سرینگر// پاکستانی جنگجو نوید جٹ کو چھڑانے کیلئے عسکریت پسندوں کی طرف سے4ماہ سے سازش رچانے کا انکشاف کرتے ہوئے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل آف پولیس منیر احمد خان نے کہا کہ حزب اور لشکر جنگجو گزشتہ کئی ماہ سے ابو حنظلہ کے ساتھ فون پر رابطے میں تھے۔انہوں نے مبینہ طور پر شوٹ آوٹ میں ملوث کئی افراد کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے گرفتار کئے گئے4 افراد کو میڈیا کے سامنے پیش کیا ۔منیر احمد خان نے کہا کہ جنگجوئوں نے پلوامہ عدالت میں ناکامی کے بعد صدر اسپتال سرینگر کا انتخاب کیا ،جبکہ کیس کو بے نقاب کرنے میں پولیس کی خصوصی ٹیم نے4گھنٹے لگائے۔ صدر اسپتال سرینگر سے منگل کو لشکر کمانڈر نوید عرف ابو حنظلہ کے فائرنگ کے بیچ فرار ہونے کے بعد ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل آف پولیس منیر احمد خان نے کہا کہ اس واقعے میں ملوث کئی افراد کو حراست میں لیا گیا۔ سرینگر کے کنٹرول روم میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے منیر احمد خان نے کہا کہ اس سلسلے میں خصوصی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی گئی ہے،جس نے مختصر سے عرصہ میں اس کیس کو بے نقاب کیا۔انہوں نے کہا کہ خصوصی تحقیقاتی ٹیم نے سائنسی بنیادوں پر تحقیقات شروع کی،اور اس دوران کئی سراغ ہاتھ لگ گئے،جس کی بنیاد پر اس واقعے میں استعمال کی گئی گاڑی،موٹر سائیکل اور دیگر چیزوں کو ضبط کیا گیاجبکہ کئی افراد کی نشاندہی بھی ہوئی۔منیر احمد خان نے کہا کہ سراغ کی ہی بنیاد پر کاکہ پورہ علاقے میں شبانہ چھاپے مارے گئے،جس کے دوران 2جنگجوئوں شکیل احمد بٹ اور ٹیکہ خان کے علاوہ2بالائی زمین ورکروں سید تجمل اور محمد شفیع کو حراست میں لیا گیا۔انہوں نے کہا ’’گرفتار شدہ عسکریت پسندوں نے کچھ انکشافات کئے ہیں،جس کے دوران معلوم ہوا کہ ابو حنظلہ کو 4ماہ سے چھڑانے کی کوشش کی جا رہی تھی‘‘۔ان کا کہنا تھا کہ پہلے پلوامہ عدالت کا انتخاب کیا گیا تھا،تاہم جب انہیں لگا کہ وہاں کامیابی نہیں ملے گی،تو سرینگر اسپتال کا انتخاب عمل میں لایا گیا۔انہوں نے مزید کہا ’’ اس حملے کی سازش کئی اور لوگوں کے ساتھ رچی گئی تھی،اور چونکہ ابھی کیس زیر تحقیقات ہیں،اس لئے فی الوقت اس بارے میں کچھ نہیں بتایا جاسکتا‘‘۔نوید کے حزب اور لشکر جنگجوئوں کے ساتھ فون پر رابطے کا انکشاف کرتے ہوئے منیر احمد خان نے بتایا کہ شکیل اور ہلال نے کئی بار جیل میں نوید سے ملاقات بھی کی،اور فون پر وہ انکے ساتھ رابطے میں بھی تھے،تاہم انہوں نے کہا کہ جیل میں فون پر رابطے اور دیگر معاملات کے حوالے سے جیل خانہ جات کے سربراہ نے پہلے ہی تحقیقات کے احکامات صادر کئے ہیں۔ائے ڈی جی نے حملے کی تفصیلات فرہم کرتے ہوئے کہا’’6فروری کو نوید کو جب اسپتال پہنچایا گیا تو شکیل اور ٹیکہ خان اسپتال کے باہر گاڑی اور موٹر سائیکل پر تھے،جبکہ ہلال اسپتال کے اندر گیا اور بھیڑ میں ابو حنظلہ کے جیب میں پستول ڈال دیا،جس کے بعد انہوں نے فائرینگ کی،جس میں2اہلکار مارے گئے،اور ابو حنظلہ فرار ہوا۔اس سلسلے میں مزید تفصیلات فراہم کرتے ہوئے منیر احمد خان نے بتایا کہ اسپتال کے باہر گاڑی اور موٹر سائیکل نوید کا انتظار کر رہی تھی،جبکہ وہ شکیل کے پیچھے موٹر سائیکل پر بیٹھ گیا اور انکے پیچھے ٹیکہ خان تھا،اور عبداللہ برج کے راستے سے آگے پہنچے۔ ان کا کہنا تھا کہ بعد میں وہ کاکہ پورہ پہنچے اور ابو حنظلہ ہلال کے ہمراہ آگے نکل گیا۔ انہوں نے کہا کہ ابھی کیس کی ابتدائی طور پر تحقیقات ہو رہی ہے،اور اس میں پیشہ وارانہ تحقیقات کی ضرورت ہیں۔ایک سوال کے جواب میں ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل آف پولیس نے کہا کہ اسپتال میں وہ کاروائی کر سکتے تھے،تاہم وہاں پر بیماروں اور تیمادروں کی بھیڑ تھی،اور اس میں شہری ہلاکتوں کا خدشہ تھا۔انہوں نے کہا’’ ہم دہشت گرد نہیں،بلکہ ایک پیشہ وارانہ پولیس ہیں،ہم اسپتال میں بھی کاروائی کر سکتے تھے،تاہم وہاں پر شہری ہلاکتوں کا احتمال تھا‘‘۔منیر خان نے کہا کہ جنگجوئوں نے گولیاں چلائی،اور ان کیلئے شہری ہلاکتیں کوئی معنی نہیں رکھتی۔ ایک اور سوال کے جواب میں منیر خان نے کہا کہ لشکر کی لیڈرشپ گزشتہ برس ختم ہوگئی،اور اسی لئے وہ نوید کو جیل سے باہر نکالنے کیلئے بے تاب تھے۔انہوں نے حزب کمانڈر صدام پڈر کے ساتھ نوید کی تصویر سماجی میڈیا پر عام ہونے سے متعلق سوال کے جواب میں کہا کہ،وہ حقیقت پر یقین رکھتے ہیں،اور اگر یہ صحیح بھی ہیں تو،انکی یہ بات سچی ثابت ہو رہی ہے کہ حزب اور لشکر کے جنگجو مشترکہ طور پر کام کرتے ہیں۔اس دوران انہوں نے میڈیا کے سامنے گرفتار کئے گئے4 نوجوانوں کو پیش کرتے ہوئے کہا کہ شکیل کے خلاف14ایف آئی آر درج ہیں،اور ماضی میں ان پر2بار پی ایس ائے نافذ کیا گیا ہے،جبکہ ٹیکہ خان پہلے بالائی زمین وکر تھا اور اب جنگجو ہیں۔ ائے ڈی جی نے مزید بتایا کہ نوید کو عدالتی احکامات پر جموں کے کھٹوعہ جیل سے سرینگر منتقل کیا گیا تھا،جبکہ سرینگر سے9 غیر ملکی عسکریت پسندوں کو جموں منتقل کیا گیا،اور باقی کاروائی بھی جاری ہے۔
سپرانٹنڈنٹ سنٹرل جیل سرینگر معطل
سرینگر/بلال فرقانی/ حکومت نے سرینگر کے صدر اسپتال سے فائرنگ واقعے کے دوران لشکر جنگجو نوید عرف ابو حنظلہ کے فرار ہونے کے بعد سینٹرل جیل سرینگر کے سپر انٹنڈنٹ کو معطل کرنے کے احکامات صادر کرتے ہوئے ایڈیشنل ایس پی مکیش کمار ککر کو جیل کا نیا سپر انٹنڈنٹ مقرر کیا ہے ۔ ریاستی محکمہ داخلہ کے پرنسپل سیکریٹری آر کے گوئل کی طرف سے جاری کئے گئے حکمنامے میں کہا گیا ہے’’ 6فروری2018کو ایس ایم ایچ ایس اسپتال سرینگر میں پیش آئے واقعہ جس میں پولیس کے دو اہلکار مارے گئے اور ایک جنگجو فرار ہوگیا، کی تحقیقات مکمل ہونے تک سینٹرل جیل سرینگر کے سپرانٹنڈنٹ ہلال احمد راتھرکی فوری معطلی عمل میں لائی جاتی ہے۔ حکم نامہ میں مزید کہا گیا ہے کہ جیل سپر انٹنڈنٹ کواگلے احکامات تک ڈائریکٹر جنرل جیل خانہ جات کے دفتر کے ساتھ منسلک کردیا گیا ہے۔ پرنسپل سیکریٹری ہوم آر کے گوئل کی طرف سے ہی جاری کئے گئے ایک اور حکم نامہ کے مطابق سینٹرل جیل سرینگر کیلئے نئے جیلر کی تعیناتی عمل میں لائی گئی ہے۔پرنسپل سیکریٹری داخلہ کی طرف سے جاری حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ ایڈیشنل ایس پی پولیس کمپوننٹ اننت ناگ مکیش کمار ککر کی خدمات فوری طور محکمہ جیل خانہ جات کے حد اختیار میں دی جاتی ہیں، ان احکامات کے تناظر میں مکیش کمار کی سینٹرل جیل سرینگر کے نئے سپر انٹنڈنٹ کی حیثیت سے تعیناتی عمل میں لائی جاتی ہے۔
حملہ زبردست حفاظتی نقص:ڈی جی پولیس
منصوبہ سینٹرل جیل کے اندر مرتب کئے جانے کا شبہ
نیوز ڈیسک
سرینگر//پاکستانی جنگجونوید جٹ کے فرار کا منصوبہ سینٹرل جیل سرینگر کے اندر مرتب کئے جانے کا انکشاف کرتے ہوئے جموں کشمیر پولیس کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر ایس پی وید نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ یہ واقعہ ایک ’’بڑی حفاظتی کوتاہی ‘‘ کا شاخسانہ تھا۔انہوں نے کہا کہ پولیس کو جیل میں کسی سازش کے بارے میں اطلاع موصول ہوئی تھی جس کے بعد ابو حنظلہ کو وادی سے باہر منتقل کرنے کی کوشش کی گئی لیکن عدالت نے اس پر حکم امتناعی جاری کیا۔ڈی جی پولیس کے مطابق اس واقعہ کی پولیس چھان بین کے ساتھ ساتھ مجسٹیرئل انکوائری بھی عمل میں لائی جائے گی ۔کشمیر میڈیا نیٹ ورک کے مطابق ریاستی پولیس کے سربراہ نے منگل کو صدر اسپتال سرینگر میں پیش آئے واقعہ کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کئی اہم سوالوں کے جواب دئے۔انہوں نے کہا کہ جنگجوئوں کا حملہ اور اسی کے ساتھ ہی جنگجو کا فرار ہونا نہ صرف ایک منظم اور اچھے طریقے سے مرتب اور انجام دیا گیا منصوبہ تھا بلکہ اس سے سیکورٹی سیٹ اَپ میں موجود چھید بھی ظاہر ہوا ہے۔انہوں نے کہا’’نوید کا فرار ہونا ایک بڑا سیکورٹی بریچ ہے‘‘۔ڈی جی پولیس کا کہنا تھا’’ایک ایس پی کی قیادت میں خصوصی تفتیشی ٹیم(SIT) تشکیل دی گئی ہے جو واقعہ کی تحقیقات کرے گی،میرے خیال میں اس حملے اور جنگجو کے فرار ہونے کے بارے میں حقائق کا پتہ لگانے کیلئے مجسٹیرئل انکوائری کے احکامات بھی صادر کئے جارہے ہیں۔ایک سوال کے جواب میںڈاکٹر ایس پی وید نے یہ بات زور دیکر کہی کہ سینٹرل جیل سرینگر میں کسی کی ملی بھگت کے بغیر ایسی واردات انجام دینا نا ممکن ہے ۔ اس ضمن میں ان کا کہنا تھا’’یقینا!جیل میں موجود کوئی شخص اس میں ملوث ہے ، یہ ایک منصوبہ بند فرار تھا جس کی سازش جیل کے اندر رچی گئی ، ایسا اس کے بغیر ممکن نہیں ہوتا۔کے ایم ا ین کے مطابق یہ پوچھے جانے پر کہ ابو حنظلہ جیسے جنگجو کمانڈر کو دیگر غیر مقامی جنگجوئوں کی طرح بیرون وادی کسی جیل کے بجائے سرینگر کی سینٹرل جیل میں کیوں رکھا گیا؟ڈی جی پولیس نے کہا کہ مذکورہ جنگجو کو عدالتی احکامات پر سرینگر منتقل کیا گیا تھا، حالانکہ تمام پاکستانی جنگجوئوں کو ایک پالیسی کے تحت کشمیر سے باہر رکھا جاتا ہے۔اس بارے میں ڈاکٹر ایس پی وید نے مزید کہا’’ہمیں اس بات کی اطلاع ملی تھی کہ پاکستانی جنگجو سینٹرل جیل سرینگر میں کوئی سازش رچ رہے ہیں ، ہم نے اسے وادی کے باہر منتقل کرنے کی کوشش کی لیکن اس نے عدالت سے حکم امتناعی جاری کروانے میں کامیابی حاصل کی‘‘۔اسی سے جڑے ایک اور سوال کا جواب دیتے ہوئے ریاستی پولیس کے ڈائریکٹر جنرل نے کہا’’اب وہ صرف پولیس کیلئے ہی خطرہ نہیں ہے بلکہ وہ ہر ایک بشمول جوڈیشری کیلئے ایک خطرہ ہے ‘‘۔انہوں نے کہا ’’ پاکستانی جنگجو جو مارنے یا مرنے کیلئے کشمیر آتے ہیں،یہاں کے سسٹم اور اس کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھاتے ہیں‘‘۔