موجودہ فتنہ سازاور شَر انگیز دور میں ہر ذی شعورو باحِس مسلمان اور خاص کر علماء، مذہبی جماعتوں اور پیشواؤں کا اہم فریضہ ہے کہ وہ ملت کے افرادکی ذہن سازی کی طرف پوری فکر مندی سے کام لیںاور مسلم سماج کو ایسے فتنوں سے بچائیں،جن کا آج کل دور دورہ ہے۔اس لئے جہاں جلسوں، اجتماعات اور جمعہ کے خطبات میں اعمال صالحہ کی ترغیب دی جاتی ہے، وہیں مسلمانوں کو ایمان کی حقیقت اور اس کی ا ہمیت بھی بتائی جائے، جیسے عملی گناہوں کی شناعت بیان کی جاتی ہے اسی طرح کفروشرک کی برائی بھی ان کے سامنے رکھی جائے، قرآن وحدیث سے بھی انہیں سمجھایا جائے اور عقیدۂ توحید کی معقولیت، اس کی کائنات کی فطرت سے مطابقت اور شرک کی نامعقولیت بھی انہیں سمجھائی جائے۔ حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ فرمایا کرتے تھے کہ لوگ وضوء اور روزہ کے نواقض کے مسائل تو بتاتے ہیں لیکن نواقض ایمان نہیں بتاتے، یعنی جن باتوں کی وجہ سے انسان کا ایمان ختم ہو جاتا ہے اُن کوبھی بتانا چاہئے۔ موجودہ حالات میں اس کی ضرورت واہمیت بہت بڑھ گئی ہے۔
ایمان کی اس اہمیت کا تقاضہ ہے کہ ایمان کی حفاظت میں جن آزمائشوں سے گزرنا پڑے، ایک صاحب ایمان ان پر صبر کرے اور اس کے پایۂ استقامت میں کوئی تزلزل نہ آئے۔ قرآن مجید میں اہل ایمان اور کفر کی نمائندہ ظالم قوتوں کے درمیان تصادم کے بہت سے واقعات نقل کئے گئے ہیں۔ ان واقعات میں کہیں ایسا بھی ہوا کہ اہل ایمان کو غلبہ حاصل ہوا یا ایسا معجزہ ظہور میں آیا کہ کفر کی طاقت پاش پاش ہو گئی لیکن بہت سی دفعہ اہل ایمان کو صبروآزمائش کے مرحلوں سے گزرنا پڑا اور بظاہر وہ ظلم کی چکی میں پستے رہے۔ قرآن میں ان واقعات کے تذکرہ کا بظاہر یہی مقصد ہے کہ ایمان اور عمل صالح کی بناء پر اللہ تعالیٰ نے آخرت کی کامیابی اور نجات کا وعدہ کیا ہے اور یہ ایک یقینی بات ہے، اِن شاء اللہ اہل ایمان ہی آخرت میں سرخرو ہوں گے لیکن اللہ تعالیٰ نے دنیا میں یہ وعدہ نہیں فرمایا کہ بہر صورت مسلمانوں ہی کو مادی کامیابی حاصل ہوگی۔ ان کے دشمن یقینی طور پر مغلوب ہوجائیں گے، انہیں تکلیف سے آزمایا نہیں جائے گا اور اُن کے لئے پھولوں کی سیج بچھائی جائے گی بلکہ قرآن نے اہل ایمان کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم تمہیں جان ،مال اوراولاد کے نقصان سے ضرور ہی آزمائیں گے:( بقرہ: ۱۵۵)
قرآن مجید میں متعدد واقعات ذکر کئے گئے، جن میں اصحاب ایمان کے بعض گروہوں کے ساتھ بڑا ظلم روا رکھا گیا لیکن کبھی انہوں نے دعوت حق سے منہ نہیں پھیرا، قرآن مجیدمیں ان جادوگروں کا ذکر کیا گیا ہے، جن کو فرعون نے حضرت موسیٰ کے مقابلہ میں پورے مصر سے جمع کیا تھا۔ جب ان جادوگروں پر یہ بات واضح ہو گئی کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام جادوگر نہیں ہیں بلکہ واقعی اللہ کے نبی ہیں، تو وہ ایمان لے آئے، فرعون نے کہا : میں تم سب کے الٹے ہاتھ پاؤں کاٹ ڈالوں گا اور سولی پر چڑھا دوں گا لیکن ان حضرات نے جواب دیا کہ ہمیں تو یوں بھی اللہ کی طرف لوٹنا ہی ہے اور اللہ تعالیٰ سے دعاء کی کہ ہمیں صبر کرنے کی قوت عطا فرما اور اسلام کی حالت میں اس دنیائے فانی سے اُٹھا: ربنا أفرغ علینا صبراََ وتوفنا مسلمین
( اعراف:۱۲۰-۱۲۶)
قرآن مجید میں ایک اور واقعہ’’ اصحاب اُخدود‘‘ کا ذکر کیا گیا ہے۔ کچھ لوگ جو حقیقی عیسائیت پر قائم تھے ،مشرک حکمرانوں نے ان کو تبدیلیٔ مذہب کے لئے مجبورکرنے کی کوشش کی، یہاں تک کہ ایک بڑی خندق کھود کر آگ سلگائی گئی۔تمام اہل ایمان کو اس دہکتی ہوئی آگ میں پھینک دیا گیا اور یہ سب کچھ ان کے ساتھ صرف مسلمان ہونے کی وجہ سے کیا گیا: وما نقموا منھم إلا أن یؤمنوا باللہ العزیز الحمید(بروج: ۸) لیکن اس کے باوجود وہ اس پر ثابت قدم رہے۔ انہوں نے نذر آتش ہو جانا گوارا کیا لیکن دولت ایمان سے محرومی کو قبول نہیں کیا۔
خود صحابہ کرامؓ نے ایمان کے لئے کتنی قربانیاں دیں؟سیرت کے صفحات قربانی کے ان نقوش سے روشن ہیں۔ یہ امیہ ہے جو حضرت بلالؓ کو دوپہر کی دھوپ میں مکہ کی سنگلاخ وادیوں میں گھسیٹتا اور گھسیٹواتا تھا، پھر ان کے سینہ پر پتھر کی چٹان رکھ دیتا تھا کہ وہ اس گرم ریت پر حرکت بھی نہ کر سکیں اور کروٹ بھی نہ لے سکیں، پھر کہتا تھا: تم کو مرنے تک اسی طرح رہنا ہے، اس سے بچنے کی ایک ہی صورت ہے کہ تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے کا انکار کرو اور لات وعزیٰ کی مورتیوں کی پوجا کرو۔ قربان جائیے، حضرت بلالؓ پر کہ حالاں کہ ایسے حالات میں ایمان پر قائم رہنے کے ساتھ صرف زبان سے کلمۂ کفر کہنے کی گنجائش ہے لیکن حضرت بلالؓ کے عشق ایمانی اور جذبۂ قربانی کو یہ بات بھی گوارا نہیں تھی اور ان کی زبان پر’’ احد احد‘‘ یعنی ’’اللہ ایک ہے، اللہ ایک ہے‘‘ کا کلمہ جاری رہتا تھا (حلیۃ الاولیاء: ۱؍۱۴۸)
یہ حضرت خبیب انصاریؓ ہیں، جنہیں اہل مکہ نے گرفتار کر لیا تھا۔ جب انہیں غزوہ بدر کے بعض مقتولین کے بدلہ میں حرم سے باہر لے کر نکلے تاکہ انہیں قتل کر دیا جائے تو ان کی ثابت قدمی کا حال یہ تھا کہ نہ رونا دھونا ، نہ آہ وواویلا، نہ جزع وفزع، نہ جان بخشی کی اپیل اور نہ خوشامد، نہ دل کے اطمینان کے ساتھ کلمۂ کفر کا تلفظ کہ جان بچانے کے لئے خود قرآن مجید نے اس کی اجازت دی (سورۂ نحل: ۱۰۶) بلکہ صرف دو رکعت نماز کی اجازت طلب کی اور دوگانہ ادا فرمائی، پھر فرمایا: اگر مجھے یہ خیال نہ ہوتا کہ میں نماز لمبی کروں تو تم اس کو موت سے گھبراہٹ سمجھوگے تو میں نماز کو لمبی کرتا: واللہ لو لا أن تحسبوا أن ما بی جزع لزدت (بخاری، حدیث نمبر: ۳۹۸۹) اس طرح حضرت خبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اللہ ورسول سے وفاداری کا حق ادا کر دیا۔ چنانچہ یہ مسلمانوں کی سنت بن گئی کہ جب بھی کسی مسلمان کو گرفتار کر کے قتل کیا جاتا تو وہ اس سے پہلے دو رکعت نماز ادا کرتا،
(بخاری،حدیث نمبر: ۳۹۸۹)
اس لئے مسلمانوں کو سمجھانے کی ضرورت ہے کہ مسلمان ہونا کوچۂ عشق میں قدم رکھنا ہے۔ عجب نہیں کہ اس میں آگ کے شعلوں پر چلنا اور کانٹوں بھرے راستہ کو طے کرنا پڑے لیکن جب انسان جان ومال اورعزت و آبرو کی حفاظت کے لئے ایسی آزمائشوں کو برداشت کرتا ہے تو ایمان کی نعمت تو اس سے کہیں بڑھی ہوئی ہے، اس کے لئے تو یہ قربانیاں ہیچ ہیں۔ اس لئے ہر مسلمان کو اللہ سے دعاء کرنی چاہئے کہ ملت اسلامیہ ایسی آزمائشوں سے محفوظ رہے لیکن اس عزم مصمم اور ارادۂ مستحکم کو اس کے سینہ میں جاں گزیں ہونا چاہئے کہ اگر صبر وآزمائش کے مرحلے آئیں گے، تب بھی ہم اپنی وفاداری پر آنچ نہیں آنے دیں گے کہ پروانگی اس کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی کہ اس میں شمع پر جل مرنے کا جذبہ کامل موجود ہو۔
افسوس کہ ہم نے سمجھ لیا کہ ہمارے فرائض مساجد اور مدارس تک محدود ہیں، اس دائرہ سے باہر جیسی کچھ بھی آفت آجائے ، اس سے نمٹنا ہمارے فرائض میں شامل نہیں ہے، وہ زیادہ سے زیادہ نفل کے درجہ میں ہے۔ یہ درست نہیں ہے۔ یہ اپنے مقام ومرتبہ کے ساتھ ناانصافی اور امت کے ساتھ ظلم وزیادتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (المقاصد الحسنۃ، حدیث نمبر: ۷۰۲)’’ میری امت کے علماء بنی اسرائیل کے انبیاء کی طرح ہیں‘‘۔ بنی اسرائیل کے انبیاء کی زندگی کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ ایک نبی ایک قوم کو اپنی کوششوں کا ہدف اور جدوجہد کا مرکز بناتا تھا اور اس طرح وہ قوم ہدایت سے سرفراز ہوتی تھی۔ علماء کا طرز عمل بھی یہی ہونا چاہئے کہ وہ ایک حلقہ کو اپنی کوششوں کا مرکز بنالیں اور اس حلقہ پر پوری نظر رکھیں کہ کہیں دبے پاؤں کسی ارتداد کا فتنہ آپ کے حلقہ میں داخل تو نہیں ہو رہا ہے۔
اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إن العلماء ورثۃ الأنبیاء (ابو داؤد: ۳۶۴۱) کہ’’ علماء انبیاء کے وارث ہیں‘‘۔ اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے بعض شارحین نے ایک خوبصورت اور بامعنیٰ اشارہ اخذ کیا ہے کہ انبیاء بلا طلب خود ضرورت مندوں تک پہنچتے تھے تو عالم کو بھی امت کے درمیان بغیر طلب کے پہنچنا چاہئے، جب ہی انبیاء کے وارث ہونے کا حق ادا ہوگا۔ ضرورت ہے کہ مدارس، مذہبی تنظیمیں، جماعتیں اور علماء ومشائخ اپنی اصلاحی سرگرمیوں کو مساجد، مدارس اور خانقاہوں سے باہر لے کر جائیں ۔ خود امت کے دروازوں تک پہنچیں ۔ملت کے دلوںپردستک لگائیں اور ان کے ایمان واعمال کی حفاظت کو اپنی ضرورت سمجھیں۔
���