غلام قادر
بزرگوں کا خیال رکھنا نہ صرف ایک دینی و اخلاقی فریضہ ہے بلکہ ایک معاشرتی ضرورت بھی ہے۔ بزرگ افراد ہمارے معاشرے کا وہ حصہ ہیں جو عمر کے ایک خاص حصے میں پہنچ کر کمزور ہو جاتے ہیں، انہیں زیادہ توجہ، محبت اور دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے۔ رمضان کے بابرکت ماحول میں ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے بزرگوں کو نہ صرف جسمانی طور پر آرام پہنچائیں بلکہ ان کی روحانی، ذہنی اور جذباتی صحت کا بھی خاص خیال رکھیں۔
ہمارے معاشرے میں بزرگوں کا مقام نہایت اہم ہے۔ وہی ہمارے اساتذہ، رہنما اور زندگی کے تجربات کے حامل ہوتے ہیں۔ انہوں نے اپنی زندگی کے قیمتی سال ہماری پرورش اور تربیت میں گزارے ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں والدین اور دیگر بزرگوں کی عزت اور خدمت کو بے حد اہمیت دی گئی ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے والدین کے ساتھ حسن سلوک کی بار بار تلقین فرمائی ہے۔ سورۃ بنی اسرائیل میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ’’اور اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو۔ اگر ان میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں ‘اُف تک نہ کہو اور نہ انہیں جھڑکو، بلکہ ان سے نرمی کے ساتھ بات کرو۔‘‘ (بنی اسرائیل: 23)۔ اس آیت مبارکہ میں والدین اور بزرگوں کے احترام اور ان کے ساتھ نرمی سے پیش آنے کی واضح تعلیم دی گئی ہے۔ رمضان المبارک میں جب عبادات اور نیک اعمال کی فضیلت بڑھ جاتی ہے تو بزرگوں کی خدمت کا ثواب بھی کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔
بزرگوں کے لئے روزے کی حالت میں جسمانی مشقت بڑھ جاتی ہے، خاص طور پر بزرگ افراد کے لیے، جو پہلے ہی کمزور ہوتے ہیں۔ ان کے لیے روزہ رکھنا بعض اوقات مشکل ہو جاتا ہے، کیونکہ بڑھاپے کے ساتھ مختلف بیماریوں جیسے بلڈ پریشر، شوگر، دل کے امراض، اور کمزوری کے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم ان کے لیے خصوصی توجہ دیں، ان کی صحت کا خیال رکھیں اور اگر وہ بیمار ہیں تو ان کی طبی ضروریات کو پورا کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑیں۔ بعض اوقات بزرگ افراد خود پر زیادہ بوجھ ڈال لیتے ہیں اور روزے رکھنے کی ضد کرتے ہیں، حالانکہ شریعت میں بیمار اور کمزور افراد کو رخصت دی گئی ہے کہ وہ روزے نہ رکھیں اور اس کے بدلے فدیہ دے سکتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم انہیں پیار اور محبت سے سمجھائیں اور ان کی طبیعت کے مطابق فیصلہ کرنے میں ان کی مدد کریں۔
ایسے افراد کو رمضان میں زیادہ سکون، محبت اور توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ان کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کے لیے سہولتیں پیدا کریں، جیسے کہ انہیں عبادات کے لیے زیادہ آرام دہ ماحول فراہم کریں، ان کے لیے ایسی خوراک کا بندوبست کریں جو ان کی صحت کے لیے موزوں ہو اور ان کے آرام کا خاص خیال رکھیں۔ سحری اور افطاری میں ان کی پسند اور ضروریات کو مدنظر رکھنا نہ صرف ان کے لیے خوشی کا باعث ہوگا بلکہ اس عمل میں اللہ کی رضا بھی شامل ہوگی۔ بزرگ افراد عام طور پر اپنی گزری ہوئی زندگی کی یادوں میں کھو جاتے ہیں اور انہیں محسوس ہوتا ہے کہ وہ اب معاشرے کے لیے غیر ضروری ہو چکے ہیں۔ اس احساس کو ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم ان کے ساتھ زیادہ وقت گزاریں، ان کی باتوں کو غور سے سنیں، ان کے تجربات سے سیکھیں اور انہیں اس بات کا احساس دلائیں کہ وہ ہمارے لیے بے حد اہم ہیں۔
رمضان المبارک کا مہینہ ہمیں سخاوت اور ہمدردی سکھاتا ہے، اور بزرگوں کا خیال رکھنا ان ہی صفات کا عملی مظاہرہ ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے گھروں میں بزرگوں کے ساتھ حسن سلوک کریں، ان کاحترام کریں ، اور اگر وہ کمزور یا بیمار ہیں تو ان کی ہر ممکن مدد کریں۔ ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ ہمارے آس پاس ایسے بزرگ افراد تو نہیں جو تنہا ہیں یا جن کا کوئی دیکھ بھال کرنے والا نہیں۔ اگر ہمارے پڑوس میں بھی ایسے بزرگ افراد ہیں جو تنہا رہتے ہیں یا جس کے اہل خانہ اس کا مناسب خیال نہیں رکھتے، تو ہمیں چاہیے کہ ان کی مدد کریں، اس کے ساتھ وقت گزاریں، اس کی ضروریات پوری کریں اور اسے یہ محسوس کرائیں کہ وہ تنہا نہیں ہیں ۔اس مبارک مہینے میں میں نیکیوں کی طرف سب کی توجہ زیادہ ہوتی ہے اور ہر کوئی زیادہ سے زیادہ ثواب حاصل کرنا چاہتا ہے۔ عبادات، روزے، تلاوتِ قرآن، صدقہ و خیرات کے ساتھ ساتھ اگر ہم اپنے گھروں میں اور اپنے اردگرد موجود بزرگوں کی خدمت کریں تو یہ بھی ایک بہت بڑی نیکی ہوگی۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری آئندہ نسلیں بھی ہمارا خیال رکھیں تو ہمیں خود مثال قائم کرنی ہوگی۔ اگر ہم آج اپنے بزرگوں کی خدمت کریں گے، ان کے ساتھ محبت اور عزت سے پیش آئیں گے، تو ہماری آنے والی نسلیں بھی یہی رویہ اپنائیں گی۔ اس لیے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ بزرگوں کی خدمت ایک سماجی سرمایہ کاری بھی ہے، جس کا فائدہ ہمیں آئندہ زندگی میں ضرور ملے گا۔
بزرگوں کا خیال رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم ان کے جذبات اور احساسات کا بھی خیال رکھیں۔ بڑھاپے میں انسان کی جسمانی طاقت تو کمزور ہو ہی جاتی ہے، لیکن ساتھ ہی وہ جذباتی اور ذہنی طور پر بھی حساس ہو جاتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اس کی بات سنی جائے، اسے اہمیت دی جائے، اس کے خیالات اور تجربات کی قدر کی جائے۔ رمضان المبارک ایک ایسا موقع ہے جب ہم انہیں یہ احساس دلا سکتے ہیں کہ وہ ہمارے لیے کتنے قیمتی ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ان کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزاریں، ان کے مسائل سنیں، ان کے لیے محبت بھرے الفاظ ادا کریں، ان کے لیے دعائیں کریں اور ان کے لیے وہ سب کچھ کریں جس سے انہیں خوشی ملے، کیونکہ یہ ایک ایسا عمل ہے جس سے نہ صرف ہمیں اللہ کی رضا حاصل ہوتی ہے بلکہ ہمارے معاشرے میں محبت، ہمدردی اور اتحاد کو بھی فروغ ملتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اس بابرکت مہینے میں اپنے بزرگوں کے ساتھ بہترین سلوک کریں، ان کی خدمت کریں، ان کے جذبات کا احترام کریں اور ان کے لیے زیادہ سے زیادہ آسانیاں پیدا کریں۔ یہ نہ صرف ہمارا دینی اور اخلاقی فریضہ ہے بلکہ یہ ہمیں روحانی سکون اور خوشی بھی فراہم کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس رمضان المبارک میں اپنے بزرگوں کی خدمت کا موقع عطا فرمائے اور ہمیں اس میں کامیاب کرے۔ آمین
(علی گڑھ مسلم یونیورسٹی )
[email protected]