ہندوستان کا اگلا صدر جمہوریہ کون ہوگا؟ اس سوال پر کافی سسپنس ہے تاہم یہ بات یقینی ہے کہ جو بھی صدر ہوگا وہ بی جے پی کی زیر قیادت این ڈی اے کا امیدوار ہی ہوگا۔ اس کے لئے بی جے پی نے زبردست مہم شروع کی ہے اور بہت ہی سلیقے سے اپنے امیدوار کے حق میں اتفاق رائے کے لئے راہ ہموار کی ہے۔ تاملناڈو میں اے ’’آئی اے ڈی ایم کے‘‘ کے حریف گروپس نے بھی بی جے پی امیدوار کی حمایت سے اتفاق کیا ہے جبکہ تلنگانہ کے وزیر اعلیٰ کے سی آر نے مشروط حمایت کا اعلان کیا اور کہا کہ وہ بی جے پی امیدوار کی تائید ضرور کریںگے تاہم حکومت کو تلنگانہ کے مفادات کا لحاظ کرنا ہوگا۔ امیدوار کے نام کے تعین سے پہلے بی جے پی نے بیک وقت کئی محاذوں پر کامیابی حاصل کی۔ ایک تو جن ریاستوں میں بی جے پی کی حکومتیں نہیں ہیں‘ وہاں کے حالات کچھ ایسے کردیئے گئے کہ اُن ریاستوں کی قیادت خوف زدہ ہے۔ جیسے بہار میں لالو پرساد یادو کے خلاف چارہ اسکام سے متعلق سپریم کورٹ کے احکام کے بعد بی جے پی نے اعلان کیا ہے کہ ناگزیر حالات میں وہ بہار میں نتیش کمار حکومت کی حمایت کرے گی۔ اس طرح لالو پرساد کے حلیف کو تعاون فراہم کرنے کی پیش کش کرتے ہوئے بی جے پی رقیب سے رفیق بن گئی اور نتیش کمار ماضی میں بی جے پی کے حلیف رہ چکے ہیں۔ تامل ناڈو میں متحارب گروپس جو جیا للیتا کی وراثت کی برقراری کے لئے ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کے لئے کوشاں ہیں‘ انہیں بھی بی جے پی نے چارہ ڈال رکھا ہے۔ اس بات کا کامل یقین ہے کہ اے آئی ڈی ایم اے کی مکمل حمایت حاصل رہے گی۔
دہلی میں کجریوال کو جس طرح سے اُلجھا دیا گیا ہے، اس کے بعد دیگر ریاستوں کی حکومتوں میں بھی اندیشے پیدا ہوگئے ہیں کہ بی جے پی قیادت اور مرکزی حکومت اپنے مفادات کی خاطر ان حکومتوں کا تختہ اُلٹ سکتی ہے۔ اس پس منظر میں بی جے پی کا امیدوار چاہے کوئی بھی ہو وہ آسانی کے ساتھ صدر جمہوریہ منتخب ہوسکتا ہے۔ اس وقت جو نام زیر غور ہیں ان میں آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت، شرد پوار، وینکیا نائیڈو اور سشما سوراج، نجمہ ہبت اللہ قابل ذکر ہیں‘ جب کہ موجودہ صدر پرنب مکرجی کی دوسری میعاد بھی خارج از امکان نہیں کیوں کہ پرنب مکرجی نے کئی موقعوں پر وزیر اعظم نریندر مودی کی ستائش کی ہے، حالانکہ وہ کٹر کانگریسی رہے ہیں۔ شرد پوار کو مودی نے اپنے سیاسی گرو کے مماثل قرار دیا تھا۔ وینکیا نائیڈو کو مودی کا سایہ کہا جاتا ہے اور انہوں نے مودی کو بھگوان کا اوتار قرار دیا ہے۔ موہن بھاگوت نے اگرچہ کہ اس عہدہ میں دلچسپی ظاہر نہیں کی تاہم شیوسینا کے بشمول کئی جماعتوں نے ان کی بھرپور حمایت کی ہے۔ وہ جماعتیں جو ملک کو ہندو راشٹریہ بنانے کا خواب دیکھ رہی ہیں‘ ان کے لئے موہن بھاگوت ایک آئیڈیل امیدوار ہیں‘ کیوں کہ اپنی زندگی آر ایس ایس میں گذارنے والے بھاگوت نے آر ایس ایس کی جڑوں کو پورے ملک میں پھیلادیا ہے۔ آج پرائمری اسکولس سے لے کر پی ایچ ڈی تک میکانک سے انجینئر تک، تعلیم یافتہ، غیر تعلیم یافتہ ہر شعبہ حیات سے تعلق رکھنے والے افراد کی ذہنی فکری تربیت آر ایس ایس نے کی جس کی بدولت بی جے پی غیر معمولی اکثریت سے اقتدار پر آسکی۔ نوٹ بندی سے متعلق آر ایس ایس کی مکمل حمایت اور رضامندی حکومت کو حاصل رہی جس کا آر ایس ایس کی سالانہ رپورٹ میں ذکر کیا گیا ہے۔ یہ پہلا موقع ہوگا جب حکومت اور صدر ہم خیال ہوںگے۔ چوں کہ این ڈی اے اکثریت میں ہے اور وہ دستور میں ترمیم کے لئے مسودۂ قانون کو آسانی سے منظور کرواسکتی ہے۔ البتہ یہ بھی پہلا موقع ہوگا کہ ملک کا صدر جمہوریہ واقعی طاقتور ہوگا کیوں کہ بی جے پی حکومت کا ریموٹ کنٹرول آر ایس ایس کے ہاتھ میں ہے۔ عام طور پر ملک کا صدر جمہوریہ اختیارات کے لحاظ سے بااثر ضرور ہوتا ہے تاہم اس کا ریموٹ کنٹرول حکومت کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ ماضی میں ایسی کئی واقعات پیش آئے جب صدر جمہوریہ محض ربر اسٹامپ کے طور پر استعمال کئے گئے۔ چاہے وہ 1975ء میں ایمرجنسی کے اعلان کے لئے اندراگاندھی کے فیصلے پر صدر جمہوریہ فخرالدین علی احمد کی مہر ہو یا 1984ء میں صدر جمہوریہ گیانی جیل سنگھ کے علم میں لائے بغیر گولڈن ٹیمپل امرتسر میں فوج کے ذریعہ آپریشن بلواسٹار کا بدبختانہ واقعہ ہو۔ ویسے بھی ہندوستان کا صدر سربراہ مملکت ضرور ہوتا ہے مگر ملکہ برطانیہ کی طرح اس کی کارکردگی محض رسمی ہوتی ہے۔ حکومت کی تمام سرگرمیاں حتیٰ کہ تمام قوانین حکومت کی پالیسیوں سے متعلق فیصلے صدر کے نام سے ہی ہوتے ہے۔
ملک کے اگلے صدر جمہوریہ کا انتخاب 25؍جولائی 2017ء سے پہلے ہونا ہے۔ یہ انتخاب الکٹورل کالج کے ذریعہ ہوتا ہے جو پارلیمان کی دونوں ایوانوں کے منتخبہ ارکان‘ 29ریاستوں کی قانون ساز اسمبلیوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں دہلی اور پانڈیچری کی اسمبلیوں کے ارکان پر مشتمل ہوتا ہے۔ الیکٹورل کالج 776 ارکان پارلیمان 4120 ارکان اسمبلی پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس کالج کے ووٹوں کی تعداد 10لاکھ 98ہزار 882 ووٹ ہوتی ہے جسے 5لاکھ 49ہزار 442ووٹ مل جائے وہ امیدوار کامیاب ہوسکتا ہے۔ اس وقت الیکٹورل کالج میں این ڈی اے کے ووٹوں کی تعداد 5لاکھ 27ہزار 371 ہے جو 48.10 فیصد ہے۔ یو پی اے کے ووٹوں کی تعداد ایک لاکھ 73ہزار 849 ہے اور مخالف بی جے پی جماعتوں یعنی ترنمول کانگریس، سی پی ایم، وائی ایس آر کانگریس، این سی پی، ایس پی، بی ایس پی، عام آدمی پارٹی، آر جے ڈی، آل انڈیا یونائٹیڈ ڈیموکریٹک فرنٹ، لوک دل ، جنتادل سیکولر، جے ایم ایم، مجلس اتحادالمسلمین، سی پی آئی، جموں کشمیر نیشنل کانگریس کے ووٹوں کی تعداد 2لاکھ 60ہزار 392ہے۔ غیر جانبدار جماعتوں یعنی اے آئی اے ڈی ایم کے، بی جے ڈی، ٹی آر ایس اور بعض آزاد امیدواروں کے ووٹ ایک لاکھ 33ہزار 260ہے۔ اے آئی اے ڈی ایم کے اور ٹی آر ایس کی حمایت کے اعلان سے پہلے تک این ڈی اے کو اپنے امیدوار کی کامیابی کے لئے 20ہزار مزید ووٹوں کی ضرورت تھی‘ جو اب باقی نہیں رہی۔
امیت شاہ، نریندر مودی اور بی جے پی کے شاطر دماغوں نے اپنے امیدوار کی کامیابی کے لئے بہت محنت کی ہے۔ کانگریس نے بھی یو پی اے کے امیدوار کے حق میں راہ ہموار کرنے کی غرض سے سرگرمیوں کا آغاز کردیا ہے۔ چوں کہ راہول گاندھی اپنے سابقہ تمام محاذوں پر ناکام ثابت ہوئے جس کی بناء پر خود سونیا گاندھی ایک بار پھر میدان میں اُتر گئی ہیں۔ انہوں نے این سی پی، نیشنل کانفرنس، ترنمول کانگریس، نتیش کمار وغیرہ سے بات چیت کا آغاز کردیا ہے۔ تاہم یہ بات یقینی ہے کہ این ڈی اے کا امیدوار کامیاب ہوگا۔ کیوں کہ مخالف بی جے پی جماعتوں میں نہ تو اتحاد ہے نہ ان میں اتنی سمجھ بوجھ نظر آتی ہے اور نہ ہی دور دور تک ایسی کوئی شخصیت نظر آتی ہے جو بی جے پی کی تیزی سے بڑھتی ہوئی طاقت کو روک سکے۔ کانگریس مودی کے خلاف شخصی مہم، شخصی حملے ختم کردیئے ہیں کیوں کہ اس سے اس کا الٹا ہی اثر ہونے لگا ہے اس کے بچائے حکومت کی کارکردگی پر سوالات اٹھائے جارہے ہیں ۔ بی جے پی نے میڈیا کو غیر بی جے پی قائدین‘ چیف منسٹرس کے مختلف اسکامس کو اُچھالنے کے لئے مصروف کردیا ہے۔ لہٰذا جن جن محاذوں پر بی جے پی حکومت ناکام رہی ہے اس پر تو کوئی آواز نہیں اٹھتی۔ کجریوال یا پھر طلاق ثلاثہ جیسے مسائل پر میڈیا دن رات بے تکی، بے پرکی اڑائے جاتا ہے۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ اگلے چند دنوں میں موہن بھاگوت کو صدارتی امیدوار کے طور پر پیش کرنے کیلئے میڈیا کے ذریعہ مہم چلائی جائے گی ان کا دیگر امیدواروں کے ساتھ تقابل کیا جائے گا۔ پہلے ہی سے ہم یہ بتا دیتے ہیں کہ میڈیا کے ذریعہ ہونے والے رائے شماری میں موہن بھاگوت کے حق میں 92فیصد ہندوستانی عوام کی تائید ہوگی۔ جس سے مجبور ہوکر بھاگوت جی کو آر ایس ایس کے سربراہ سے ہندوستان کے سربراہ کا عہدہ سنبھالنے کے لئے مجبور ہوجانا پڑے گا۔ چوں کہ کانگریس کی قیادت بہت کمزور ہے اور بیشتر کانگریسیوں کا تعلق کہیں نہ کہیں آر ایس ایس سے رہا ہے۔ اس لئے اس موقع پر کراس ووٹنگ کے امکانات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
بہرحال 1947ء سے 2017ء تک راجندر پرساد، ایس رادھا کرشنن، ڈاکٹر ذاکر حسین، وی وی گری، فخرالدین علی احمد، نیلم سنجیوا ریڈی، ذیل سنگھ، وینکٹ رامن، شنکر دیال شرما، کے آر نارائنن، ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام، پرتیبھا پاٹل اور پرنب مکرجی اس باوقار عہدہ پر فائز رہے۔ فخرالدین علی احمد کی نیک نامی ایمرجنسی کی وجہ سے متاثر ہوئی۔ پرتیبھا پاٹل کو کارکردگی کے اعتبار سے بدترین صدر سمجھا جاتا ہے۔ ڈاکٹر رادھا کرشنن اور کے آر نارائنن معقول صدور تھے۔ البتہ ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام صحیح معنوں میں عوامی صدر تھے جنہوں نے راشٹرپتی بھون کے دروازے عوام کے لئے کھول دیئے تھے۔ گجرات فسادات کے بعد بی جے پی نے اگرچہ کہ انہیں صدارتی عہدہ پر فائز کیا تاہم مسلم کش فسادات پر ایک حساس انسان کی حیثیت سے وہ تڑپ اٹھے تھے اور وزیر اعظم واجپائی کے مشورے کو نظر انداز کرتے ہوئے انہوں نے گجرات کے فساد سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا۔ عوام سے ملاقات کی۔ متاثرین کے زخموں پر مرہم رکھنے کی کوشش کی۔ غالباً یہ واحد صدر جمہوریہ تھے جنہوں نے انہیں صدر جمہوریہ کے عہدہ پر فائز کرنے وا لی جماعت کی پرواہ کئے بغیر اپنے اصولوں کو برقرار رکھا اور ایسے بلس کو منظوری نہیں دی جو ان کے ضمیر کے منافی تھے۔
نوٹ : مضمون نگارایڈیٹر ’’گواہ‘‘ اردو ویکلی‘ حیدرآباد ہیں ۔
فون9395381226