جاوید اختر بھارتی
جہاں پوری دنیا میں عید الفطر کا تہوار منایا گیا، وہیں تقریباً 25 کروڑ مسلمانوں نے بھارت میں اپنا تہوار منایا، کروڑوں مسلمانوں نے ملک بھر میں ایک ساتھ عید منائی، پورے ایک ماہ تک مسلمانوں نے روزہ رکھا، ذکر و اذکار کیا، نمازیں پڑھیں اور تلاوت کیں اور راتوں میں تراویح کی نماز ادا کی۔ اذان فجر سے پہلے پہلے سحری کی اذان مغرب سن کر روزہ افطار کیا، گالی گلوچ سے پرہیز کیا، کسی کا دل نہ دُکھایااور اس مہینے کی رحمتوں اور برکتوں سے خوب فیوض و برکات حاصل کیا۔جہاں تک ہوسکا فقراء ومساکین کی مدد کی، جس کے نتیجے میں یوم الجزا اور یوم تشکر کا موقع فراہم ہوا، جسے عیدالفطر کے نام سے جانا جاتا اور منایا جاتا ہے۔ ہر سال کی طرح امسال بھی عیدالفطر کا تہوار منایا گیا،لیکن کہیں بھی مسلمانوں نے اپنا تہوار مناتے ہوئے کسی مندر کے سامنے سے جلوس نکالا نہ کسی دوسری مذہبی عبادتگاہ کے سامنے نعرے بازی یا اشتعال انگیزی کی اورنہ ہی تلوار یا ہتھیار لہرائے۔ 25 کروڑ مسلمانوں نے اپنا مذہبی تہوار امن و امان اور خوبصورتی کےساتھ منایا۔ ہولی، دیوالی اور رام نومی جیسے تہواروں کی طرح عید پر الحمدللہ کسی بھی طرح کا کوئی دنگا فساد یا نفرت انگیزی نہیں ہوئی۔ اسلام نے مسلمانوں کو خوشیاں منانے کے لیے جو تہوار دیے ہیں، ان کی فطرت اور اساس میں ہی خوبصورتی حسن اور شفقت و رحمت کی جڑیں ہوتی ہیں۔ جن کے تہوار ہی انسانوں کے لیے موت و نفرت اور آگ و خون کی برسات لے آئیں، ان کے نظریوں کا بودا اور غیرانسانی پن واضح کرنے کے لیے مزید کس دلیل کی ضرورت نہیں۔
الحمدللہ پورے ملک کی عید گاہوں اور بے شمار جامع مساجد سے اتنا بڑا مجمع نماز پڑھ کر آرام سے گھر چلا گیا۔ کہیں پتھر نہیں پھینکا، کسی کے ساتھ ظلم و جبر نہیں کیا، کروڑوں مسلمانوں نے عید کو یوم تشکر، یوم جزا، یوم مسرت و شادمانی کے طور پر منایا،نہ شور، نہ ڈی جے، نہ گانے، نہ کسی مذہب کو گالی ،نہ نعرے بازی ، نہ کسی مذہب کی توہین، نہ کسی مذہبی پیشوا کی توہین، نہ کسی عبادت گاہ کی توہین۔ پورے ہندوستان میں عید کی نماز پُرامن طریقے سے انتہائی خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کی گئی۔ حسبِ روایت صبح صبح مسلمانوں نے غسل کیا، حسب استطاعت نئے لباس میں ملبوس ہوکر عطر لگا کر گلی کوچوں کو مہکاتے ہوئے عید گاہوں کی طرف روانہ ہوئے، اللہ کے نام کی تسبیح پڑھتے ہوئے چلے، غریب و ناتواں میں صدقہ و خیرات بانٹتے رہے،ادب و احترام کے ساتھ عید گاہوں میں بیٹھ گئے، نماز دوگانہ ادا کی، خدا کی حمد و ثناء کی ۔اپنی دورکعت نماز کو سورہ فاتحہ و قرآن کریم کی دیگر آیتوں اور سورتوں سے مزین کیا،داہنے طرف سلام پھیرا تو کہا کہ السلام علیکم ورحمتہ اللہ اور بائیں طرف سلام پھیرا تو کہا کہ السلام علیکم ورحمتہ اللہ، اس کے آگے کسی مذہب کا نام نہیں جوڑا، کسی علاقے یا قبیلے یا ذات برادری کا نام نہیں جوڑا، بعدہ سلام کے امام و خطیب نے خطبہ مسنونہ پڑھا، اس کے بعد روزوں کی قبولیت کے ساتھ ساتھ پوری دنیا میں امن و امان کی دعا مانگی تو اپنےوطن بھارت کے لئے خصوصی طور پر تعمیر وترقی، امن و سلامتی و خوشحالی کی دعا مانگی ۔اس کے بعد سے سلام و مصافحہ اور ایک دوسرے کو گلے لگا لگا کر مبارکباد پیش کی گئی اور پوری دنیا کو پیغام دیا گیا کہ انسانیت کی بنیاد پر ایک دوسرے کے دُکھ سکھ میں شریک ہونا اور انسانیت کو فروغ دینا ضروری ہے تاکہ بغض و کینہ، نفرت و حسد کا خاتمہ ہوسکے اور جب تہوار پر بھی محبت کا اظہار نہ کیا جائے اور محبت کا پیغام نہ دیا جائے تب تو تہوار کا مقصد ہی فنا ہو جائے گا ۔اس لئے اندھیروں کو مٹانے کی ضرورت ہے اور انسان ہو کر انسان کو گلے لگانے کی ضرورت ہے۔ انتہائی تنگ نظر ہیں وہ لوگ جو تہواروں کے موقع پر بھی ماحول کو زہر آلود کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ملک میں نفرت کی آگ لگانا چاہتے ہیں ۔جبکہ اپنے عزیز وطن کی محبت مسلمانوں کی رگوں میں خون کی طرح دوڑتی ہے۔
مسلمانوں کا عید منانا قومی یک جہتی کو فروغ دینا ہے، فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو بڑھاوا دینا ہے، اپنےوطن کے ساتھ ساتھ، برادرانِ وطن سے بھی محبت کا اظہار کرنا ہے اور بھارت کا مسلمان ان دونوں روایات پر بحسن و خوبی عمل پیرا ہے۔ مسلمانوں کی حب الوطنی کا عالم تو یہ ہے کہ جیتے جی ملک کی تعمیر و ترقی کے لئے دعائیں کرتا ہے اور جب وطن کے تحفظ کا وقت آتا ہے تو اگلی صفوں میں ہوتا ہے اور مرنے کے بعد بھی وطن کی مٹی میں دفن ہونے کے لئے غسل کرتا ہے، نئے لباس زیب تن کرتا ہے، کافور و عطر لگا کر جاتا ہے۔ کہاں کہاں مسلمانوں کی حب الوطنی دیکھو گے، لال قلعہ، جامع مسجد، تاج محل، قطب مینار یہ سب مسلمانوں کی حب الوطنی کا اعلان کررہے ہیں،سُننے کے لئے کانوں سے نفرت کی کھونٹ نکالنا ہوگا، آنکھوں سے نفرت و تعصب کا چشمہ اُتارنا ہوگا، سینوں کو بغض و حسد سے پاک کرنا ہوگا، تب جاکر ساری تصویر واضح نظر آئے گی۔
رابطہ ۔8299579972
[email protected]