دنیائےطنزومزاح کے عظیم اُستاد مشتاق یوسفی کی دار فانی سے رحلت سے دل ناشاد ہو ا۔ا س انتقال پُرملال کی خبر جب فیس بک ؍ واٹس ایپ سے ملی تو یقین کریں مجھے اتنا دُکھ ہوا جتنا مرحوم کے مخصوص طرز ِتحریر کے خاتمے سے تکلیف پہنچی۔ دل سوال کر نے لگا کہ اب تحریر کے جام وہ زہر نما امرت ہمیں کون پلائے گا جس کے پینے سے مختصر وقت کے لیے ہی سہی ہم اپنی نظروں سے گر کر ندامت و پشیمانی سے چلو بھر پانی میں ڈوب مر تے ۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ بیانیہ ختم ہوتے ہی ہم پھر اس بد روح کی طرح زندہ بھی ہوجاتے جو صرف بھٹکتی ہی نہیں بلکہ اوروں کے دنیوی معاملات میں مداخلت بھی کرتی ہے۔ یوسفی ہمارے درمیان ایسے تھے جیسے درگاہوں اور مزاروں میں عقیدت مندوں پر عرقِ گلاب چھڑکنے والے بابا لوگ۔ انہی کی طرح ہمیں کسی سماجی برائی میں مبتلا پاکر ان کی تحریریں اصلاح کا پانی چھڑکتے ہوئے ہمیں بیدار کرتی تھیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ طرزِ تحریر بھی ایسا کہ برے سے برے طنز کو بھی قارئین خطیب ِجمعہ کے وعظ کی طرح برداشت کرتے ہیں ۔ یوسفی کے بہت سارے جملوں کے وسیع مفاہیم آج بھی ہماری سمجھ کی گرفت سے باہر ہیں۔ مرحوم نے اپنی زندگی میں لکھاری بہت دیکھے تھے لیکن جس قدر سماج کی دُکھتی رگ پکڑ کر خود لکھتے،اس پر کبھی کبھی گمان ہوتا کہ آپ لکھاری کم اور انسانی رگوں کے ڈاکٹر زیادہ ہیں۔۔۔ لیکن کبھی کبھی من کرتا کہ ان کی تمام تحریریں جمع کرکے آگ لگا دوں کیوں کہ جب اس ننگے اور بے قدرے سماج میں ناصح، ٹوکنے والا اور رگیں ٹٹولنے والے کی حاجت محسوس ہی نہیں کی جائے تو اخباروںا ور کتابوں میں پڑی یہ تحریریں زندہ رہ کریں بھی کیا؟ مانا کہ یہ قلمی کاوشیں صرف کچھ لوگوں کو احساس ِندامت دلاتی رہیں گی اور ان بے چاروں کی حالت یوسفی کی جاندار اور دلگداز تحریروں سے ’’رُکتے تو سفر رہتا جاتے تو صنم رہتا‘‘ جیسی ہوتی رہے گی ۔کچھ اس سماج کے مزے لینے کا سوچیں تو مشتاق یوسفی کی تحریر یاد آتی ہے کہ ایسا ہے، ویسا ہے۔۔۔ میں ان کی تحریر میں جب تبلیغ اور پندو نصیحت کے دفاتر دیکھتا ہوں تو صاحبِ تحریر کو جنتی کہے بنا نہیں رہاجا سکتا کیونکہ انہوں نے وہ کام کیا جو ائمہ مساجد منبرومحراب پہ کر تے ہیں ۔ ہاں، ان کی لکھی بہت ساری باتیں عملی شکل میں اُلٹی ثابت ہوںگی ۔ آپ لکھتے ہیں ''مسلمان صرف انہی جانوروں کو پالتے ہیں جن کا گوشت کھانا جائز ہے'' یوسفی صاحب مرحوم! اب زمانہ ایسا نہ رہا، مسلمان اب ایسے جانوروں کو زیادہ ہی پالتے ہیں جن کا گوشت حرام ہوتا ہے۔وہ کیا ہے کہ اب ہم صرف لمحوں کے قیدی مسلمان رہے ہیں، صدیوں کے نہیں۔ اسی طرح موصوف کو کراچی کی تنگ گلیوں سے شکایت تھی ہمیں مکانوں کی اونچائی سے شکایت ہے، وہاں گلیوں کی تنگی سے نکاح کی گنجائش رہتی تھی یہاں سب سے اوپری منزل سے واپس آنے تک نکاح فاسد ہونے کا خطرہ منڈلاتا ہے۔ ہاں یہ بھی بتادوں کہ انسان اب اپنا زہر صرف دل میں نہیں رکھتا ہے بلکہ سوشل میڈیا میں بھی بکھیرتا ہے۔جن دوستوں کو خواہ کسی بھی نام سے پکاریں یوسفی کو ان میں پھولوں کی خوشبو آتی تھی ، مگر ان سے کیسے کہیں وہ دوست یوسفی سے پہلے ہی مرحوم ہوچکے ہیں ۔ اب کسی کسی دشمن کے گھر سے حلوہ کی خوشبو ضرور آتی ہے۔ ایک بات یہ بھی ہے مرحوم یوسفی صاحب ! اب مرض کے مقابلے کے لیے پرہیزی کھا نے کی نہیں بلکہ لذ ت یاب مال وزر کی ضرورت ہر ایک کوپڑتی ہے اور غریب لوگوں کو اب گھر کی چھت یا چولہے سے زیادہ موبائل کی فکر پڑتی ہے، جتنا سستا چائنیز موبائل ہوگا وہ اتنا ہی گرم ہوا خارج کرتا ہے، ویسے بھی اب غریب اتنے پڑھے لکھے نہیں رہے جو منٹو یا یوسفی کو پڑھ سکیں ۔فقط اردو کی بات کررہا ہوں باقی تو سارے بے روزگار و غریب طبقہ پڑھا لکھا ہی ہے جن کو منٹو یا شیکسپیئر کوپڑھنے کی ضرورت بالکل نہیں ہے۔ یوسفی کی شخصیت کے سامنے میری لب کشائی کرناسورج کو چراغ دکھانا جیسا ہی نہیں بلکہ چراغ کو سورج دکھانے کے مانند ہو گا۔ آج وہ ہمارے درمیان نہ رہے، ویسے یہ درمیان والی بات مجھے کچھ ہضم نہیں ہوتی ، یہ خواہ مخواہ کی جملہ بازی ہے، کیونکہ قلم کا دھنی نہ بھی رہے تو اس کی کمی سے ہمارے ماڈرن سماج پر یا خود ہم پر اب کچھ خاص فرق نہیں پڑتا کیونکہ یہ وہ سماج ہے جو مردوں پر زیادہ خرچ کرتا ہے زندوں کی لاکھ مجبوریاں اور ضرورتیں ہوں ، ان کی طرف آنکھ بھی نہیں اٹھاتا اور نہ مستحق کو ایک روٹی کھلاتا ہے۔ خدا خیر کرے ! یہ میری دلی دعا ہے کہ اللہ مرحوم یوسفی کی خطائیں معاف کرے اوران کی اچھائیوں کو شرف قبولیت بخشے۔ آپ کے انتقال سے ادبی دنیا میں جو خلاء پیدا ہوا ، اللہ کے فضل واحسان سے اس کا علم صرف انہی کو ہے جو ادبی زمین اور اس کے خلاء کی کماحقہ علمیت رکھتے ہیں، باقی جو چند بے فکرے ادیب وسخنور ہیں ، ان کے لئے تو یہ ایک فرد کی موت ہے اور بس۔۔۔۔!
…………………………
رابطہ :دراس کرگل جموں و کشمیر
8082713692