بشارت بشیرؔ
انسانی کاوشوں کا محور ومرکز جب بس حصول دنیا بن جائے اور مادہ پرستی کی دوڑ میں حلال وحرام کی تمیز جب نہ رہے، اخلاقی اور روحانی اقدار جب اس بھاگم دوڑ میںروندے جائیں،دین کے احکامات کی عیاں سرتابی بھی جب کھلی آنکھیں دیکھ نہ پائیں تو ایک ایسا فساد ضرور پھوٹ پڑے گا جو انسانی معاشروں کی بنیادوں کو ہلا کے رکھ دے گا۔ ابتدائے آفرنیش سے یہ فسادات اور پھر ان کے بھیانک نتائج سے دنیا تو واقف ہے ہی اور قرآن نے تو صراحتاً اُن کے انجام بد سے اہل دنیا کو پہلے ہی آگاہ کیا ہوا تھا جن کی ہر سانس بس زرو زمین کا وظیفہ رٹتی آئی ہے۔لیکن اُخروی باز پرس اور اصل مقصد زندگی سے بے خبر انسان بس اسی ڈگر پر چل کر نہ صرف دنیوی رسوائی وعتاب ونفرت وکدورتوں کا شکار ہے بلکہ اپنی آخرت کی نیا بھی ڈبو رہا ہے۔حلال وحرام کا فرق جب انسانی آنکھ نہ دیکھ پائے تو سمجھ لیجئے کہ روحانی بصارت وبصیرت سے محروم ہوچکا ہے اُس سے اب کسی خیر کی توقع کی ہی نہیں جاسکتی۔دنیا کمانے کے قرآن کے بنائے اصولوں کو نظر انداز کرتے ہوئے جب اُن ذرائع کا انتخاب کیا جائے جو سرے سے ہی حرام ہوں تو لامحالہ نتائج ہوش ربا ہی آجائیں گے۔ چوری چکاری ۔ڈاکہ زنی، لوٹ مار، حق تلفیاں، ملاوٹیں اور ہم چو قسم کی دیگر حرکات جہاں اسلام نے حرام قرار دی ہیں وہاں جُوا اور اس کے سبھی اقسام بھی کلی طور حرام کے زمرے میںاسلام نے داخل کرکے رکھ دئے ہیں۔ ان کی حکمتوں پر بات کی جائے تو کتابیں ترتیب دی جاسکتی ہیں ۔ فی الوقت ہم جس دور سے گذررہے ہیں، جوئے کی نئی نئی شکلیں جنم لے رہی ہیں ۔ ڈریم الیون، الیون سرکل، ونزولیب ،لوڈو اور اسی طرز کے بے شمار ایپ ہیں جن کے ذریعہ جوابازی کا بازار باالخصوص نوجوانوں میں روبہ ترقی ہے۔ فیس بک اور یوٹیوب پر ان Appsکے بے شمار اشتہارات چلتے رہتے ہیں اور ہر ویڈیو کے درمیان ایک کھلاڑی آکر کہتا ہے کہ ’’کھیلوگے نہیں تو جیتو گے کیسے‘‘ یوں جوئے کا یہ سلسلہ دراز تر ہے۔ اس طرح دنیا بھر میں نہ جانے کتنے لوگ اپنی پونچی تک سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں ۔ اُن کا سارا کاروبار ڈوب جاتا ہے یا پائی پائی کے محتاج بن جاتے ہیں۔ لیکن یہ نشہ اس قدر مدہوش کن ہے کہ اس کام میں شریک آدمی کو اپنا نفع ونقصان کچھ بھی یاد نہیں رہتا۔
اسلام نے ہر اُس شر سے روک رکھا ہے جس سے انسانی زندگی پریشانی کے بھنور میںپھنس جائے۔ یہ’’ جوا اور سٹہ ‘‘ بھی اس قبیل کا شر ہے۔ اسی لئے توفرمایا: کہ ’’ اے ایمان والو! حق یہ ہے کہ شراب اور جوا وغیرہ اور قرعہ اندازی کے تیر یہ سب گندی باتیں ہیں اور شیطانی کام ہیں ۔ سو ان سے بالکل دور رہو، تاکہ تم کامیاب ہوجائو، دور رہنے کا مطلب ہی ہے کہ اس کے قریب بھی نہ پھٹکو، اس کے قریب گئے، اس میں دل چسپی پیدا ہوئی یہ جان کر میںتو ذہین ہوں، یہ کھیل میرا کچھ نہیں بگاڑے گا، یہ وہم اورجنوں کے سوا کچھ نہیں۔شیطانی دائو اتنے لذیذاور پر فریب ہوتے ہیں کہ انسان کو پتہ ہی نہیں چلتا کہ اُس کی نیا اُلٹ چکی ہوتی ہے۔کچھ لوگ یہ کام ابتداء میں ٹائم پاس کے طور پر کرتے ہیں لیکن انجام کاران کے ٹائم کا لمحہ لمحہ کرب دیتا ہے۔پچھلے کئی برسوں سے دیکھا جارہا ہے کہ عوام میں’’آن لائن جوئے ‘‘کی عادت بڑھتی جارہی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق تقریباً80%فیصد ممالک کے شہری سال میںکم از کم ایک بار جوا کھیلتے ہیں ۔ اس جوئے میں مبتلا شخص جوا کھیلنے کے لئے کچھ بھی کرسکتا ہے، کسی بھی حد کو پار کرسکتا ہے ،وہ اپنی گاڑی ، گھر، موبائل سب کچھ گروی رکھنے یا کھونے تک پر بھی آمادہ ہوجاتا ہے۔ اس میدان میں نوجوانوں کے بڑھتے قدم انتہائی ہوش ربا معلومات فراہم کررہے ہیں ۔آن لائن جوئے میںاولادنے اپنے باپ کو بھی مارا۔ یہ کوئی شگوفہ نہیں بلکہ حق ہے ۔ایک مثال BBCاُردو نیوز نے ہندوستان کے صوبہ پنجاب کی بیان کی ہے کہ لاکھوں روپے گنوانے کے بعد ایک شخص نے اپنے باپ کو موت کے گھاٹ اُتاردیا،پھر کہانی گھڑی کہ اُس کے باپ کو ڈاکوئوں نے مارا ہے۔ ایس ایس پی کا کہنا ہے کہ ملزم کو شک کی بنیاد پر گرفتار کیا تو پھر وہ کھل کر بول پڑا کہ اس نے اپنے والد کو جوئے میںہارنے والے پیسوں کے بارے میں کئی طریقوں سے گمراہ کرنے کی کوشش کی ،لیکن اس کے والد رقم کے بارے میں لگاتار پوچھتے رہے۔ آخر کار اُنہوں نے والد کو بتایا کہ اُنہوں نے یہ رقم چندی گڑھ میںایک کاروبار میںلگادی ہے۔ باپ پھر بھی مطمئن نہیں ہواجس کے بعد اُس نے والد کو قتل کرنے کا ہی منصوبہ مسئلہ کا آخری حل سمجھا۔یوں اُس نے ایک گاڑی میںاپنے والد کا کام تمام کیا۔یاد رہے کہ اکثر والدین اپنے بچے کو روز’’آن لائن ویڈیو گیمز‘‘ سے روکنے کیلئے کاوشیں کرتے ہیںلیکن ایک ایسے والد جن کے لئے یہ معمولی بات تھی، نے جب اس حوالہ سے اپنی غفلت کی داستان سنادی تو رونگٹھے کھڑے ہوئے ۔ بی بی سی نیوزکے مطابق اس والد نے بتایا کہ میں نے مدتوں یہ سوچا تک نہ تھا کہ GAMINGزبردست جوا کھلا سکتی ہے۔کہا کہ اُن کا بیٹا اس لت کا شکار ہوا۔والد کا نام سیٹوہے وہ چرچ کے صحن میںبی بی سی کے نمائندے سے بات کررہا تھا،اُس نے کہا۔ ہم نے تین برس انتہائی مشکل حالات میں گذارے کوئی بھی ان کربناک مراحل سے نہ گذرے جن سے ہمیں گذرنا پڑا۔کہا ایک ر ات ان کے بیٹے نے پورے ہفتے کی آمدنی ڈبودی۔ والدین سے مدد مانگی تو اُنہوں نے وہی کیا جو سارے والدین کرتے ہیں۔بیٹے کا قرضہ اُتار دیا اس اُمید پر کہ یہ عادت اب ختم ہو،مگر مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ اُس نے کہا کہ ابتداء میں لگا کہ یہ چھوٹا سا مسئلہ ہے بچے تو ایسا کرتے رہتے ہیں اوراس خوش فہمی نے توہماری اینٹ سے اینٹ بجا کے رکھ دی، سیٹو نے کہا کہ میری پریشانی اُس وقت اور بڑی جب معلوم ہوا کہ بیٹا اب دوسروں کے پیسے سے جوا کھیل رہا ہے،کہا ہم سکتے میںتھے نہیں جانتے تھے کہ اب کیا کیا جائے۔ اُس کا کہنا تھا کہ فٹ بال گیمز سے یہ عادت پروان چڑھی،جس میںگھنٹوں آن لائن وقت گذاری سے ہی اُسے جوئے کی لت پڑی۔ یوں یہ گھر تباہی کا شکارہوا۔
جوئے کی ان جدید اشکال نے دنیا بھر میں کیا اُدھم مچا کے رکھ دی ہے،قلم بیان کرے تو خون کے آنسو روئے۔ واقعات اس قدر لرزہ خیز اور پریشان کن ہیں کہ انسان سر پکڑ کے بیٹھ جاتا ہے۔ یہ وبا ہماری ریاست کے طول وارض میں بھی پھیل چکی ہے اور حالیہ ایام میںایک نوجوان اسی نشۂ مدہوشی میں خود اُس کے بیان کے مطابق90,80لاکھ روپے سے ہاتھ دھو بیٹھا ہے۔ اُس میںسے تھوڑی ہی رقم اپنی تھی باقی قرضوں کے بوجھ تلے دب چکا ہے۔وہ اب دھاڑیں مار مار کے رو رہا ہے، مختلف ’’یو ٹیو برز‘‘ اُس کے پاس جاکر اُس کی داستان عبرت لوگوں کو سناتے ہوئے اس جوئے اور سٹہ بازی کے مضرات سے لوگوں کو آگاہ کررہے ہیں، وہ درست کہہ رہے ہیں کہ اپنے بچوں کو ان روگوں سے دور رکھنے کے لئے والدین اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں۔ لیکن ایک اور یوٹیو بر کے مطابق جس کی بات کو بھی نکارا نہیں جاسکتا ہے کہ ان ہی یوٹیو برز میںسے بہت سارے لوگ تھے کہ جب ’’ڈریم الیون‘‘ میںیہاں کوئی نوجوان جیت گیا ،تو وہ اس کے پاس گئے، انٹرو یوز لئے، مبارک باد یاں دیں،یہاں تک کہ اُنہیں ’’بڑی شخصیات‘‘ کے زمرے میں شامل کرکے اُس سے نوجوانون اور عام لوگوں کے لئے پیغام بھی جاننا چاہا۔راجوری سے بھی ایسے ہی بھیانک واقع کی شنید ہے جس میںایک نوجوان نے ایک کروڑ سے زیادہ کی رقم دائو پر لگا دی، اب زمین سرک چکی ہے اور آسماں بھی اُس پر چار آنسو بہانے پر آمادہ نہیں ۔
بہر حال سماج سے وابستہ ہر شخص کو جاگنا چاہیے کہ اس حوالہ سے مزید خواب غفلت میںرہنا انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔غور کیجئے کہ وہ نوجوان جس نے اپنی ماں کو مارا، اپنے باپ کا قتل کیا، یا یہی نوجوان جو اپنا سب کچھ کھو کر اب سڑکوں پر آچکے ہیں اور اعتماد کی دولت سے وہ کلی طور محروم ہوکے رہ گئے ہیں،اب وہ تائب تو ہوگئے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرنے والا ہے۔لیکن ہماری نئی نسل اس سے سبق سیکھ لے کہ انسانی حرص جب اپنے حدود کو پھلانگتی ہے تو نتائج اُسی قدر لرزہ خیز آتے ہیں۔
یاد رکھئے جوئے کو قرآن نے شراب کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ کیونکہ یہ بھی نشہ آور اور نشہ انگیز ہے۔ انسان جس طرح خمر سے مخمور ہوتا ہے،جوئے کی لت پڑ جائے تو شراب سے بڑھ کر ہے۔ یہ خمار تب تک اُترتا نہیں جب تک مالداروں کو کنگال اور بے عزت کرکے نہیںرکھ دیتا۔پھر گاڑیاں، محلات، مکانات، دکانات یہاں تک کہ ہر شئے بازار میں نیلام ہوتی ہے۔ساری زندگی کا ماحاصل رسوائی ،خجالت، ڈیپرشن، تنائو اور مسلسل کرب ہوتا ہے، اللہ بچائے۔ آئیے ہم اپنے اور اپنی اولاد کو بچانے کی فکر کریں۔ یہی پیغام(قُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَ اَہْلِیْکُمْ نَارًا ) کے فرمان الٰہی میںپوشیدہ ہے۔
رابطہ۔7006055300