سید مصطفیٰ احمد
یہ ایک حقیقت ہے کہ کوئی بھی سماج برائیوں سے مبرّا نہیں ہے۔ برائیاں سماج کی ناقابل تردید حقیقت ہے۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ برائیاں اپنا رنگ بدلتی رہتی ہیں۔ ایسا ہی کچھ مسئلہ آن لائن برائیوں کے ساتھ بھی ہیں۔ برائیاں تو پرانی ہی ہیں لیکن انداز اور شدت میں نمایاں تبدیلیاں آئی ہیں۔ کسی زمانے میں مخصوص مقامات پر مخصوص اوقات پر برائیاں انجام دی جاتیں تھیں لیکن اب انٹرنیٹ کے اس زمانے میں نہ جگہ کی کوئی مخصوصیت اور نہ ہی وقت کی پریشانی ہے، جب کسی انسان کا جی چاہتا ہے ،وہ برائیوں کی دلدل میں اپنے آپ کو بڑے آرام سے ملوث کرسکتا ہے۔یہ تو حقیقت ہےکہ گناہوں کی جڑوں کو کاٹنا کوئی آسان کام نہیں ہے لیکن انٹرنیٹ کے اس information boom میں گناہوں کی مختلف شکلوں پر تھوڑی سی روشنی بکھیرنا ہی اس مضمون کو صفحہ قرطاس پر اُتارنا مقصود ہے۔
اصل میں consumerist mindset نے لوگوں کو اندھا کر دیا ہے۔ چند ماہ قبل ایک مفکر نے میرے ساتھ ایک مفید بات شیئر کی۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ زمانے کو ان الفاظ میں سمویا جاسکتا ہےکہ میں کماتا ہوں، اس لیے میں زندہ ہوں۔ اُن کا منشا تھا کہ جب تک نہ لوگ بڑے اور شاندار ہوٹلوں میں کھانا نہیں کھاتے ہیں اور بین الاقوامی شاپنگ مالز میں خریداری نہیں کرتے ہیں، تب تک لوگوں کا جینا کوئی بھی جینا نہیں ہے۔ آپ حلال یا حرام، کسی بھی طریقے سے کمائیں، لیکن خریداری اور پیٹ پوجا بڑے بڑے دکانوں پر ضرور ہونی چاہیے۔ اس consumerist culture کی آڑ میں گناہوں کا،خاص کر آن لائن گناہوں کی شدت میں اضافہ ہونا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ سماج فرد کی بہبودی سے غرض رکھتا ہے، اگر کلہم طور پر لوگ گناہوں میں رہنے سے خوش ہیں تو سماج کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔ سماج کا کام ہے چلنا۔ سو یہ چلتا رہتا ہے، چیزیں آتی اور جاتی ہیں لیکن جب پورا سماج ہی گناہوں کا دوسرا نام بن جائے، تب مصیبتوں کے دروازے کھل جاتے ہیں کیونکہ اس وقت انسان کی وقعت کم مگر چیزوں کی قیمت سر چڑھ کر بولتی ہے۔ اس کے علاوہ دبی ہوئی ضروریات ِزندگی کو جب بھی ہَوا ملتی ہے، تب گناہوں کا لاوا پھوٹنے میں زیادہ دیر نہیں لگتی۔ ہمارے یہاں بیشتر لوگوں کے دبے جذبات کو صرف ہوا لگنی کی ضرورت ہوتی ہے اور پھر سارے کا سارا جنگل راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ میں نے بہت سارے نونہالوں کو آن لائن دنیا میں اپنے دبے ہوئے جذبات کا بھرپور اظہار کرتےہوئے پایا ہے۔ اس طریقے سے ان معصوموں کو کچھ لمحوں کے لیے ہی سہی ،سکون میسر ہوتاہے جو دبانے سے کبھی بھی حاصل نہیں ہوا تھا۔ مزید برآں یہ کہ جب بیشتر لوگ جوابدہی کے احساس سے خالی ہوجاتے ہیں تو گناہوں کا پھیلنا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ پہلے زمانے میں لوگ گناہ کرنے کے باوجود بھی دوسرے لوگوں کی نگاہوں میں نہیں آتےتھے، کیونکہ چیزوں کا ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچنے میںوقت درکار ہوتا تھا۔ اس کے برعکس آج سوچ سمجھ کر گناہ کرکے آن لائن شیئر کئے جاتے ہیں اور کوئی قباحت بھی محسوس نہیں کی جاتی ہے۔
خرابی تو خرابی ہے، اس کو مختلف پرتوں میں لپیٹنے سے حل نہیں نکل سکتا ہے۔ ذی حس لوگ گناہوں سے حتی الامکان دور رہ کر اور دوسرے لوگوں کو بھی گناہوں سے دور رہنے کی تلقین بڑی شانتی سے کرتے ہیں۔ ہمارے سماج میں ہر کوئی گناہوں کے خلاف گلا پھاڑ پھاڑ کر لوگوں کے کانوں میں نصائح کے نہ تھمنے والی سطریں ٹھوس رہا ہے۔ لیکن حاصل صفر۔ ایک ہندو مقرر کی بات مجھے بہت اچھی لگی ،جو کہتے ہیں کہ دنیا میں نصائح کرنے والوں کی بہتات ہے، لیکن گناہوں کے حمام میں سب کے سب ننگے ہیں۔ جب تک نہ اندر کی دنیا سے گناہوں کے متعلق بیداری پیدا ہوجائے، تب تک رسمی نصائح بےسود ثابت ہوتی رہیںگی۔ اب گناہ آن لائن ہوں یا پھر آف لائن، بُرائیوں کی روک تھام ہر سماج کی ترجیحات میں رہی ہے۔ ہم سب بھی علم کے نور سے منور ہوکر گناہوں کی روک تھام کے لیے کوششیں کرسکتے ہیں۔ انسان اور انسانیت کی بقا کی خاطر زندگی کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ خرابیوں کا قلع قمع صرف گناہوں کے بارے میں صحیح علم حاصل کرنے کے بعد ہی کیا جاسکتا ہے۔ میں ناصح بننے کی بالکل کوشش نہیں کر رہا ہوں، میں چاہتا ہوں کہ ہزاروں سال سے چلتی آرہی اس دنیا میں اب کونسے ایسے راستے ہوسکتے ہیں کہ دائمی امن اور اچھائی کی مضبوط بنیاد ڈالی جائے۔ اللہ سے دعا ہے کہ حقیقی سلامتی ہمارے سماج کا دائمی جز بنے۔
(رابطہ۔7006031540)
[email protected]