مسلمانوںکے قبلہ اوّل پر اسرائیل کے ناجائزتسلط کے پچاس برس اورفلسطینی سرزمین پریہودی ریاست کے قیام کی راہ ہموارکرنے والے بال فوراعلامیہ کے ایک سوبرس مکمل ہورہے ہیں۔۷ا۱۹ء میں برطانیہ نے بال فور اعلامیہ جاری کیا تھاجوفلسطینی سر زمین پر ایک یہودی ریاست کی قیام کی توثیق کرتا ہے جب کہ ۱۹۶۷ کی جنگ میں اسرائیل نے بیت المقدس پرقبضہ کرتے ہوئے اسے اسرائیل کا دارالحکومت بنادیاتھا۔فلسطین پر اسرائیلی مظالم کے پچاس برس پورہونے پراقوام متحدہ کی جانب سے ایک دستاویزی رپورٹ جاری کی گئی ہے جس میں کہاگیاہے کہ سرائیلی پابندیوںکے سبب فلسطینیوںکی زندگی اجیرن ہوگئی ہے۔ رپورٹ میں فلسطینیوںکے خلاف اسرائیل کی جانب سے کی جانے والی انتقامی اور جارحانہ و حاسدانہ کارروائیوںکی شدیدتنقیدکی گئی ہے۔اسرائیل نے ۶۷ ۱۹ء میں جنگ کے دوران بیت المقدس پرغاصبانہ قبضہ کرلیاتھا۔اس مختصر جنگ میں عربوںکی شکست سے فلسطینیوںپر اسرائیلی کا مظالم کا جولامتناہی سلسلہ شروع ہوا ،وہ آج تک جاری ہے۔کل تلک فلسطین پرڈھائے جانے والے مظالم پر پوری دنیا کراہ اُٹھتی تھی ،خود ہندستان میں اسے نہ صرف محسوس کیا جاتاتھا بلکہ اس کے خلاف کانپور، امروہہ، سہارنپور،الہٰ باد ، سری نگراورعلی گڑھ کے علاوہ دیگرشہروںمیں فلسطینیوںکی حمایت میں مظاہرے ہوتے تھے اور اسرائیلی کے غاصبانہ قبضہ اورظلم وتشددکے خلاف ریلیاںنکالی جاتی تھیں مگر سوئے اتفاق بال فوراعلامیہ سوبرس اوراسرائیل کے فلسطین پر غاصبانہ قبضہ اورجبروتشددکے پچاس برس مکمل ہونے پر ہرطرف خاموشی اورسناٹا چھا ئے ہوئے ہیں۔ ہاں! فلسطین میں اسرائیلی عوام نے فلسطینیوںکے حق میں سڑکوںپر نکل کر اسرائیل حکومت کوآئینہ ضروردکھایا۔ دوسری طرف اسرائیلی کانگریس گولڈن جوبلی منارہی ہے۔انسانی لاشوں پر اسرائیلی ریاست کی تشکیل کے پچاس برس مکمل ہونے پر کہیں کسی طرح کی ہلچل بپانہ ہونااس بات کوظاہرکرتاہے کہ فلسطین پر ہونے والے اسرائیلی مظالم دنیا اوربالخصوص ایشیاکے انصاف پسندعوام کی توجہ حاصل کرنے میں ناکام ثابت ہورہی ہے۔اس کی دووجہیں ہوسکتی ہیں: یاتودنیا نے اسرائیل مظالم کوفلسطینیوںکے لئے روٹین کا حصہ سمجھ لیا ہے یاپھرہم اورہماری نوجوان نسلیں بے ہوچکی ہیں جس کی وجہ سے دھیرے دھیرے مسئلہ فلسطین کوہم فراموش کرتے جارہے ہیں۔یہ دونوںصورتیں انسانی اقدار،جمہوری روایات اور حق وانصاف کے خلاف ہیں۔ فلسطین پر اسرائیلی قبضہ اورمظالم کے پچاس برس مکمل ہونے پر اقوام متحدہ نے ۱۳؍مئی۲۰۱۷ء کوایک تفصیلی رپورٹ جاری کیا۔ر پورٹ میں فلسطین کے مقبوضہ بیت المقدس اور دوسرے شہروں پر صہیونی ریاست کے پچاس سال سے قائم ناجائز تسلط اور مقامی فلسطینی باشندوں کے خلاف انتقامی پالیسیوں پر شدید تنقید کی گئی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بیت المقدس کے فلسطینی باشندوں کی بنیادی انسانی ضروریات کے فقدان کی بنیادی وجہ اسرائیلی قبضہ اور صہیونی ریاست کی انتقامی پالیسیاں ہیں۔
یہ رپورٹ اقوام متحدہ کے ہائی کمیشن برائے انسانی حقوق اوچا کے سربراہ ڈیوڈ کارڈن نے ترتیب دی ہے ۔ انہوں نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ بیت المقدس اور دوسرے مقبوضہ فلسطینی شہروں میں فلسطینی عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ تعدی و تشدد، جبری شہر بدری، مکامات مسماری، بنیادی سہولیات کی فراہمی میں رکاوٹیں، باعزت زندگی گذارنے سے محرم کرنے کی اسرائیلی پالیسی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں میں شمار کی جاتی ہیں۔رپوٹ میں کہا گیا ہے کہ مذکورہ عوامل غیرمتناسب انداز میں فلسطینیوں بالخصوص بچوں کی زندگی پر منفی اثرات مرتب کررہے ہیں۔اقوام متحدہ نے اپنی رپورٹ میں اسرائیل کی انتقامی پالیسیوں کے نتیجے میں گھروں کی چھت سے محروم ہونے والے فلسطینیوں کے چونکا دینے والے اعدادو شمار بھی بیان کیاہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ۲۰۱۶ء کے دوران غرب اردن میں مکانوں سے محروم ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد میں ۲۰۰۹ء کی بہ نسبت ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔ گذشتہ برس صہیونی ریاست نے۹۵۷ بچوں سمیت۱۰۶۱فلسطینیوں کواپنے آشیانے سے محروم کردیاتھا۔فلسطینیوں کی۷ لاکھ۳۰ہزار امریکی ڈالرقیمت کے مساوی۳۰۰ املاک پرغیرقانونی طور پرقبضہ کیا گیا۔ دسمبر۲۰۱۶ء کے دوران غرب اردن میں فلسطینی شہریوں کی نقل وحرکت پر۲۷۵ بار پابندیاں لگائی گئیں۔ صرف غرب اردن کے جنوبی شہر الخلیل میں۱۱۰مرتبہ پابندیاںلگائی گئیں۔دیگر فلسطینی علاقوں کے ساتھ ساتھ اسرائیل کی غزہ کی پٹی کے حوالے سے انتقامی پالیسی بھی بدستور برقرار رہی ہے۔ غزہ پر گذشتہ دس سال سے مسلط ناکہ بندی نے شہریوں کی زندگی اجیرن بنا دی ہے۔
’اوچا‘ کی رپورٹ کے مطابق۲۰۱۶ء کے دوران غزہ کی پٹی میں آمد ورفت پرپابندیوں میں مزید سختی کی گئی جس کے نتیجے میں غیرملکی امدادی اداروں کے کارکنوں کی غزہ آمد ورفت میں مشکلات پیدا ہوئیں۔ دستیاب اعدادو شمار کے مطابق صہیونی انتظامیہ کی طرف سے غزہ کے باہر جانے یا غزہ میں داخل ہونے کے حوالے سے آمد ورفت پر پابندیوں میں مزید سختی کی گئی جس کے نتیجے میں غیرملکی امدادی اداروں کے کارکنوں کی غزہ آمد ورفت میں ناقابل بیان مشکلات حائل ہوئیں۔ اعدادو شمار کے مطابق صہیونی انتظامیہ کی طرف سے غزہ کی باہر جانے یا غزہ میں داخل ہونے کے حوالے سے دی گئی۱۳ فی صد درخواستیں مسترد کردی گئیں۔غزہ کی بیرون ملک رابطے کے لیے استعمال ہونے والی رفح گذرگاہ مصر کی جانب سے مسلسل بند ہے اور گذشتہ پورے سال میں صرف۴۴ دن یہ گذرگاہ ہنگامی بنیادوں پر مختلف اوقات میں کھولی گئی تھی۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غزہ کی پٹی کے عوام کے مسائل اور بحرانوں کی ایک بڑی وجہ حماس اور فلسطینی اتھارٹی کے درمیان محاذ آرائی بھی ہے۔اقوام متحدہ کی اس تفصیلی رپورٹ کے بعد ہرکوئی یہ تسلیم کرنے پر مجبورہوجائے گاکہ اقوام متحدہ مسئلہ فلسطین اورفلسطینیوںپرہورہے اسرائیلی مظالم کے خلاف سنجیدہ ہے مگریہ صرف آئینہ کا ایک رُخ ہے۔ اس کا دوسرا رخ وہ ہے جس میں اقوام متحدہ انسانی حقوق کی کروڑخلاف ورزیوںکے باوجود اسرائیل کے خلاف کوئی ٹھوس کارروائی کیلئے اقدامات کرنے کے بجائے اسرائیل کی حوصلہ افزائی کرتی نظرآرہی ہے۔پوری دنیامیں اسرائیلی پالیسی کی مذمت کرنے کا سلسلہ جاری ہے، خود اقوام متحدہ کے اوچانے تفصیلی رپورٹ جاری کرکے فلسطینیوںپرڈھائے جانے والے اسرائیلی مظالم کاپردہ فاش کیا ہے مگردوسری جانب اقوام متحدہ نے۲۱؍ستمبرسے شروع ہونے والے اپنے ۲۷ویں جنرل اجلاس کے نائب صدرکے طورپراقوام متحدہ میں صہیونی مندوب ڈانی ڈانوکومنتخب کیا ہے، حالاںکہ اس پرعرب بلاک کی نمائندہ قطرسمیت شام اورایران نے سخت اعتراض کیا لیکن اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کے صدر پیٹرتھامپسن پر اس کا کوئی اثرنہیں ہوا۔ایسے میں فلسطین کے تئیں اقوام متحدہ کی کارگزاریوں اوراس کی منافقانہ پالیسیوں پرسردھنسنے کے علاوہ اورکیا کیا جاسکتاہے۔ عصرحاضرکایہ بہت بڑا المیہ ہے کہ ہم فلسطین کوفراموش کرتے جارہے ہیں۔قبلہ اول کی حفاظت کے لئے ہمارے رگوںمیں تپش پیدانہیں ہورہی ہے۔ہمیں ہرگزیہ نہیں بھولنا چاہئے کہ انبیاء کی سرزمین فلسطین سے نہ صرف مسلمانوں کا مذہبی وجذباتی رشتہ ہے بلکہ وہ عالم اسلام کا مجموعی سرمایہ بھی ہے۔ آخرحج وعمرہ اورعراق وشام کے مقامات مقدسہ کی زیارت کے سفرکرنے والوںکومسلمانوں اپنے قبل اول کی زیارت سے کس نے روک رکھاہے۔ بالفرض یہ مانا جاسکتا ہے کہ فلسطین کا سفرمشکل ترین ہے مگرمحال تونہیں؟ہربار مسجداقصیٰ کے امام مسلمانوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ یہ امت مسلمہ کی امانت ہے اس لئے وہ کثیرتعدادمیں یہاں آئیں مگران کی ہرآوازصدابہ صحرثابت ہورہی ہے ا ور ۱۴ ؍ جولائی سے تادم تحریر مسجد اقصیٰ کے احاطے میں اسرائیل کی طرف سے میٹل ڈٹیکٹر نصب کر نا مسلمانوں کو اس حرم مقدس میںنماز کی ادائیگی سے روکنے کی منظم سازش ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ مسلمان اسرائیلی کی اس زور زبردستی کے خلاف سراپا احتجاج ہیں جب کہ پوری دنیا میںاسرائیل کی فلسطینیوں کے خلاف دہشت اور وحشت کے حربے آزمانے کی تھو تھو ہورہی ہے ۔ اس وقت مسلمان احتجاجاً مسجد سے با ہر سڑک پر نماز یں اداکرتے ہیں اور مسلمانوں کے اس مقدس ترین معبد میں اسرائیلی مداخلت کا زوروشور سے مطالبہ کر رہے ہیں ۔ اب دیکھئے عالمی برادری کس طرح منافقت کا لبادہ اوڑھے خاموش ہے ۔