عشرت جہاں
عورت نرمی، شفقت ،وفا ، ممتا کی جذبات سے گندھی ربِ کائنات کی خوبصورت تخلیق ہے اور اسلام وہ واحد مذہب ہے، جس نے عورت کو خاص مقام ومرتبہ عطاکیا ہے۔ کبھی اس کی قدموں تلے جنت رکھ کر اس کی عظمت کو چارچاند لگائی تو کبھی نازک ا?بگینہ کا لقب دے کر اس کی لطافت کوسراہا گیا اوراس کے ساتھ نرمی کی برتائو کی تلقین کی گئی۔ لیکن عورت کو اس کی اصل مقام ومرتبہ پر فائز رکھنے کے لئے مردکو قوّام کی صورت میںاس پر ایک درجہ زیادہ عطا کیا گیا جو اس کی محافظت اورمعیثت کاذمہ دار ہے۔
مر دکو اپنی اس ذمہ داری کا احساس دِلانابھی ایک عورت ہی کی ذمہ داری ہے کیونکہ مرد عورت ہی کی زیر تربیت ہوتا ہے۔ یوں ایک عورت معاشرے کوبگاڑ نے یاسنوارنے کی طاقت اپنے اندر رکھتی ہے کیونکہ بچے کی پہلی درس گاہ اس کے ماں کی گود ہے، بچہ جو کچھ وہاں سے سیکھتا ہے وہی اسکی شخصیت کی بنیاد بنتا ہے اور معاشرہ اس کاعکس پیش کرتا ہے لہٰذا معاشرے کی سدھار میں خود ایک عورت ، ایک ماںکی تربیت نہایت اہم ہے۔ نپولین کا قول ہے: تم مجھے اچھی مائیں دو، میں تمہیں اچھا معاشرہ دوں گا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کی لئے جنت میں ا پنے ساتھ کی بشارت دی، جس نے اپنی بیٹیوں کی پرورش پر، تعلیم و تربیت پر، اورپھر انہیں اپنے گھر بسانے پرخصوصی توجہ دی۔ کیا آ ج کا معاشرہ عورت کے اس مقام کی عکاسی کرتا ہے؟ آج عورت کی بدحالی کاسبب اس کی اپنی مقام سے بے خبری ہے۔
وہ حقوق کے نام پر کھلونا بنادی گئی۔اسی معاشی سفر میں گاڑی کا پہیہ بناکر دوہری ذمہ داری کا مکلف بنایا گیا اوروہ اپنی اصل ذمہ داری تربیتِ اولاد سے دور کردی گئی، جس کالازمی نتیجہ خاندانی ٹوٹ پھوٹ ، بچوں کی کردار و گفتار اور ان کی بودوباش میں خرابی کی صورت میں نکلا ، اورمعاشرہ اچھے انسانوں ،اچھے شہریوں ، اچھے شوہروں ، فرما نبردار بیٹوں ، شفیق باپوں ،باہمت بھائیوں سے محروم ہوگیا۔ عورت جب ترقی اور آزادی کی نام پر قرآن وسنت سی دور ہوئی ، اپنی پہچان کوکھویا ، اپنی مقام ومرتبہ کو کھویا تو معاشرے نے وہ صورت اختیار کی جو آج ہماری سامنے ہے۔ معاشرے کی سدھار میں چونکہ ایک بڑا حصہ عورت کا ہے لہٰذا اُسے اپنے فرائض کا ادراک کرناچاہئے۔ نادانی سے اگر معاشرے کی بگاڑ کا حصہ بن گئی ہیں تو اب معاشرے کو تبدیل کرنے میں اپنا حصہ بقدر ضرورت ڈالنا ہوگا تاکہ برباد ہوتے معاشرتی اقدار کو بحال کیا جاسکے۔یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ معاشرے کی تشکیل صرف مرد تک ہی محدودنہیں بلکہ عورت بھی اس میں برابر کی حصہ دار ہے۔
اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے :ترجمہ۔’’لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمہارے لئے قبیلے بنا دئے تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔گویا مرد اور عورت کو بنیادی ستون قرار دے کر ان کی برابر ی کا اعلان کیا گیا ہے۔ایک متوازن اور صالح معاشرے کے قیام کے لئے دین اسلام نے مرد اور عورت دونوں کے لئے حقوق اور فرائض کا تعین کیا ہے اور اپنی تعلیمات کا مخاطب بھی دونوں کو ہی قرار دیا ہے۔جہاں ایک گھر کی تعمیر مرد کی مرہونِ منت ہے وہاں اس کی شیرازہ بندی کا باعث عورت کی ذات ہوتی ہے۔عورت کے وجود سے ہی گھر آباد ہوتا ہے اور گھر کے تمام افراد ایک لڑی کی شکل میں پروئے ہوتے ہیں۔قرآن کریم میں لاتعداد مقامات پر عورتوں کی مختلف حیثیتوں میں ان کے حقوق اور فرائض کی وضاحت ملتی ہے۔
انہیں کسب معاش کا حق دیا گیا ہے۔انہیں وراثت میں حصہ دار ٹھہرایا گیا ہے،اور انہیں ہر طرح کا معاشرتی ،معاشی ،قانونی اور اخلاقی تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔ماں گھر میں ایک ایسی قوت ہے جو صحیح تربیت اور ایثار کے ہتھیار سے اپنی اولاد کو منشاء خدا وندی کے مطابق ڈھالتی ہے ،اسی لئے ماں کی اطاعت کے نتیجے میں جنت کی خوشخبری دی گئی ہے۔گھریلو ذمہ داریوں کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ عورت کے لئے امور خانداری کے علاوہ دنیا کے باقی کام ممنوع ہیں۔دین اسلام نے واضح طور پر بتادیا ہے کہ مرد اور عورت کی تخلیقی بنیاد ایک ہے۔قرآن کریم یں جہاں کہیں بھی فضیلت انسانی کا ذکر آیا ہے اس میں مرد اور عورت دونوں برابر کے شریک ہیں۔تقویٰ اور آخرت کی فلاح کا جو معیار مرد کے لئے مقرر کیا ہے ،وہی عورت کے لئے بھی ہیں۔سورۃ الخل میں ارشاد باری تعالیٰ ہے؛ترجمہ۔’’جو نیک کام کرے خواہ مرد ہو یا عورت وہ مومن ہو تو ہم اسے دنیا میں پاکیزہ زندگی دیں گے اور ان کے اچھے کاموں کا جو وہ کرتے رہے اجر دیں گے۔‘‘
قرآن کریم نے مخاطب کرتے وقت مسلمین کے ساتھ المسلمات اور مومنین کے ساتھ المومنات کہہ کر مخاطب کیا۔سرکار دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کی تمام حیثیتوں میں یعنی ماں بیوی اور بیٹی کی حیثیت سے قابل عزت ٹھہرایا ہے۔ماں کی حیثیت کے لئے آپ ؐ نے فرمایا :بے شک اللہ نے تم پر مائوں کی نافرمانی اور بیٹیوں کا زندہ گاڑنا حرام ٹھہرایا ہے۔‘‘بیوی کی حیثیت کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تم میں سے اچھا وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لئے اچھا ہے اور میں تم سب میں اپنے گھر والوں کے لئے اچھا ہوں۔عورت کی طبعی نزاکت کو مدنظر رکھتے ہوئے شتربان سے آپ ؐ نے فرمایا :’’شیشوں کو ذرا سنبھال کر لے چلو۔‘‘اس لئے بہنو!آپ خوداپنی تربیت قرآن و حدیث کی روشنی ، امہات المومنین ؓوصحابیاتؓ کی ملی نمونوں سے کرکے اپنے جگر گوشوں کو ایک اچھا مسلمان ، ایک بہترین شہری ،کامیاب لیڈر بنانا ہوگا تاکہ معاشرہ امن وسکون کا گہوارہ بن سکے۔ ہماری عورت کو بازارکی زینت بننے کے بجائے گھر میں بیٹھ کر اولاد کی تربیت کرنی ہوگی کیونکہ پیٹ بھرنے کاوعدہ تو اللہ نے کیا ہے، رزق ہمیں ایک حد تک کوشش کے نتیجے میں مل جائے گی لیکن اولاد کی تربیت کی ذمہ داری ماں پرعائد کی گئی ہے۔ بہترین معاشرے کے قیام کامطالبہ بھی کیا گیا ہے اور یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب آج کی عورت اپنی اولاد کی بہترین تربیت پرتوجہ دے۔ آج کے ہی بچی کل کے شہری، قوم کے سپہ سالار ،محافظ وحکمراں ہوں گے۔
(مضمون میں ظاہر ک گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)