سیدہ اسمت معروف ۔منڈی پونچھ
پوری دنیا میں خواتین اور لڑکیوں کی صحت سے متعلق بیدای بڑھنے لگی ہے۔ خصوصاً ایامِ حیض سے جڑے مسائل پر اب کھل کر بات ہوتی ہے۔ لیکن اس مدعے پر ابھی بھی ہمارے ملک میں بات کرنے میں ہچکچاہٹ اور شرمندگی محسوس کی جاتی ہے۔ لڑکیاں اس سے جڑے مسائل بھی آپس میں شیئر کرنے میں شرمندگی محسوس کرتی ہیں۔دیہی علاقوں میں تو یہ اور بھی شرم کی بات مانی جاتی ہے۔ گھر کی بڑی عمر کی خواتین بھی نو عمر لڑکیوں کو اس سے جڑی باتیں بتانے سے گریز کرتی ہیں۔جس کی وجہ سے ان نو عمر لڑکیاں جنہیں پہلی بار اس تکلیف کا سامنا کرناپڑتا ہے، وہ کچھ سمجھ نہیں پاتی ہیں۔ اب اس پر کھل کر بات کرنے کے مقصد سے ہی دنیا بھر میں 28 مئی کو اس کےمتعلق حفظان صحت کا عالمی دن منایا جاتا ہے تاکہ نو عمر لڑکیوں کو اس سے متعلق بیدار کیا جائے۔ دراصل ماہانہ ایامِ حیض میں خون کا آنا کوئی بیماری نہیں ہے، لیکن اس دوران ہونے والے پیٹ درد کا مسلسل ہونے کو نظرانداز کرنا ٹھیک نہیں۔ خواتین اور لڑکیوں کو ماہواری کے دوران پیٹ میں شدید درد ہونا عام بات ہے۔ بہت سی خواتین کوکمر، پیٹ کے نچلے حصے اور پیروں میں بھی درد ہوتا ہے۔ جسے پیریڈز کریمپ کہا جاتا ہے۔ یہ درد عموماً دو سے تین دن تک رہتا ہے۔ لیکن بہت سی خواتین اور نوعمر لڑکیوں کے لیے یہ درد ناقابل برداشت ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے انہیں درد کی دوائیں لینی پڑتی ہیں، جس سے کئی مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق ایامِ حیض میں ناقابل برداشت درد کے پیچھے کئی سنگین وجوہات بھی ہوسکتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں اسے نظر انداز نہیں کرنا چاہئے اور دوا لینے کے بجائے ڈاکٹر کے پاس جانا چاہئے۔ یہ درد، دراصل پروسٹاگلینڈنز نامی کیمیکل یا ہارمونز کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اس دوران بچہ دانی کے ٹشوز پروسٹاگلینڈنز پیدا کرتے ہیں، جو پٹھوں کے سکڑنے کا سبب بنتے ہیںاور پیٹ اور کمر میں شدید درد ہوتا ہے۔ یہ ہارمون ماہواری کے عمل اور خواتین میں تولیدی نظام کے لیے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے پونچھ کی خاتون ڈاکٹر شیکھابتاتی ہیں کہ ان ایام کے دوران درد کا ہونا معمول کی بات ہے۔ لیکن بہت زیادہ درد جو آپ کے دماغ اور جسم کو متاثر کرتا ہے وہ درد عام نہیں ہوتا ہے۔ یہ اس بات کی علامت ہوتی ہے کہ آپ کی تولیدی میں کچھ خرابی ہے، اگرکوئی خاتون حمل کی منصوبہ بندی کر رہی ہے لیکن ان کو بہت تکلیف دہ ماہواری ہو رہی ہے، توانہیں کو یہ منصوبہ ملتوی کرنا چاہیے اور ڈاکٹر سے بات کرنی چاہیے۔
چنانچہ ان ایام کے دوران ہونے والے درد پر ڈاکٹر شیکھا کا کہنا ہے کہ اگر درد ناقابل برداشت ہے اور وقت کے ساتھ یہ مزید تکلیف دے رہا ہے، تو فوری طور پر گائناکالوجسٹ سے رابطہ کرنا چاہیے۔بقول اُن کےماہواری کے دوران ہونے والے تکلیف دہ درد کسی دائمی بیماری کی وجہ بھی ہو سکتی ہے، جو تولیدی کو متاثر کرسکتی ہے۔ یہ وقت کے ساتھ بڑھتا چلا جاتاہے جس کے نتیجے میں تولیدی پر بُرا اثر پڑتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ گاؤں میں خاص کر کے نوجوان لڑکیاں تولیدی صحت کے دوران کپڑے کا استعمال کرتی ہیں جس سے مختلف بیماریوں کا موجب بنتا ہے۔
دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ لڑکیاں صاف کپڑا بھی استعمال نہیں کرتی جو کپڑا ایک بار استعمال کر لیتی ہیں دوسری بار پھر وہی کپڑا استعمال کرتی ہیں۔ اگر کوئی مجبواً تولیدی صحت کے دوران کپڑا لے رہی ہے تو میرا یہ مشورہ ہے اسکو اچھی طرح صابن سے صاف کر کے دھوئیں، اچھی دھوپ لگائیں تا کہ پرانے جراثیم اس پر نہ رہیں، پھردوسری بار اُسے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ یہ کمر کا درد، سر درد اور پورے جسم میں جو درد ہوتا ہے، یہ سب انہیں غلطیوں کی وجہ سے ہوتا ہے۔ڈاکٹر شیکھا لڑکیوں کو مشورہ دیتی ہیں کہ تولیدی صحت کے دوران کھانے میں پرہیز رکھنے کی ضرورت ہے۔ اس دوران خوب آرام کریں اور بھاری چیز نہ اٹھائیں ، اُن تمام چیزوں سے پرہیز کیا جائےتو تولیدی صحت کے دوران درد محسوس نہیں ہوگا۔اس حوالے سے مقامی سماجی کارکن ریحانہ کوثر ریشِی کہتی ہیں کہ’’سچ تو یہ ہے کہ ایامِ حیض کے دوران درد کیوں اور کیسے ہوتا ہے؟ یہ درد پیٹ سے ہوتا ہوا کمر ،رانوں اور ٹانگوں تک اور جسم کے دوسرے حصوں تک پھیل جاتا ہے۔ جیسے کبھی کبھار ہمارے جسم کے کسی حصے میں اچانک درد اٹھتا ہے، لیکن یہ درد اُس سے زیادہ شدید ہوتا ہے۔
یہ تو قُدرت کی طرف سے ہے کہ نوجوان لڑکیوں کوہر مہینے ماہواری والی صحت کے مرحلوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ لیکن آج کل کی نو جوان لڑکیاں اس بیماری کو سمجھ نہیں پاتیں۔ اُنہیں معلوم ہی نہیں ہوتا کہ ہمیں اس دوران کون سی غذا کھانی چائیے اور کون سی نہیں کھانی چاہئے؟ میری رائے کے مطابق جن لڑکیوں کو تولیدی صحت کے دوران بہت زیادہ درد محسوس ہوتا ہے، وہ اس دوران بہت ساری غلطیاں کرتی ہیں جسکی وجہ سے انہیں بہت زیادہ تکلیف ہوتی ہے۔جبکہ اس دوران انہیں اپنی صحت کا خاص خیال رکھنے کی ضرورت ہے۔چونکہ اس دوران لڑکیاں ہونے والی پریشانی اپنے گھرکے کسی بھی افراد کو نہیں بتا سکتی اور اسی طرح درد سہتی رہتی ہیں جسکی وجہ سے جسم میں اور بیماریاں داخل ہو جاتی ہیں۔ سبھی خواتین و نوجوان لڑکیوں کو چاہیے کہ وہ اس دوران گندے کپڑے کا استعمال نہ کریںبلکہ پیڈ کا استعمال کریں۔ گاؤں میں نزدیکی آنگن واڑی سینٹر میں جا کر خوراک کھائیں ۔جہاں ایسی خواتین اور لڑکیوں کے لیے غزائیت سے بھرپورخوراک گورنمنٹ کی طرف سے بیجھی جاتی ہے۔
اپنے گاؤں کی کچھ لڑکیوں سے بات چیت کے دوران اپنا نام نہ بتاتے ہوئے کہا کہ مجھے جب حیض آتا ہے تو بہت زیادہ درد محسوس ہوتا ہے۔ ہر مہینے جب یہ درد مجھے بڑھنے لگا تو میں نے ڈاکٹر کی طرف رُخ کیا، انہوں نے دوائیاں بھی دی لیکن کچھ آرام نہیں ہوا۔ میں اس دوران کھانے پینے کا بہت دھیان رکھتی ہوں لیکن پھر بھی مجھے بہت تکلیف ہوتی ہے۔ نعیمہ اختر، رخسانہ کوثر انہوں نے بھی یہی کہا کہ اس دوران جتنی تکلیف ہوتی ہے، اتنی شاید ہی آپریشن میں ہوتی ہوگی۔ ہم نے بھی سبھی ٹوٹکے آزمائے لیکن اس شدید درد پر کوئی ٹوٹکا نہیں چلتا ۔اگر کوئی دوائی ہم تولیدی صحت سے دوران کھا بھی لیں تو اَمّی ہو یا پھر دادی ہو، وہ ایک دم سے ڈانٹتی ہیں کہ بیٹا یہ دوائیاں نہیں کھانا، ہم کہتی ہیں ، کیوں؟ تووہ سمجھاتی ہیں کہ اس سے جسم میں اور زیادہ انفیکشن ہوگا ،جس سے آپکی زندگی آگے جا کر تباہ و برباد ہو جائے گی۔ اب ہم یہی چاہتی ہیں کہ اس درد کے لیے ایسے دوائی تیار کی جائیں، جس سے کوئی نقصان بھی نہ ہو اور درد بھی میں افاقہ ہو۔بہرحال اگر اس دوران لڑکیاں اور خواتین اپنی صحت اور کھانے پینے کی چیزوں کا بھرپور خیال رکھیں تو اس دوران انہیں شدید درد سے بہت آرام مل سکتا ہے۔ ساتھ ہی نو عمر لڑکیوں کو سمجھانا ضروری ہے کہ اس دوران انہیں کیا کرنا چاہئے تاکہ یہ حیض کا عمل ان کے لئے ڈر نہیں بلکہ زندگی کا نارمل حصہ بن جائے۔(چرخہ فیچرس)