آہ! پروفیسر مخمور حسین بدخشی

ابھی مظفر ایرج ؔ کے فراق میں ہماری آنکھیں پر نم ہی تھیں کہ ایک اور منحوس خبر موصول ہوئی کہ جموں و کشمیر میں افسانہ نگاری کے اُفق کا ایک اور ستارہ ٹوٹ گیا۔ پروفیسر مخمور حسین بدخشی اللہ کو پیارے ہوگئے۔(ا نا لللہ ونا الیہ راجعون)۔پروفیسر مخمور بدخشی کا شمار ان ادباء میں ہوتا ہے جنہوں نے کشمیر میں اردو فکشن کی بنیاد رکھی ہے۔ آپ کا اصلی نام محمد حسین بدخشی ہے۔1938 میں شہر خاص کے تاریخی علاقے نوہٹہ کے بغل میں ملارٹہ میں تولد ہوئے۔میڑک کا امتحان پاس کر کے 1953 میں ایس پی کالج  میں داخلہ لیا ۔ایس پی  کالج سے بی اے کا امتحان پاس کرنے کے بعد 1963 میں کشمیر یونیورسٹی سے اردو میں ایم ۔اے کیا۔ اس کے بعد محکمہ تعلیم میں ملازمت کی ۔محکمہ تعلیم میںمختلف عہدوںپر فائزہ رہ کر اسلامیہ کالج آف سائنس اینڈ کامرس  حول سرینگرکے شعبہ اردو کے صدر کی حیثیت سے سکبدوش ہوئے۔اپنی ادبی زندگی کا آغاز ۱۹۵۶ یعنی کالج کے زمانے میں ہی کیا۔ان کی سب سے پہلی کہانی ’’عبداللہ دیوانہ‘‘ بیسویں صدی میں شائع ہوئی۔۱۹۶۲ میں ان کا پہلا افسانوی مجموعہ’’نیل کنول مسکائے‘‘ ماہر لسانیات پروفیسر سید محی الدین قادری زور جو کشمیر یونیورسٹی کے اولین صدر شعبہ اُردو تھے،کی نگرانی میں منصہہ شہود پر آگیا جس کے بارے میں خود  بدخشی صاحب رقمطراز ہیں:’’ڈاکٹر صاحب مجھ سے بحثیت استاد  اور میں ن کا شاگرد اس وقت ملاجب ستمبر1961 کو میں نے جموں و کشمیر یونیورسٹی میں ایم اے میں داخل لیا۔ جب میں انٹر ویو کے سلسلے میں ان کے پاس آیا تو وہ گاندھی ٹوپی اور شیر وانی پہنے میز پر بازو لٹکائے طلبہ سے مختلف قسم کے سوالات کر رہے تھے۔۔مجھ سے پوچھا کہ آپ نے کبھی کچھ لکھا بھی ہے؟’’جی میں افسانے لکھتاہوں‘‘۔کہیں چھپ بھی گئے ہیں آپ؟‘‘ میں نے بعض رسائل کے نام بتائے ۔’’آپ مجھے اپنی کہانیاں دکھا دیجئے’’ اور پھر جب میں نے چند روز بعد انہیں کہانیاں دکھائیں  تو دو ایک روز کے بعد مجھے سے یونیورسٹی میں ملے اور کہا ۔۔۔مخمور صاحب  میں نے آپ کی کہانیاںدیکھ لی ہیں۔اب آپ انہیں ترتیب دیجئے ۔کتاب کا عنوان مقرر کیجئے  اور میں آپ کے مجموعے کو ’’ ادارہ ادیبات اردو  حیدر آباد ‘‘ سے چھاپ دوں گا‘‘(داکٹر زور استاد کے روپ میں ،شیرازہ مئی ۱۹۶۳ )
اس طرح پروفیسر مخمور بدخشی کا پہلا افسانوی مجموعہ اردو کے فکشن حلقے میں متعارف ہوا۔لیکن بد قسمتی سے 2014کے سیلاب نے کشمیر کے ہر فرد کو کسی نہ کسی رویئے سے انفرادی یا اجتماعی طور پر متاثر کیا۔اس سیلاب نے کئی کتب خانوں کو بتاہ وبرباد کیا  جس میں بدخشی صاحب کا ذاتی کتب خانہ بھی شامل تھا اور ان کا یہ مجموعہ بھی سیلاب کی نذر ہوگیا۔اس کے بعد۲۰۱۸ میں جاوید ماٹجی نے بدخشی صاحب کے اسے مجموعے کی پھر سے ترتیب وتزئین کر کے’’’کاغذ کے پھول‘‘عنوان سے منظر عام پر لایا۔7 اکتوبر2018کو اس کتاب کی رسم رونمائی ہوٹل ہیٹ ریک راج باغ میں انجام دی گئی، جس کی صدارت  فاروق نازکیؔ نے کی جبکہ جاوید آذرؔ بحیثیت مہمان خصوصی موجود تھے۔اسی ادبی نشست میں،میں نے پہلی بار کشمیر کے اس مایہ نار اور تاریخ ساز افسانہ نگار کو دیکھا بھی اور ان کو سنا بھی ہے۔اس کے بعد میں ان کی کہانیوں کا مطالعہ کیا۔اس جدید ایڈیشن میں بھی پروفیسر سید محی الدین قادری زور کا پیش لفظ شامل ہے۔ یہ مجموعہ ’’کاغذ کے پھول‘‘دس افسانوں پر مبنی ہے جن کے عنوانات کچھ اس طرح سے ہیں۔نور اور سائے، وادی کی رانی،انتظار، ہار جیت، عبداللہ دیوانہ ،کاغذ کے پھول ،اندھیرا اجالا، مریم ،مسجد کے زیر سایہ اور یہ خلش کہاں سے ہوئی۔ان کے افسانوں میں سماجی زندگی کی پیچید ہ صورت حال اور انسانی رشتوں کی پامالیاں صاف  دکھائی دے رہی ہے جو ایک باشعور قاری کے ضمیر کو جنجھور کے رکھ دیتا ہے۔ ان کے افسانوں میں انسانیت کا عکس دھندلاتا ہوا دیکھائی دیتا ہے۔سیاسی الجھنیں،سماجی تنائو ،تہذیبی اقدار ،ادبی رنگ ،مذہبی آہنگ  اور رومانی کہانیاں بھی ’’کاغذ کے پھول ‘‘ میں شامل ہیں۔ان کی نگاہیں کشمیر کے ظاہرو باطن پر یکساں رہتی ہیں۔زندگی کے چھوٹے چھوٹے حادثے اور خوشیاں ،اخوت اور ہمدری ان کے افسانوںمیں نمایاںہیں۔بقول بدخشی:’’تب سے بہت دن بیت گئے۔پہلگام پر بہار آگئی۔ بوڑھے چناروں کی ٹہنیوں پر نئی نئی کو نپلیں پھوٹ پڑیں۔جھرنے کے نیلے نیلے پانی میں نکھار سا آگیا اور پورے تین مہینے کے بعد بوڑھے چوکیدار کا جوان بیٹا رحمان دولہا بن کر فاطمہ کو لانے جا رہاتھا ۔وادی کی رانی کو لانے جارہا تھا۔۔!‘‘(کاغذ کے پھول۔۔ص۔۔۵۳)
بدخشی صاحب عزیز سب کے تھے ،حریف کسی کے نہیں ، اپنے حریفوں کے بھی نہیں ۔ان کے شاگروںکا  حلقہ بہت وسیع تھا۔بقول عادل اشرف ؔ:’’تقریبا دس بارہ سال پہلے مجھے  ایک خط بذریعہ ڈاک موصول ہو۔ جس میں میری ایک غزل کی بہت پذیرائی کی گئی تھی ۔یہ غزل کسی قومی رسالے  میں شائع ہوئی تھی ۔یہ خط میرے استاذی ’’مرحوم ومغفور ‘‘ پروفیسر بدخشی صاحب  نے  میرے نام لکھا تھا ۔لیکن وہ اس بات سے بے خبرتھے کہ میں  ان کا ہی ایک ادنیٰ شاگرد ہوں ۔خط انہوں نے اپنے لیٹر پیڈپر لکھ تھا جس پر ان کا لینڈ لائن فون نمبر لکھا تھا۔ میں نے اسی وقت فون ملایا  اور کہا کہ میں اشرف عادل ہوں ،پھر کیا تھا انہوں نے میرے کلام کی بہت تعریف کی ۔جب وہ مجھ سے بڑے ادب سے بات کرنے لگے تو مجھ سے رہا نہ گیا ،میں نے کہا سر  میں آپ کا فلاں طالب علم ہوں۔ اسی وقت  انہوں نے اپنا لہجہ بدل ڈالا اور مجھ سے تم ہو کر مخاطب ہوئے۔مجھے لگا کہ انھوں  نے مجھے بہت بڑے اعزاز سے نوازا۔‘‘ آپ خاصے پڑھے لکھے آدمی تھے۔انہوں نے دنیا کی مختلف زبانوں کے ادب کے علاوہ معیشت،تاریخ،سیاست اورعمرانیات کا تو بھی اچھا خاصا مطالعہ کیا تھا، جس کی وجہ سے ان کے نکتہ نگاہ اور مشاہدے میں خاصی وسعت پیدا ہوگئی تھی۔ان کا دل تعصب وحسد سے بالکل پاک تھا۔وہ مذہب ، فرقوں  یا ذات پات کی بنیاد پر تفریق کے بالکل حامی نہیں تھے۔ان کے افسانوںسے ان کی اندرونی و بیرونی  کیفیت کے اسرار و رموز عیاں ہوتے ہیں۔بلاشبہ وہ ایک بڑے ادیب،استاد اور بڑے انسان تھے۔بڑا ادیب یا بڑا ستاد اپنی زبان یا تحریر سے اپنی بڑائی کا ثبوت ہر وقت نہیں دیتا۔ان کے الفاظ اور جملے ہی پکار پکار کے گواہی دیتے ہیں۔ ان کی سب سے بڑی خوبی  یہ تھی ہر ایک کو حوصلہ افزائی سے نوازتے  رہتے تھے۔جموں و کشمیر میں اردو افسانے کی صنف کو جلا بخشنے اور اسے فروغ دینے میں جو کارنامہ پروفسیر مخمور حسین بدخشی نے انجام دیا وہ آنے والی نسلوں کے لئے مشعل راہ ثابت ہوگا۔الغرص اردو فکشن کا یہ روشن چراغ 4اگست 2021کو اپنی ساری روشنی اردو ادب کی نذر کر کے اصلی گھر کی اور روانہ  ہوگیا۔بقول ناصر کاظمیؔ ؎
زندگی جن کے تصور سے جِلا پاتی تھی
ہائے کیا لوگ تھے جو دامِ اَجل میں آئے
���
رعناواری سرینگر،موبائل نمبر؛8899037462
 
 

مخمورؔ بدخشی

اُستادِ محترم کے سانحۂ وصال پر 

م
مصدق تھے مقرر تھے معلم تھے 
شرافت اور محبت کے مجسم تھے
 
 
خ
خزانے علم کے بانٹے بہت بانٹے 
رسالے نور کے چھانٹے بہت چھانٹے
 
 
م
مکمل کرلیا ہر کام الفت سے 
محبت کی ڈگر پائی محبت سے 
 
 
و
وصال یار کے تھے وہ تمنائی 
ملے حق سے ہوئی ہے دور تنہائی 
 
 
ر
ریاضت کی محبت کی عبادت کی 
بہت اردو کی خدمت کی سخاوت کی 
 
 
ب
بجھائی پیاس پیاسوں کی، سمندر تھے
کبھی اسلامیہ کالج میں رہبر تھے
 
 
د 
دکھائی راہ سچائی کی نصرت کی 
وفاداری کی الفت کی محبت کی 
 
 
خ
خموشی سے سخن کی آبیاری کی 
فسانوں میں دلوں کی بات ساری کی 
 
 
ش 
شرافت سے وفا سے پیش آتے تھے 
جسے بھی ملتے تھے وہ اس کو بھاتے تھے
 
 
ی
یہی رستہ محبت کا دکھایا ہے 
سدا اس پر ہمیں چلنا سکھایا ہے
 
اشرف عادل ؔ
کشمیر یونیورسٹی حضرت بل سرینگر کشمیر 
موبائل نمبر؛7780806455