عابد حسین راتھر
روئے زمین پر ابنِ آدم کا وجود حادثاتی طور پر نہیں ہوا ہے بلکہ اللہ سبحان وتعالیٰ نے انسان کو کُرۂ ارض پر کچھ اہم ذمہ داریوں اور فرائض کے ساتھ کسی خاص اور بڑے مقصد کیلئے بھیجا ہے۔ اللہ سبحان وتعالیٰ نے ابنِ آدم کے دل میں جذبہ ایثار و مُحبت پیدا کیا ہے ،جسکی بنیادی وجہ یہی ہے کہ انسان کے اندر یہ احساسِ ذمہ داری پیدا ہو جائے کہ حسبِ ضرورت وہ دوسروں کے کام آئے اور اُن کے مشکلات، مسائل اور پریشانیوں میں اُنکی مدد کرے۔ دوسروں کے کام آنا اور اُنکی مدد کرنا انسانیت کا بنیادی فریضہ ہونے کے ساتھ ساتھ انسان کے اوپر اللہ تعالیٰ کی سونپی ہوئی ایک اہم ذمہ داری ہے اور حقوق العباد کا ایک اہم جُز ہے۔ کیونکہ اگر انسانی تخلیق کی وجہ صرف اللہ کی عبادت کرنا ہوتا تو اِس کیلئے اللہ نے پہلے ہی بے شمار فرشتے تخلیق کئے تھے جو دن رات ،ہر گھڑی، ہر لمحہ اللہ کی عبادت اور اللہ کی ذِکر میں مشغول رہتے تھے، رہتے ہیں اور روزِ قیامت تک رہیں گے۔ لہٰذا مندرجہ بالا سطور کو زیرِ غور رکھ کر انسان کے ذہن میں یہ بات آتی ہے کہ رُوئے زمین پر ہر انسان چاہے کسی بھی شعبہ کے ساتھ وابستہ کیوں نہ ہو، کسی بھی منصب پر فائز کیوں نہ ہو، اُس کے اُوپر کچھ ذمہ داریاں اور کچھ فرائض عائد ہوتےہیں اور اِن ذمہ داریوں اور فرائض کو ایمانداری، خُوش اخلاقی اور خوش اسلوبی سے سرانجام دینا اُس کا دینی، اخلاقی اور انسانی فریضہ ہونے کے علاوہ اُسکی تخلیق کے مقصد کا ایک اہم حصہ ہے۔ اگر کوئی انسان خدا نخواستہ اپنے اوپر عائد اِن فرائض اور ذمہ داریوں کو سرانجام دینے سے منہ موڈ لیتا ہے یا لاپرواہی کا مظاہرہ کرتا ہے تو وہ انسانیت کے درجے سے گِر کر حیوانات کے صف میں شامل ہوجاتا ہے، جن کے اوپر نہ کوئی ذمہ داری عائد ہوتی ہے نہ کوئی فرض۔ ایسے انسانوں کی وجہ سے پھر بہت سارے دوسرے لوگوں کو کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور زندگی کے بدترین اور ناپسندیدہ تجربات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
آج کل بیشتر سرکاری دفاتر اور سرکاری اداروں میں بنی نوع انسان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے عائد کردہ ذمہ داریوں اور فرائض سے سب سے زیادہ منہ موڈ لیا جاتا ہے اور عوامی و انسانی حقوق کی سب سے زیادہ پامالی اِنہی دفاتر میں ہوتی ہے۔ انسان کو زندگی کا سب سے تلخ، ناخوشگوار اور ناپسندیدہ تجربہ آجکل کے سرکاری دفاتر اور سرکاری اداروں میں ہوتا ہے کیونکہ کسی بھی سرکاری دفتر یا ادارے کی حالت زار دیکھ کر دِل بہت افسردہ اور اُداس ہوتا ہے۔ ایک عام انسان حکومت کے بدعنوانی کے خاتمے اور عوامی سہولیات کی دستیابی کے بڑے بڑے دعوؤں سے بدظن ہوتا ہے۔ بیشتر سرکاری دفاتر کے اکثر ملازمین کی ناخواندگی، ناتجربہ کاری اور نااہلی کا خمیازہ عام انسان کو بھگتنا پڑتا ہے۔ کچھ اَن پڑھ، جاہل اور نابکار ملازمین اپنے آپ کو سرکاری دفاتر کے تانا شاہ سمجھ کر کام کرنے کے اوقات میں یا تو آپسی گپ شپ میں مست ہوتے ہیں یا پھر اپنے موبائل فون کے اسکرین میں گُھسے ہوئے ہوتے ہیں اور اس بات کی بالکل بھی پرواہ نہیں کرتے ہیں کہ کوئی بندہ اُنکے سامنے ایک آدھے گھنٹے سے کھڑا کسی کام کیلئے آیا ہے اور سرکار نے اِن ملازمین کو عوام کی خدمت، انکی سہولیات اور انکے مسائل کا حل نکالنے کیلئے وہاں تعینات کیا ہے۔ اب اگر کبھی کبھار ایسے ملازمین میں کوئی ایک آدھ ملازم گپ شپ سے تنگ آکر یا پھر اپنے موبائل فون سے بُور ہوکر شوق کی خاطر وہاں آئے، کسی انسان کا کوئی مسئلہ حل کرنے کیلئے تیار بھی ہوتا ہے تو اسکا رویہ ایسا ہوتا ہے، جیسے وہ اُس انسان پر کوئی احسان کرتا ہے اور اُسکے تیوَر اِتنے ڈراونے ہوتےہیں کہ بندہ دوسری بات کرنے سے اجتناب ہی کرتا ہے اور اکثر بیچارے سادہ لوح انسان خوف وہراس کی وجہ سے اپنے شک و شبہات اور باقی سوالات پوچھنے سے احتراز ہی کرتے ہیں۔ سرکاری دفتر میں تقرری کے بعد اکثر ملازمین اس بات کو بالکل ہی بھول جاتے ہیں کہ عوام کے تئیں اُنکے کچھ فرائض بھی ہیں اور کچھ ذمہ دایاں بھی۔ بیشتر ملازمین اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ ان کی تقرری لوگوں کی سہولیات کیلئے کی گئی ہے نہ کہ ان کو اپنی تانا شاہی دکھانے کیلئے۔ ایک سرکاری دفتر یا ادارے میں داخل ہوتے ہی ایک عام آدمی کا سامنا سب سے پہلے وہاں کے سب سے چھوٹے اور چوتھے درجے کے ملازم سے ہوتا ہے مگر اُن میں سے اکثر ملازمین اپنے آپ کو یہ جھوٹی تسلی دینے کیلئے کہ وہ محکمہ کے حاکمِ کُل ہیں، بلاوجہ لوگوں پر اپنا رُوب جماتے ہیں اور ان کے ساتھ بڑی بد تمیزی سے پیش آتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ شرافت اور نرم طبیعت ہر جگہ انسان کیلئے عزت کا باعث بنتی ہے لیکن موجودہ صورتحال دیکھ کر اس قول کے ‘ہر جگہ میں سے سرکاری دفاتر اور اداروں کو نکالنے کی نوبت آگئی ہے کیونکہ وہاں ایک انسان کی شرافت اور نرم طبیعت کو اُسکی سادگی، پسماندگی، ناخواندگی اور بیوقوفی سمجھ کر اُسکے ساتھ بہت ہی بُرا، بے ادبانہ اور نازیبا سلوک اختیار کیا جاتا ہے۔
اگرچہ اس مضمون میں سرکاری دفاتر اور اداروں کے بیشتر ملازمین کا منفی پہلو غالب رہا ہے لیکن اس بات سے بالکل بھی انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ آج کے دور میں بھی بہت سارے ملازمین اپنے فرائض اور اپنی ذمہ داریاں بڑی ایمانداری، خوش اسلوبی اور خوش اخلاقی سے انجام دیتے ہیں۔ وہ اپنے فرائض سے بخوبی واقف ہیں اور اپنے دفاتر میں عوام کی ہر ممکن مدد کرتے ہوئے ان کے ساتھ احترام سے پیش آتے ہیں۔ لیکن جب چند ہیرے بہت ساری کیچڑ میں پھنس جاتے ہیں تو انکی چمک دھیمی اور دُھندلی پڑجاتی ہے اور پھر وہ نظروں سے اوجھل ہوجاتے ہیں۔بالکل ایسے ہی سرکاری دفاتر کے ان خوددار، باصلاحیت اور ایماندار ملازمین کی چمک بھی دھیمی پڑگئی ہے اور وہ بھی بدنام ہوگئے ہیں۔ مضمون کے آخر میں یہ بات کہنی ضروری ہے کہ ایک انسان چاہے کسی بھی شعبہ کے ساتھ وابستہ کیوں نہ ہو، کسی بھی عُہدے پر فائز کیوں نہ ہو، اُس پر چاہے کتنی بھی نگرانی کیوں نہ رکھی جائے، جب تک اُس کے دل میں خوفِ خدا نہ ہوگا اور اُسکا ضمیر زندہ نہ ہوگا، وہ اپنی ذمہ داریوں اور اپنے فرائض کو پوری ایمانداری اور مکمل ذمہ داری سے انجام نہیں دے سکتا ہے۔ لہٰذا ہر ذِی حس انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم اور اخلاقیات سے بھی روشناس کروائے تاکہ کل مستقبل میں اُسکے بچے اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کو احسن طریقےپر نبھا سکیںاور اِسکے ساتھ ساتھ ہر ایک سرکاری ملازم کو چاہیے کہ وہ اس بات کو ذہن نشین کرے کہ کل قیامت کے روز ہر انسان کو اپنے اعمال کیلئے جوابدہ ہونا ہے اور وہاں ہر ایک اعمال کی پُرسِش ہوگی، لہٰذا روزِ محشر کے دن شرمندگی سے بچنے کیلئے اپنی ذمہ داریوں کو ایمانداری سے نبھانا اور عوام کے ساتھ نرمی اور خوش اخلاقی سے پیش آنا بہت ہی لازمی ہے۔
(رابطہ۔ : 7006569430)
[email protected]