکنار ، کامیابی کا تصور بھی ناممکن ہے، لہٰذا جو شخص ایمان لاتا ہے تو گویا وہ اپنے آپ کا اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور دنیوی واخروی غذاب سے محفوظ ومامون کرلیتا ہے۔اعمال صالحہ۔کامل اور کامیاب بننے کیلئے دوسری شرط ہے، اعمال صالحہ سے مراد ہر اچھا اور نیک عمل ہے، خواہ وہ حقوق اللہ میں سے ہو ، جیسے نماز ، روزہ ، حج ، زکوۃ ، قربانی یا حقوق العباد میں سے ہو، جیسے صلہ رحمی، اخلاق حسنہ، خدمت خلق ، حقوق والدین ، اولاد کے حقوق ، پڑوسیوں کے حقوق ، مہمان کے حقوق ، رشتہ دار کے حقوق، چھوٹوں اور بڑوں کے حقوق ، حیوانوں، درندوں، چرند وپرند اور جملہ حشرات الارض کے حقوق کی ادائی کا ویسے ہی اہتمام کرتا ہے جیسے کہ اللہ اور رسولؐ کا حق ہے۔تواصی بالحق۔ کامیابی وکامرانی کے حصول کا تیسرا اور اہم شرط ہے، یعنی جب انسان نے اللہ کو مانا اور اس کے رسولؐ نے جن ہدایات واحکامات کا حکم دیا، اسے حق مان کر بجا لانا اور جن کاموں سے منع کیا، ان سے باز آنا۔ یعنی انسان خود بھی اچھا عمل کرے اور دوسروں کو بھی اچھائی کی تلقین کرتا رہے، خود بھی بُرائی سے دور رہے اور دوسروں کو بُرائی سے دور رہنے کا درس دیتا رہے، اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ معاشرے میں امن کی فصل لہلہانے لگے گی، اخوت وبھائی چارے کی فضا قائم ہوجائیگی، باطل مٹ جائیگااور حق غالب آجائیگااور یوں معاشرہ اسلامی اقدار میںڈھل کر شاہراہ ترقی پر گامزن ہوگا۔تواصی بالصبر۔ چونکہ تلقین حق کا یہ راستہ بہت ہی تکلیف دہ راستہ ہے، اس میں کانٹے ہی کانٹے ، مصائب ہی مصائب مشکلات ہی مشکلات ، طعن ہی طعن ہے، لہٰذا اس راستے پر چلتے ہوئے اور لوگوں کو حق وصداقت کی دعوت دیتے ہوئے مصائب و تکالیف کا سامنا بھی کرنا پڑے گا ، لوگوں کی کڑوی کسیلی باتیں بھی سننا پڑیںگی مگر ان چیزوں کے باوجود حق وصداقت کے راستے پر صبر واستقامت سے جمے رہنا ہوگا، یہی وجہ ہے کہ تواصی بالحق کے بعد اللہ نے کامیابی کی چوتھی شرط صبر کو قرار دیا۔ تاریخ شاہد ہے کہ تلقین حق کرتے ہوئے انبیا کرامؑ پر بھی سختیاں آئی ہیںلیکن انہوں نے صبر واستقامت کے دامن کو تھامے رکھا اور مصائب وشدائد کو برداشت کیا۔ پیغمبر اسلام ؐ کی زندگی ہمارے لئے بہترین نمونہ ہے، آپؐ نے جب حق کی دعوت دی تو وہی لوگ جو آپؐ کو صادق ، امین کہا کرتے تھے ،آپؐ کو ساحر وجادوگر اور مجنوںکہنے لگے، طرح طرح کے آپؐ پر ظلم وستم ڈھائے لیکن آپؐ نے ان کے تمام مظالم کے جواب میںصبر واستقامت سے کام لیااور اپنے جانثار صحابہؓ کو بھی صبر واستقامت کا درس دیا۔الغرض آج بھی اگر ہم کامیاب انسان بننا چاہیںتو چنداں مشکل نہیں، لیکن اس کے لئے ہمیں کامیابی کے متعلق اپنی سوچ ، تصور اور معیار کو بدلنا ہوگااور کامیابی وکامرانی کے قرآنی تصور اور معیار کو اپنانا ہوگا۔ اپنی تنگ نظری، انا اورشخصیت پرستی کے خول سے باہر نکلنا ہوگا، صرف اپنی انفرادی اصلاح کی فکر کرنے کے بجائے پورے معاشرے کی اصلاح کی فکر کرنا ہوگی۔
رابطہ۔6291697668